سفارتی جنگ

جنگ‘ جارحیت اور کشمکش کا بہترین توڑ نرم طاقت کا استعمال ہے ‘ جیسا کہ کہا جاتا ہے ؛پرہیز علاج سے بہتر ہے ‘ اسی طرح سفارت کاری دشمنی پالنے سے بہتر ہے ۔ ہم ایسے پریشان کن اور ہنگامہ خیز دور سے گزر رہے ہیں‘جب امن سے جینا اور ترقی کرنا مشکل ہوچکا ۔ قومیں ایک دوسرے کے علاوہ اپنے آپ کے ساتھ بھی حالت ِ جنگ میں ہیں۔ ہر قوم کے گرد خطرات منڈلا رہے ہیں۔ مشرق ِوسطیٰ میں ایران اور امریکہ کے درمیان جنگی ماحول خطے اور دنیا میں تنائو کا باعث ‘ تو دوسری طرف افغانستان اور شام کئی برسوں سے جنگ کے شعلوں کی لپیٹ میں ‘ اگر امریکہ انتخابات سے قبل جنگی ماحول پیدا کرنا چاہتا ہے تو بھارت انتخابات کے بعد جنگی جنون کی حدت بڑھا رہا ہے۔ یہ طاقت کا روایتی اظہار ہے ‘جو قلیل وقتی طور پر کسی حد تک طمانیت‘ لیکن حتی طور پر تباہی اور بربادی کا باعث بنتا ہے ۔ 
سفارت کاری کی بنیاد مذاکرات پر ہوتی ہے اور مذاکرات ہی رابطے اور افہام و تفہیم کا باعث بنتے ہیں۔ کسی بھی تعلق کی بنیاد فہم پر ہے ۔ تعلقات سے ہی سفارت کاری کی جانچ ہوتی ہے ۔ کسی سفارت کار کا کردار محض دو ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانا ہی نہیں‘ بلکہ عالمی فورمز پر اپنے ملک کے برانڈ کو متعارف کرانا اور ا س کی ترویج کرنا بھی ہوتا ہے ۔بدقسمتی سے پاکستان بوجوہ وسیع تر شراکت داری قائم نہ کر سکا اور نہ ہی وہ برانڈ بن سکا ‘جو مشکل حالات میں ہمارے کام آتا۔ چین اور ترکی کے علاوہ شاید ہی کوئی ملک پاکستان کیلئے اچھا پیغام رکھتا یا بیرونی محاذوں پر ہمارے ساتھ کھڑا ہوتا ہو‘ دوسری طرف یہ بات بھی کئی مرتبہ کی جاچکی کہ بھارت توانا مارکیٹ رکھتا ہے ‘جسے عالمی سطح پر سفارت کاری کے ذریعے بہتر اور مزید خوشنما امیج تخلیق کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ دوعشروں کی اس عکس بندی کے بعد اب کچھ حقیقت کھلنے لگی ہے ۔ پاکستان نے بہت سے بااثر ممالک کو کشمیر پر بات کرنے کے لیے قائل کرتے ہوئے بھارت کے پائوں تلے سے زمین نکال دی۔ اس پر اہم عالمی حلقوں کی جانب سے اپنی کشمیر پالیسی پر نظر ِ ثانی کرنے کے لیے دبائو موجود ہے ۔ کہاں ایک وقت تھا جب بھارت اس موضوع پر بات تک کرنے کے لیے تیار نہ تھا‘ لیکن آج یہ موضوع ہر جگہ اس کا تعاقب کرتا ہے۔ 
بھارتی حکومت اورسفارت کاروں کے لیے دیرینہ آزمودہ نسخہ یہ تھا کہ اپنے دفاتر ِخارجہ کے ذریعے یہ پیغام پھیلایا جائے کہ کشمیر میں حملوں کے پیچھے پاکستان ہے ۔ یہ سہل فارمولا بہت دیر سے کامیابی سے مستعمل تھا کہ اب اسے تبدیل کرنے میں وقت لگ رہا ہے ۔ پاکستان کے سامنے اس جامد بیانیے کو تبدیل کرنے کے لیے امکانات کی ایک کھڑکی کھل چکی۔ اب پاکستان دنیا کو بتارہاہے کہ بھارت ایک تنگ نظر‘ مذہبی عصبیت سے لبریز معاشرہ بنتا جارہا ہے ‘ ایک ایسا معاشرہ ‘جس میں اقلیتوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ دوسری طرف پاکستان دھشت گردی کے دور سے نکل کر خطے اور دنیا میں امن ‘ استحکام اور ترقی کے عمل میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے ۔ 
بھارتی سفارت کاری نے گزشتہ دو عشروں سے اپنے ملک کی بہت خوشنما تصویر پیش کی تھی ۔ مغرب کی نقالی کرنے والے بھارتی میڈیا میں اپنی ثقافت کے چکاچوند مناظراور فروغ پاتی ہوئی معیشت اُن کے سفارت کاروں کو اپنا امیج اجاگر کرنے کیلئے ایک متاثر کن پلیٹ فورم فراہم کرتی۔ تصویر کے دوسری طرف دہشت گردی پھیلانے والے پاکستان کو رکھا جاتا ۔ بالا کوٹ کے بعد انہوں نے اسی آزمودہ نسخے کے ذریعے پاکستان کو ''ڈو مور‘‘ کی دھمکی دینا شروع کردی۔جب پاکستان نے اُن کی دروغ گوئی کا پردہ چاک کرنے کیلئے جارحانہ مہم شروع کی اور پھر طیارے گرانے کے بعد خیرسگالی کے تحت اُن کے پائلٹ کو رہا کردیا‘ تو بھی بھارتی سفارت کاری کا لہجہ تبدیل نہ ہوا۔ انہوں نے حسب ِمعمول وائٹ ہائوس میں اپنی حامی قوتوں کو متحرک کیا‘ تاکہ امریکہ پاکستان کی سرزنش کرے ‘ لیکن پاکستانی وزیر ِاعظم کے امریکہ دورے نے کھیل تبدیل کردیا۔ پاکستان نے مالی امداد لینے سے انکار کرتے ہوئے تجارتی تعلقات بہتر بنانے کی درخواست کی اور افغان امن بات چیت میں سہولت کاری کی پیش کش کی ‘ اس پیش رفت نے بھارتی کیمپ کو چکرا دیا۔جس دوران پاکستان اقوام ِ متحدہ اور عالمی میڈیا میں کشمیر تنازع کو اجاگر کرنے کی جاندار کوشش کررہاتھا‘ بھارت کشمیر کے محاصرے اور تعلیمی اداروںمیں کریک ڈائون پر پردہ ڈالنے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ جب امریکہ اوریورپ کے بااثر سیاست دان بھارتی موقف تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنی پالیسیوں پر نظر ِ ثانی کرنے کا مطالبہ کرنے لگے تو بھارتی میڈیا نے غیر ملکی سفارت کاروں پر تنقید شروع کردی۔ کچھ ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ ستمبر 2019 ء میں مودی کے بھارت نژاد امریکیوں سے خطاب‘ جسے ''Howdy Modi‘‘‘ کا نام دے کرچرچا کیا گیا‘ میں ڈیموکریٹ پارٹی کے دودرجن قانون سازوں میں سے صرف تین نے شرکت کی تھی ؛ حالانکہ وہ روایتی طور پر بھارت کے حامی رہے ہیں‘ تاہم اس مہم میں شرکت کرنے والے بھی اب بھارت پر تنقید کررہے ہیں ۔ ایک بھارت نژاد امریکی قانون ساز پرامیلا جے پال نے انتیس حامیوں ‘ جن میں دو ریپبلکن بھی شامل تھے ‘ کے ساتھ مل کر کشمیرپر سے پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ 
جب حالات خرا ب ہوں تو اچھے کام بھی بگڑجاتے ہیں‘ جس دوران پاکستانی میڈیا کولاالمپور کانفرنس میں سعودی عرب کی ہدایت پر شرکت نہ کرنے پر تنقید کررہا تھا‘ بھارتی سفارت کار تاسف سے ہاتھ مل رہے تھے کہ اب پاکستان کا اوآئی سی میں کردار بڑھ چکا ہے۔ اپنے ایک مضمون ''سعودی عرب پاکستان کو منا لیتا ہے‘‘ میں سابق سفارت کار‘ بھدرا کمار لکھتے ہیں‘ '' یہ غیر معمولی کانفرنس اپریل میں اسلام آباد میں منعقد ہوگی۔ کیا سعودی فرماں روا‘ شاہ سلمان نہیں جانتے کہ یہ چیز بھارت کو پریشان کردے گی؟ بہرحال سعودیوں کو پاکستان کی اہمیت کا اندازہ ہے جس کے سامنے بھارت کے ساتھ تعلقات کی کوئی اہمیت نہیں۔بلاشبہ یہ پیش رفت بھارتی سفار ت کاری اور مودی سرکار کی خلیج کے لیے وضع کی گئی حکمت ِ عملی کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔ ‘‘
عالمی فورمز پر سفارتی جنگ کا طبل بج چکا۔ خاص طور پر چین کے ساتھ کچھ متاثر کن لابنگ کے ذریعے پاکستان نے اقوام ِ متحدہ کو کشمیر پر سکیورٹی کونسل کا اجلاس بلانے پر مجبور کیا۔ یہ اگست کے بعد ہونے والا دوسرا اجلاس ہے ۔ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ اجلاس بے نتیجہ کارروائی کے سوا کچھ نہیں‘ لیکن یہ دلیل بھی غلط نہیں کہ اعلیٰ ترین سطح پر بھارت سے پوچھے جانے والے سوالات اُس کے سفارتی ذرائع کو دبائو میں لے آئے ہیں۔ سوہاسنی حیدر نے اپنے مضمون میں لکھا ''بھارت کے کمزور پڑتے ہوئے سفارتی ذرائع اس کیلئے ایک نئی پریشانی ہے‘ جس دوران مغربی دنیا تبدیل ہورہی ہے‘ بھارتی معیشت دبائو میں ہے ‘ حکومتی نظم و نسق کمزور ہورہا ہے ‘ اُس وقت بھارت کا سفارتی سرمایہ اتنی تیزی سے گھٹ رہا ہے‘ جس کی مثال گزشتہ چند ایک عشروں میں دیکھنے میں نہیں آئی تھی ۔ ‘‘یہ دو حقائق کا اعتراف ہے ۔ پہلا یہ کہ بھارت پر پہلی مرتبہ عالمی برداری کا دبائو پڑا ہے اور دوسرا یہ کہ اس دبائو کے سامنے اس کی سفارتی سکت ڈگمگا رہی ہے ۔ 
پاکستان کو اس سے پہلے اتنا اچھا موقع شاید کبھی نہیں ملا تھا۔ اگلی او آئی سی کانفرنس اور دیگر فورمز پر بھارت اور کشمیر کا ایجنڈا سر فہرست رہے گا۔ وزیر خارجہ مشرق ِ وسطیٰ اور امریکہ کے دورے کر چکے‘ اگرچہ اس کا مرکزی ایجنڈا ایران اور امریکہ کے درمیان تنائو کم کرانا ہھا ‘ لیکن اس دوران کشمیر کا ذکر بھی کیا جاسکتا ہے اور بھارت کو اس خطرے کا احساس ہوچکا ۔ خدشہ ہے کہ وہ خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے سرحدوں پر کوئی مذموم حرکت کر سکتاہے ۔ جب امریکہ کو پہلے ہی ایران اور افغانستان میں قیام ِ امن کے لیے مذاکرات کی پریشانی لاحق ہے ‘ بھارت پر عالمی سیاست اور میڈیا کی بھرپور نظرہوگی۔ جیسا کہ معروف دانشور Sun Tzu کا کہنا ہے کہ ''سفارت کاری کا فن جنگ کے بغیر دشمن کو ڈھیرکرنے کا نام ہے ۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں