مودی کا فسطائی سیکولرازم

دنیا کے اہم ترین کاروباری ادارے کے سابق سی ای او جیک ویلش کا یہ کہنا کہ رعونت ہلاک کردیتی ہے ۔جیک ویلش کا یہ بیان ‘ محض لفاظی نہیں‘ بلکہ ایک کائناتی حقیقت ہے ‘ لیکن جب آپ بہت سے عالمی رہنمائوں کا رویہ دیکھیں تو ہوسکتاہے کہ اس قول کی حقیقت پسندی پر سوال اٹھائیں۔ بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی کا دفاع کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں۔ وہ اس بیان کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیں گے کہ تمام کامیاب انسانوں میں زیادہ خود اعتمادی ودیعت کی گئی ہوتی ہے ‘ جسے عام لوگ رعونت سمجھتے ہیں‘تاہم خوداعتمادی اور پر رعونت غیر معمولی اعتماد کے درمیان ایک نازک حد ِ فاصل ہوتی ہے اور دکھائی دیتا ہے کہ نریندرمودی اس لکیر کو پارچکے ہیں۔ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کو معطل کرکے کشمیریوں کا محاصرہ کرنے کے بعد مودی نے بہت دیدہ دلیری سے شہریت کا ترمیمی بل بھی متعارف کرادیا ۔ اس کا مقصد مسلمانوں پر زندگی تنگ کرکے اُنہیں جلا وطن کرنا ہے ۔ 
بھارتی وزیراعظم مودی کا خیال ہے کہ وہ ایک زیرک چال چل رہے کہ یہ قانون اقلیتوں کو حقوق دیتا ہے ‘ تاہم اس قانون کا غلط استعمال اس کے درست استعمال سے کہیں بڑھ کرہوگا ۔ شہریت کا نیا قانون 1955 ء کی قانون سازی میں ترمیم کرتے ہوئے بنگلہ دیش‘ افغانستان اور پاکستان میں ستم کا شکار اقلیتوں‘ جیسا کہ ہندئووں‘ سکھوں‘ بدھ مت کے پیروکاروں‘ جین ‘ پارسیوں اور مسیحیوں کوبھارتی شہریت کی پیش کش کرتاہے ۔ اس میں مسلمانوں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ جولائی 2016 ء میں پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا یہ قانون مذہب کو شہریت کی بنیاد قرا ر دیتا ہے ۔ سابق قانون میں شہریت حاصل کرنے کے لیے مذہب کے حوالہ کی ضرورت نہیں تھی۔ 
آج کے بھارت میں فسطائیت نے سیکولرازم کا گلا گھونٹ دیا ہے ۔ یہ بل لوک سبھا میں کچھ عرصہ قبل پیش کیا گیا ‘لیکن شمال مشرقی ریاستوں میں اپوزیشن کی مزاحمت کی وجہ سے راجیہ سبھا ( ایوان ِ بالا) میں پیش نہ کیا جاسکا۔ شہریت کا ترمیمی بل ہمسایہ ممالک کی اقلیتوںکو احتجاج پر اکسانے کی ایک عیارانہ چال ہے ۔ اس کے مطابق پاکستان‘ بنگلہ دیش اور افغانستان سے ہندئووں‘ سکھوں‘ جین مت‘ پارسیوں اور مسیحیوں کی آمد کو غیر قانونی نہیں قرار دیا جائے گا۔ ان گروہوں کو بھارتی شہریت آسانی سے دے دی جائے گی‘ تاہم اس فہرست میں مسلمان شامل نہیں۔ درحقیقت بھارت میں موجود دو سو ملین کے قریب مسلمان سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ مودی کو یقین تھا کہ وہ ان سے بھی اتنی ہی آسانی سے نمٹ لیں گے‘ جتنی آسانی سے ایک سو پچاس دنوں سے کشمیریوں کو محاصرے میں بے حال کررکھا ہے۔ یہ وہ مرحلہ ہے‘ جہاں اعتماد رعونت کی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔ 
اب‘ صورت ِحال یہ ہے کہ جو احتجاجی مظاہرے صرف کشمیر تک ہی محدود تھے ‘ وہ اب یوپی کی سترہ ریاستوں تک پھیل چکے ۔ دارالحکومت دہلی میں جامعہ ملیہ کے طلبا پر وحشیانہ تشدد کیا گیا ۔نریندرمودی کے عزائم اب‘ بھارت اور باقی دنیا پر واضح ہوچکے ہیں۔ وہ ہٹلر کے یہودی کش نظریات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مسلمانوں کی نسل کشی پر کمر بستہ ہیں‘ لیکن اُن کی توقع اور منصوبے کے برعکس اس نسل کشی کے خلاف ردِعمل صرف کشمیر‘ پاکستان یا بھارتی ریاستوں کی طرف سے ہی نہیں ‘ بلکہ بہت سے بیرونی ممالک کی طرف سے بھی ا ٓرہاہے۔ آسام میں حکومت نے این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز)متعارف کرادیا ہے ‘ اسے پہلی مرتبہ اگست میں شائع کیا گیااور کم وبیش بیس لاکھ افراد کو اس سفاک فہرست میں شامل کیا گیا۔ خوفناک بات یہ ہے کہ بھارت میں رہنے کے باوجود‘ اگر وہ بھارتی شہریت کا ثبوت فراہم نہیں کرسکتے تو اُنہیں حراستی مراکز میں قیداور پھر بھارت سے نکال دیا جائے گا۔ فی الحال یہ کارروائی صرف آسام تک ہی محدود ہے ‘ لیکن حکومت اسے ملک گیر سطح پر نافذکرنے کا منصوبہ رکھتی ہے ۔ 
کشمیر کے برعکس یہاں احتجاجی مظاہرے جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہے ہیں۔ حد سے بڑھی ہوئی انا کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ ذہن کی سیکھنے کی صلاحیت سلب کرلیتی ہے اور پھر آپ مہلک غلطیاں دہراتے رہتے ہیں‘ جیسا کہ کشمیر میں ہورہا ہے ۔ آسام کے شہر گواہتی میں حکومت نے انٹر نیٹ بند کرکے کرفیو لگارکھا ہے ۔ آسام اور تری پورہ میں بھارتی فوج تعینات ہے ۔ دوسری طرف احتجاجی مظاہرین ''مودی واپس جائو‘‘ کے نعرے لگارہے ہیں۔ بھارتی وزیرِاعظم کے پتلے جلائے جارہے ہیں۔ دہلی‘ کولکتہ ‘ کیرالہ اور نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات میں بھی احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔ اس دوران دیگر ممالک‘ خاص طور پر ہمسایہ ریاستوں پر بھارت کے اس اقدام کی ہولناکی آشکار ہونا شروع ہوگئی ہے‘ کیونکہ ان افراد نے انہی ریاستوں سے ہجرت کی تھی اور نکالے جانے کی صورت یہ انہی ریاستوں کی طرف پناہ کے لیے دیکھیں گے ۔ بی جے پی کے انتہا پسندوں نے جلتی پر تیل گراتے ہوئے مودی کے نعرے کا ساتھ دیا ہے ۔ وزیر داخلہ اور بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے تارکین ِوطن‘ خاص طور پر بنگلہ دیش کی طرف سے آنے والوں کو ''دیمک ‘‘ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ این آر سی بھارت کو ان سے پاک کردے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کے پاس اس مسلے کو عالمی سطح پر اٹھانے کاموقع ہے ۔ اس سے پہلے یہ مسئلہ عالمی اہمیت اختیار کرتو چکا تھا ‘لیکن اُن ممالک تک محدود تھا‘ جنہیں بھارتی سیاست میں کوئی دلچسپی نہیں ۔ حکومت ِ پاکستان نے سب سے پہلے دنیا کی توجہ کشمیر کے بحران کی طرف مبذول کراتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ یہ محض دو قوموں کے درمیان کوئی سیاسی تنازع نہیں ‘ بلکہ اس سے اٹھنے والا طوفان پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے ۔ ضروری ہے کہ حکومت ِ پاکستان اس موقع پر مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائے:۔
1۔ وزیراعظم پاکستان کے عملی اقدامات: تیس اگست 2019 ء کو ''نیویارک ٹائمز‘‘ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون ''دنیا کشمیر کو نظر انداز نہیں کرسکتی‘‘‘ کے بعد ان کو ایک اور مضمون لکھتے ہوئے سرحد پار سے اٹھنے والے خطرے ‘ علاقائی خطرے اور پھر عالمی خطرات کو اجاگر کرنا چاہیے۔
2۔ اس قانون سے براہ ِراست متاثر ہونے والوں کا اتحاد : پاکستان کے بنگلہ دیش سے تعلقات گزشتہ چند ایک برسوں سے بدترین رہے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بنگلہ دیشی وزیراعظم ‘پاکستان کی کٹر مخالف اور بھارت کی اتحادی ہیں‘ تاہم اب حالات تبدیل ہوسکتے ہیں۔ بنگلہ دیشیوں کو حراستی مراکز میں قید کرنے اور پھر ملک بدر کرنے کے خطرے کے پیش ِ نظر بنگلہ دیشی حکومت اور بھارت کے درمیان تنائو کے شواہد دکھائی دے رہے ہیں۔ بنگلہ دیشی وزیر ِ خارجہ نے بھارت کا دورہ منسوخ کردیا ہے ۔ 
3۔قانونی راستہ نہ چھوڑا جائے: اقوام ِ متحدہ نے بھارت میں بڑھتے ہوئے بحران پر اجلاس بلالیا ہے ۔ ایسے اجلاسوں کو بامقصد بنانے کے لیے مزید جارحانہ لابنگ کی ضرورت ہے ۔ عالمی مذہبی آزادی پر اقوام ِ متحدہ کا کمیشن (USCIRF) نے متنازع شہریت بل منظور ہونے کی صورت میں بھارتی وزیر ِداخلہ امیت شاہ اور دیگر اہم قیادت پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے ۔کمیشن نے اپنے بیان میں سفارش کی ہے کہ بھارت میں دونوں ایوانوں سے بل منظور ہونے کی صورت میں امریکی حکومت کو وزیر ِداخلہ اور دیگر قیادت کے خلاف پابندیاں لگانے پر غور کرنا چاہیے ۔ 
مودی کی فسطائی سوچ ناقابل ِ اصلاح ہے ۔اُن کا طریق کار اس قبیل کے مزید بل پیش کرنا اور شہریوں پر ظلم وجبر کرنا ہے ‘جس دوران بھارت میں احتجاجی مظاہروں میں شدت آتی جائے گی‘ تو وہ اس الجھن کا شکار ہوجائیں گے کہ کیا وہ ہاتھ کھینچ لیں یا مزید سختی سے مظاہروں کو دبادیں؟ اُن کا رول ماڈل ہٹلر بھی یہودیوں سے نفرت اور اُنہیں تباہ کرنے کے خبط پر قابو پانے سے قاصر تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں