قابل پاکستانیوں کی وطن واپسی

تانیہ ایدرس پاکستان واپس آگئی ہیں۔ میڈیا نے یہ خبر دھماکہ خیز انداز میں لگائی۔ کیوں ؟ اس لیے کہ اعلیٰ ترین عالمی کمپنیوں میں کام کرنے والے بہت کم پاکستانی اپنی پرکشش ملازمتیں چھوڑ کر وطن واپس آنا پسند کرتے ہیں ۔ لیکن کچھ غیر معمولی انسان بھی ہوتے ہیں۔ سمندر پار کام کرنے والے بہت سے پاکستانی ایسا کرچکے ہیں‘ تاہم بہت سے پاکستانی یہاں آکر یا تواس نظام کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیںیا مایوس ہوکرواپس چلے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تانیہ ایدرس کی واپسی کئی حوالوں سے ایک ٹیسٹ کیس ہے ۔ سب سے پہلے یہ سوال کہ اُنہوں نے واپس آنے کے لیے اس وقت کا انتخاب کیوں کیا؟ اُن کی توقعات کیاہیں؟ اورکیاان کے پاس ان مسائل کاحل موجود ہے‘ مثلاًکام نہ کرنے کا وتیرہ‘ افسرشاہی کی بیرونی دنیا سے آنے والوں کی حوصلہ شکنی کی روش‘ علاوہ ازیں سیاستدانوں کے رویے سے نمٹنے کے لیے اُن کے پاس کیا لائحہ عمل ہے؟کیا وہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں؟ خیریہ تو وقت ہی بتائے گا‘ لیکن اگر وہ واقعی ایک تبدیلی کی نمائندگی کرتی ہیں تو پھر جنہوں نے اُنہیں اس کام کے لیے بلایا ہے‘ اُنہیں تانیہ کو سہولت اور کام کرنے کا ماحول فراہم کرنا چاہیے ۔ بیرونی دنیا میں کام کرنے والے باصلاحیت افراد کی صورت میں پاکستان صحت مند ذہنی سرمایہ رکھتا ہے ۔ اس کے پیشہ ور ماہرین‘ ڈاکٹر ہوں یا انجینئر یا سائنسدان‘ عالمی معیار اور ساکھ رکھتے ہیں۔ اُن کی پاکستان کے ساتھ جذ باتی وابستگی بھی ہے‘ تاہم اُن میں سے بہت کم اپنی ذہنی صلاحیتیوں سے ملک کو مستفید کرپاتے ہیں۔ اس کی وجہ اس ملک کا وہ ماحول ہے جو ان ماہرین کی توقع سے مطابقت نہیں رکھتا اور اُنہیں کام چھوڑ کر واپس چلے جانے پر مجبور کردیتاہے ۔
دنیا میں چین کے سربلند ہونے کی وجہ بیرونی دنیا میں کام کرنے والے ماہرین‘ خاص طور پر بہترین جامعات میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کو واپس بلانا تھا۔ چین نے ''تھائوزینڈ ٹیلنٹ پروگرام ‘‘ کے تحت اپنے اُن شہریوں کی شناخت کی جو امریکہ اور دیگر ممالک کی بہترین جامعات میں تعلیم حاصل کرچکے تھے ۔ اُنہیں بھاری مشاہرے پرواپس بلایا‘ پرکشش مالی مراعات دی گئیں‘ ریسرچ کی مد میں فنڈز اورمعقول ٹیکنیکل سٹاف فراہم کیا گیا‘اُنہیں کہا گیا کہ وہ نوجوان طلبہ کو اپنے شعبے کی مہارتیں سکھائیں۔ اُنہیں رہائش‘ کھانا اورزندگی کی دیگر سہولیات کی فکر سے بے نیاز کردیا گیا‘ اُن کی بیگمات کو بھی ملازمتیں دی گئیں۔ انہیں اپنے آبائی علاقوں میں باقاعدگی سے جانے کے مواقع فراہم کیے گئے ۔ ذہنی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کے لیے رقم خرچ کرناپڑتی ہے ۔ چین 1991 ء میں تحقیق اور ترقی پر 9بلین ڈالر خرچ کرتا تھا۔ آج چین اس شعبے میں 409بلین ڈالر خرچ کررہا ہے۔ اس طرح تحقیق اور ترقی کے لیے چین امریکہ کی اس مد میں خرچ کی جانے والی رقم‘ 485 بلین ڈالر کے قریب ہے ۔ 
پاکستان نے اعلیٰ تعلیم پر کوئی سرمایہ کاری نہیں کی ‘ نہ ہی پاکستانی والدین بھارتیوں اور چینیوں کی طرح اپنے بچوں کی اعلیٰ جامعات میں تعلیم پر سرمایہ کاری کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ آئی بی اے کے 1989-90ء میں لیے گئے ایک جائزے کے مطابق امریکی جامعات میں 7,010 پاکستانی طلبہ داخل تھے ۔ دوسری طرف بھا رتی طلبہ کی تعداد 26,240 تھی‘گویا چار گنا زیادہ تھی۔ 2014-15 ء میں یہ فرق مزید بڑھ گیا۔ اب امریکہ میں 5,354 پاکستانی طلبہ کے مقابلے میں داخل بھارتی طلبہ کی تعداد 132,888 تھی۔زیادہ تر بھارتی طلبہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ سائنسی تحقیق میں بھارتی افراد کی تعداد کسی بھی دوسرے ملک کے افراد سے زیادہ ہے ‘ جبکہ ان شعبوں میں پاکستانی خال خال ہی دکھائی دیتے ہیں۔ اس جائزے کے مطابق بھارتی نژاد 250 اساتذہ کے مقابلے میں صرف چار پاکستانی استاد امریکی تعلیمی اداروں میں فرائض سرانجام دے رہے تھے ۔ 
سمندر پار پاکستانیوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے امکانات ماضی میں لگائی گئی توقعات سے کہیں زیادہ ہیں۔ حال ہی میں امریکہ میں موجود پاکستانی تارکین ِوطن کے بارے میں کیا گیا سروے بہت فکر انگیز ثابت ہوا۔ امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی بابت ماضی میں لیے گئے ایک جائزے‘ ''مائیگریشن پالیسی 2015‘‘ سے ظاہر ہوا کہ اُن میں سے کم از کم بیس فیصد کی سالانہ آمدنی 140,000 ڈالر سے زیادہ ہے ۔ پاکستان نژاد امریکیوں کی اوسط آمدن ساٹھ ہزار ڈالر ہے ‘ جو کہ اوسط امریکی خاندانوں سے دس ہزار ڈالر زیادہ ہے ۔ یہ اعدادوشمار سرمایہ کاری کے امکانات ظاہر کرتے ہیں۔ مائیکل کوگلمین نے کتاب ''پاکستان تارکین ِوطن:امکانات کے مواقع اور غیر یقینی پن‘‘ میں اپنے مضمون میں پاکستانی تارکین ِوطن کی بہتر حیثیت کو اجاگر کیا ہے ۔ اُن کے مطابق پاکستانی نژاد امریکی طب‘ اکائونٹنگ اور مالیات کے شعبوں میں کام کرکے دولت کما رہے ہیں۔ امریکہ میں مقیم پاکستانیوںکا 32فیصد پیشہ ورانہ کام ‘ مینجمنٹ‘ قانون‘ تعلیم‘ فنانس اور انسانی وسائل جیسے شعبوں سے وابستہ ہے ۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ تارکین ِوطن کو قومی ترقی کے عمل میں شریک کرنا ایک مرتبہ کی گئی کوشش نہیں بلکہ ایک ہمہ جہت عمل ہے جس کے لیے مسلسل ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے : 
1۔ رابطہ قائم کرنا۔ ان باصلاحیت افراد کی مہارت سے استفادہ کرنے لیے پہلا قدم انہیں ملکی ترقی میں شریک کرنا ہے ۔ بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو اپنے ملک سے غیر معمولی دلچسپی ہے۔ وہ بھی اس تبدیلی کے سفر میں شریک ہونا چاہتے ہیں۔ تاہم اس کے لیے درکار اعتماد سازی کی فضا قائم ہونے میں وقت لگے گا۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی ملازمت کرتے ہوئے کسی تھنک ٹینک یا مشاورتی کمیٹی کا حصہ بنیں ۔ ایسے پلیٹ فارمز سے وہ اپنے تصورات آگے بڑھا سکتے ہیں۔ 
2۔ کچھ متاثر کن رول ماڈل سمندر پارپاکستانیوں کے سامنے مثال پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اُنہیں دیکھ کر وطن واپس آکر کام کرنے کے لیے راغب ہوسکیں۔ تانیہ کا پاکستان آکر کام کرنا یقینامیڈیا میں ایک نمایاں خبر بنا ہے ۔ کچھ دیگر پاکستانی بھی متاثر کن مثالیں ہوسکتے ہیں‘ معید یوسف کو سٹریٹیجک پالیسی اور پلاننگ سیل کا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے ‘ وہ ایک مشہور مصنف اور عالمی امور کے ماہر ہیں۔ عالمی امور میں ماسٹرز اور پولیٹیکل سائنس میں بوسٹن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والے معید یوسف نیشنل سکیورٹی ڈویژن کے تحت چلنے والے سٹریٹیجک پالیسی اور پلاننگ سیل کی قیادت کریں گے۔
3۔ تیسرا قدم ایسے ذہین افراد کو سیاسی تنازعات سے دور رکھنا ہے ۔ ضروری ہے کہ ان افراد کومناسب وسائل اور افسر شاہی کی مداخلت کے بغیر فیصلوں پر عمل درآمد کا اختیاردیا جائے ۔ اُنہیں اتنے مالی وسائل ضرور فراہم کیے جائیں کہ اُنہیں اپنی قربانی کا بہت زیادہ نقصان نہ ہو‘ لیکن بیرونی ممالک سے آنے والے ذہین پاکستانیوں کو وطن میں رکھنے کا یہی مرحلہ سب سے مشکل اور یہی تبدیلی سب سے اہم ہے ۔ پاکستان میں آج بھی سیاست کارکردگی کی بجائے شخصیت پرستی کے گرد گھومتی ہے ‘ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی اچھا انسان عہدہ سنبھالتا ہے تو کچھ بہتری دکھائی دیتی ہے ‘ لیکن بہتری میں تسلسل لانے کے لیے ضروری ہے کہ ایسا ماحول پیدا کیا جائے جس میں افرادکے آنے اور جانے سے نتائج میں کوئی خاص فرق نہ پڑے ؛ چنانچہ سمندر پار پاکستانی ذہانت‘ مہارت اور صلاحیت وطن میں واپس لانے کے لیے ایک خصوصی پالیسی درکار ہے۔ علم اور ذہانت دو ستون ہیں جن کے بغیر ترقی کی عمارت مضبوط نہیں ہو سکتی۔ 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں