عالمی خوشحالی کیلئے امن کی اہمیت

دنیا کے زیادہ تر حصوں میں لفظ '' ایتھوپیا‘‘ کو قحط‘ کشمکش اور غربت کا مترادف سمجھا جاتا ہے ۔ اس غریب اور پسماندہ ملک نام آتے ہی ذہن میں قحط زدہ آبادی‘ جنگ اورسرحد پار کشمکش کا تصور ابھرنے لگتا ہے ‘ لیکن یہ سب کچھ ماضی کا حصہ ہے ۔ آج کی صورتِ حال مختلف ہے ۔ ایتھوپیا کو کبھی آفت زدہ علاقوں کے سٹڈی کیس کے طور پر دیکھا جاتا تھا‘ لیکن آج اسے افریقہ میں ترقی کی علامت کے طور پر دیکھا جارہا ہے ۔ 8.5 معاشی شرح نمو کے ساتھ خطے میں سب سے تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت رکھنے والا ایتھوپیا معاشی اصلاحات ‘ صنعت سازی اور غیرملکی سرمایہ کاری کے لحاظ سے ''افریقہ کا چین ‘‘ کہلاتا ہے ۔ ان کامیابیوں کی تصدیق موجودہ وزیراعظم ابی احمد کو نوبل انعام ملنے سے ہوتی ہے ۔ انہوں نے اپنے ہمسا یہ ملک اریٹریا کے ساتھ امن قائم کرنے میں شاندار کامیابی حاصل کی ۔ ابی احمد نے اپنے پیشرو کے استعفے کے بعد اپریل 2018 ء میں عہدہ سنبھالا۔ اس سے پہلے تین سال تک ملک کی گلیوں اور سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے ہورہے تھے ۔ انہوں نے اپنی ہمسایہ ریاستوں کے ساتھ امن قائم کرنا اپنی اولین ترجیح قرار دی۔ سب سے پہلے اریٹریاکے ساتھ تعلقات کی بحالی کو اپنی ترجیح قرار دیا ۔ ایتھوپیا کی ارٹیریا کے ساتھ 1998-2000ء کی جنگ کے بعد سے ان کے تعلقات مفلوج تھے ۔ ابی احمد نے کامیابی سے اس کشمکش کا خاتمہ کیا ۔ اس کے علاوہ انہوں نے سوڈان کے ساتھ بھی قیام ِ امن میں اہم کردار ادا کیا۔ اس مقصد کیلئے اُنہوں نے اپنے ملک کی فوجی قیادت اور اپوزیشن کو بات چیت کا دوبارہ آغاز کرنے کے لیے قائل کیا اور سعودی عرب اور یواے ای کو اس ضمن میںثالثی کرنے پر راضی کیا ۔
ترقی ‘ خوشحالی‘ قانون کی حکمرانی اور سماجی ہم آہنگی کے لیے امن ضروری ہے۔ جب امن کے اتنے سارے فوائد ہیں تو ہم ترقی یافتہ ممالک کو بھی جنگوں اور تنازعات میں الجھے ہوئے کیوں دیکھتے ہیں؟ اس کی وجہ ایک سوچ ہے کہ اگر ہم جنگ جیت گئے تو ہم دوسروں پر غالب آئیں گے اور اُنہیں کنٹرول کرلیں گے ‘ تاہم غلبہ پانے کی یہ کوشش ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوئی ہے‘ کیونکہ انسانی تاریخ طویل جنگوں‘ جیسا کہ حالیہ تاریخ میں ویت نام اور افغانستان‘ کے تباہ کن نتائج سے آگاہ ہے ؛اگرچہ کام بہت مشکل ہے ‘ لیکن ہمارے وزیر اعظم عمران خان کی خطے میں‘ اسلامی دنیا میں‘ اور عالمی سطح پر امن قائم کرنے کی کوششیں قابل ِ تعریف ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو امن مذاکرات کی میزپر لانے میں ناکامی پر وزیراعظم عمران خان کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔ بعد میں مودی نے کشمیر میں جارحانہ کارروائی کی‘ تاہم کوئی رہنما بھی بیک جنبش ِقلم امن قائم نہیں کرسکتا اور نہ ہی بیانات سے امن قائم ہوتا ہے ۔ یہ اصولی موقف ہے ‘جو آہستہ آہستہ‘ لیکن یقینی طور پر دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچتا ہے ۔ سیاست دان فطری طور پر مختصر مدت کے چکاچوند کاموں کو پسند کرتے ہیں‘ وہ ایسی کوشش کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے ‘جو مشکل بھی ہو اور اس کا اگلے انتخابات تک کوئی نتیجہ برآمدہونے کا امکان نہ ہو۔ 
انڈیا کے ساتھ امن مذاکرات سعیٔ لا حاصل دکھائی دیتے ہیں‘ لیکن ان سے ایک مثبت اور تعمیر ی تاثر ضرور ملتا ہے ۔ مثال کے طور پر فروری 2019 ء میں بالا کوٹ میں بھارتی حملے کے دورا ن اور پھر بھارتی پائلٹ کے قیدی بنائے جانے پر وزیراعظم عمران خان نے دلیرانہ اقدامات اٹھائے ۔ مخالفت کے باوجود انہوںنے تنائو کم کرنے کیلئے پائلٹ کو رہا کردیا۔ اس اقدام کو عالمی سطح پر سراہا گیا۔ اس سے اس سے تاثر کو تقویت ملی کہ پاکستان دہشت گردی کا سرپرست نہیں‘ امن کا خواہاں ملک ہے ۔ اس تاثر نے وزیر ِاعظم عمران خان کو طالبان اور امریکہ‘ اور سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالث اورامن کی کوششوں کے سہولت کار کاکردارادا کرنے کے قابل بنایا۔
الغرض امن ایک بہت بڑی منزل ہے ۔ اس کا کوئی آسان یا مختصر راستہ نہیں ‘ اگر ہم حالیہ تاریخ میں پیش آنے والے کچھ واقعات کو دیکھیں تو پتا چلے گا کہ جنوبی افریقہ جیسے ممالک امن کے عظیم داعی نیلسن منڈیلا کی وجہ سے مستقل مزاجی‘ عزم اور حوصلے سے منزل حاصل کرنے کی روشن مثال بن گئے ۔ جب نیلسن منڈیلا ملک کے پہلے سیاہ فام صدربنے تو جنوبی افریقہ میں ابھی نسل پرستی کا خاتمہ نہیں ہوا تھا۔ سفید فام اور سیاہ فام افریقی ایک دوسرے کے بدترین دشمن تھے ۔ 
ایک مقبول کھیل‘ رگبی‘ سفید فاموں کا کھیل کہلاتا تھا۔ اس کی ٹیم میں سیاہ فام کھلاڑیوں کو جگہ نہیں ملتی تھی ۔ میچ صرف سفید فام ٹیموں کے درمیان ہوتے ۔ سیاہ فام سٹیڈیم جاکر میچ دیکھ سکتے تھے‘ کھیلنے کی اجازت نہیں تھی ۔ رگبی ورلڈ کپ کے فائنل کے موقع پر مسٹر منڈیلا کی حیرت انگیز پیش رفت نے اس شدید تنائو کا خاتمہ کرتے ہوئے امن اور ہم آہنگی کو فروغ دیا۔ سپرنگ بک ٹی شرٹ سیاہ فام امریکیوں کیلئے نفرت کی علامت تھی ۔ 1995 ء کے فائنل میچ کے دوران مسٹر منڈیلا وہ شرٹ پہن کر کپتان کیلئے خیر سگالی کے جذبات کے اظہار کیلئے میدان میں آگئے ۔ سفید فام شائقین سے بھرا ہوا سٹیڈیم حیرت سے ساکت رہ گیا۔ سب کی زبان پر بے ساختہ ایک ہی نعرہ نکلا‘ ''نیلسن ‘‘ ۔ اُنہیں اس عظیم رویے کا احساس ہوگیا تھا۔ جنوبی افریقہ نیوزی لینڈسے میچ نہیں جیت سکتا تھا‘ لیکن ''ایک ٹیم ‘ ایک ملک ‘‘ کے جوشیلے نعرے نے جنوبی افریقہ کی ٹیم کی رگوں میں ایسی بجلیاں بھر دیں کہ اُنہوں نے نیوزی لینڈجیسے مضبوط حریف کو زیر کرلیا۔ حالیہ تاریخ کا ایک اور مشکل امن معاہدہ 14 دسمبر 1995ء کو بوسینا‘ سربیا اور کروشیا کے رہنمائوں کے درمیان دیکھنے میں آیا۔ ڈے ٹان معاہدے نے دوسری جنگ عظم کے بعد یورپ میں ہونے والی بدترین خانہ جنگی ختم کردی۔ اس میں ایک لاکھ افراد جاں بحق اور بیس لاکھ بے گھر ہوئے تھے ۔ سربیا کے لیڈر Slobodan Milosevi پربوسینا کی جنگ میں نسل کشی اور کوسوہ میں جنگی جرائم کے الزام میں 1999 ء میں اقوام ِ متحدہ کے خصوصی ٹربیونل کے سامنے مقدمہ چلایا گیا‘ تاہم وہ مقدمہ ختم ہونے سے پہلے ہی مرگیا۔ کئی عشروں کی کشمکش کے آئرلینڈ میں بھی امن ہوگیا۔ دس اپریل 1998 ء شمالی آئرلینڈ میں ضدی اور منہ زور دشمنوں کے درمیان بظاہر ناممکن دکھائی دینے والا معاہدہ ہوگیا۔
بدگمان‘ سنکی اور قنوطی تجزیہ کار قیام ِ امن کی کوششوں کوسعی ٔ لا حاصل قرار دے کر مسترد کردیتے ہیں۔وہ بھول جاتے ہیں کہ امن کی کوشش کا فوری نتیجہ نہ بھی برآمد ہو‘ اس کی وجہ سے مستقبل میں امن کی خوشہ چینی کی راہ ہموار ہوجاتی ہے ؛ چنانچہ پاکستان کو یہ کوشش جاری رکھنی چاہیے:۔ 
1۔ اس خطے میں امن کے بغیر ملک میں امن نہیں ہوگا۔ پاکستان کی تمام سرحدیں مسام دار ہیں؛چنانچہ کسی بھی ہمسایہ ملک میں انتشار ہمارے ملک کو متاثر کرسکتا ہے۔ توقع کی جارہی ہے کہ ہماری معیشت 2020-2021ء میں ترقی کا سفر شروع کردے گی۔ اس صورت میں کوئی بھی جنگ معیشت کی بحالی کے عمل کو شدید زک پہنچائے گی۔ 
2۔ پاکستان کو دہشت گردی کے سہولت کار کی بجائے امن کا داعی ملک قرار دینے کا بہترین موقع آچکا۔ پاکستان کو تمام خرابیوں کی جڑ کے طور پر پیش کیا گیا تھا‘ لیکن اب عالمی برادری نے تسلیم کرنا شروع کردیا ہے کہ یہ قیام ِامن کیلئے کردارا ادا کرنے میں سنجیدہ ہے ۔ یہ پیش رفت سماجی اور ثقافتی طور پر پاکستان کا تاثر بہتر بنائے گی۔ 
3۔ سیاسی‘ مذہبی اور معاشی طور پرہم آہنگی پیدا کرنا ۔ وزیراعظم عمران خان کے یواین جی اے میں خطاب کواسلام اور بین المذاہب ہم آہنگی کی حقیقی روح کے طور پر دیکھاگیا ۔ وزیر اعظم عمران خان کا یہ کردار عالمی فورمز‘ جیسا کہ یواین اور او آئی سی میں پاکستان کو ایک خصوصی حیثیت دلاسکتا ہے ۔ 
دنیا معاشی‘ سماجی‘ انسانی اور عقلی طور پر جنگوں کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ امن ہی سب سے بڑی خوشحالی ہے ‘ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ ذہنی سکون سے بڑی کوئی دولت نہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں