افغان امن معاہدہ : امکانات اور خدشات

آخرکار ڈیل ہوگئی! ٹرمپ اور طالبان ‘ دونوں نے معاہدے پر دستخط کردئیے ۔ اس دوران باقی دنیا پر امید نظروں سے اُنہیں دیکھ رہی ہے۔ ناصرف یہ کہ فریقین نے معاہدے پردستخط کردئیے ‘ بلکہ اس مرحلے پر یہ معاہدہ قدرے آسانی سے بھی طے پاگیا۔19 برسوں پر محیط خوفناک جنگ ‘ لہو میں ڈوبی ہوئی داستان‘ تشدد‘ تکلیف‘ کشمکش‘ بے چینی‘ شورش اور بربادی کی کہانی‘ قیمتی انسانی جانوں کے بے دریغ زیاں‘ لاکھوں انسانوں کی تباہی‘ اربوں ڈالرکے نقصان کا سلسلہ آخرکار اپنے اختتام کے قریب ہے ۔ تاریخ سے سبق سیکھنے میں ہی دانائی ہے۔ جب افغانستان پر سوویت جارحیت ختم ہوئی تو ہم سب جانتے ہیں کہ کیا ہوا تھا۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ‘تاکہ تاریخ خود کو نہ دُہرانے پائے ۔ ایسی صورت میں خطہ کہیں زیادہ مہیب تباہی سے دوچار ہوسکتا ہے ۔ 
یہ بات درست ہے کہ جنگ کسی کو فائدہ نہیں پہنچاتی‘ لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ جنگ کی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ جنگیں ‘فتوحات کے جنون کا خونی اظہار ہوتی ہیں ۔ دشمن کو حتمی شکست سے دوچار کرنے کی کوشش ان کے ہر اُس مقصد کو تباہ کردیتی ہے‘ جس کیلئے یہ لڑی جاتی ہیں۔ افغان جنگ کا اعلانیہ مقصد نائن الیون کے بعد دہشت گردوں اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا تھا‘ لیکن اس جنگ کے نتیجے میں مزید دہشت گردی پھیلی۔ طالبان اور القاعدہ کو تباہ کرنے کی کوشش کے نتیجے داعش جیسی انتہائی خطرناک تنظیموں نے سر اٹھایا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کی دنیا افغان جنگ سے پہلے کی دنیا سے کہیں زیادہ غیر محفوظ ہے ۔ ترقی یافتہ معیشتیں اس جنگ کی قیمت کشمکش اورتجارتی رکاوٹوں کی صورت ادا کررہی ہیں۔ اس کی وجہ سے گلوبلائزیشن آزاد مارکیٹ کی بجائے سرکاری تحفظ کی چھتری تلے پروان چڑھتی ہے ۔ اس پس ِ منظر میں موجودہ ڈیل پر آمادگی ایک اہم پیش رفت ہے ۔ یہ وقت ہی بتائے گا کہ کیا یہ قدم قیام ِ امن کے سلسلے کی ایک کڑی ہے یا ایک رکاوٹ؟ سر ِدست اس ڈیل کی پیشگی شرائط اس طرح ہیں:۔
1۔ تشدد سے پاک ہفتہ: ''تشدد میں کمی‘‘ کا سات دنوں پر محیط دورانیے کے ابتدائی معاہدے کا مقصداعتماد سازی کی فضاقائم کرناہے‘ تاکہ وسیع تر امن معاہدے پر دستخط ہوسکیں۔ جب تشدد میں کسی قدر کمی واقع ہوئی تو امریکا اور طالبان کے مذاکرات کاروں نے انتیس فروری کو وسیع تر امن معاہدے پر دستخط کیے ‘ اس کے ساتھ ہی امریکی فوجی دستوں کی مرحلہ وار واپسی شروع ہوگئی۔ اس کے بدلے طالبان نے یہ یقین دہانی کرائی کہ افغان سرزمین کو مغرب پر دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ 
2۔ فوجی دستوں کی واپسی : اس معاہدے پر ابھی تک بات چیت کا سلسلہ جاری ہے کہ امریکی فوجی دستے کب اور کس طرح افغانستان سے رخصت ہوں گے۔ اس وقت بارہ ہزار امریکی فوجی افغانستان میں ہیں‘ اسے امید ہے کہ چار ہزار فوجی افغانستان سے نکالے جاسکتے ہیں۔ اس کے بعد پیچھے آٹھ ہزار رہ جائیں گے ۔ دوسری طرف طالبان تمام غیر ملکی فوجی دستوں کی فوری واپسی پر اصرار کر رہے ہیں۔ 
3۔ معاہدے کے بعد کی صورتحال : اس معاہدے کا سب سے اہم پہلو افغانستان سے فوجی دستوں کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال ہوگی ۔ اس معاہدے کی حتمی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ افغان دھڑوں میں سے کون سے ان مذاکرات کا حصہ بنتے ہیں‘ اور کون انہیں سبوتاژ کرنے کی کوشش کریں گے۔مذاکرات کا اس مرحلے میں داخل ہونا ایک پیش رفت ضرور ہے ‘ لیکن اسے غیر معمولی نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ ستمبر 2019 ء میں صدر ٹرمپ نے طالبان رہنمائوں کو کیمپ ڈیوڈ آنے اور ڈیل کو حتمی شکل دینے کی دعوت دی تھی‘ لیکن پھر طالبان حملے میں ایک امریکی فوجی کے جاں بحق ہونے کی وجہ سے ملاقات منسوخ کردی گئی۔ اس طرح یہ عمل غیر یقینی پن سے لبریز ہے ۔ اس میں طرفین کا کوئی بھی سیاسی زخم کسی بھی وقت ہرا ہوسکتا ہے ۔ یقینا ایک طویل عرصے سے لگنے والے زخم محض ایک ڈیل کے اعلان سے مندمل نہیں ہوسکتے ۔ معاہدے پر دستخط سے بھی ایسا ہونے کی امید خوش گمانی ہوگی ۔ اس معاہدے کی پیچیدگی اس کے بارے میں کسی قسم کی پیش گوئی کرنا مشکل بناتی ہے ‘ تاہم اس غیر یقینی پن سے نمٹنے کے لیے تیار رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہرممکنہ اور غیر ممکنہ پیش رفت کو بھانپا جاسکے ۔ ڈیل سے پہلے کی جانے والی تیاری ان معروضات کی بنیاد پر ہونی چاہیے :۔
1۔ اس عمل پر اثر انداز ہونے والے تمام سٹیک ہولڈر ز کی شناخت کرنا: یہ سٹیک ہولڈرز امریکا اور اس کے اتحادی‘ طالبان ‘ افغانستان میں فعال دیگر جنگجو گروہ‘ افغان حکومت اور اپوزیشن جماعتیں‘ پاکستان اور دیگر عالمی ادارے اور ایجنسیاں ہیں۔ یہ سٹیک ہولڈرزاس معاہدے پر اثر انداز‘ یا اس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ 
2۔ تزویراتی ردِعمل کی شناخت: اثر انداز ہونے والے ہر فریق کو اُس کے طرز ِعمل کی بنیاد پر سہولت کار‘ مداخلت کاریا کھیل بگاڑنے والے عامل کے طور پر شناخت کیا جائے۔ مثال کے طور پر عبداﷲ عبداﷲ افغانستان میں ایک متوازی حکومت قائم کرنے کا دعویٰ کررہے ہیں‘ اسی طرح غیر طالبان دھڑے بھی ہیں‘ جن کی پشت پناہی دیگر ممالک کررہے ہیں۔ 
3۔ ممکنات کی ترتیب اور تشکیل: مستقبل کے امکانات پر غور کرنا‘ اور ان کے مضمرات سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا ضروری ہے۔ یہ دیکھنا اہم ہوگا امریکی فوجی دستوں کے انخلا کے بعد رونما ہونے والی افغان کشمکش کی نوعیت کیا ہوگی؟ جو بھی صورتحال ہو‘ اس سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ 
4۔ مستقبل کی منصوبہ سازی: ہر ممکنہ صورت ِحال سے نمٹنے کیلئے پیش بینی کرتے ہوئے کوئی نہ کوئی منصوبہ بنایا جائے کہ اگر کوئی فریق حماقت دکھائے تو کیسے نمٹا جائے ۔ 
بظاہر یہ کتابی صورت ِحال دکھائی دیتی ہے ‘ لیکن اس مشق کے بغیر حالات تباہی کا راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔ پیدا ہونے والے کسی بھی ممکنہ بحران سے نمٹنے کے لیے پیش بندی ضروری ہے ‘ اگر کوئی بحرانی صورتحال پیدا نہیں ہوتی تو تیار رہنے کا کوئی نقصان نہیں‘ اگر ایسا کچھ ہوتا ہے ‘تو اس سے نمٹنے کیلئے تیاری نقصان کو کم کرنے اور تباہی پر قابو پانے میں مدد دے گی۔ افغان حکومت نے ہمیشہ اس مذاکراتی عمل کی مخالفت کی ہے ۔ اُنہیں اس عمل میں شریک ہونے کے لیے قائل کیا جائے‘ تاہم ضروری ہے کہ افغان حکومت اپنے ہاتھ مضبوط کرلے۔نئے انتخابات نے پہلے ہی افغانستان کے سیاسی میدان میں تقسیم کی لکیر کھینچ دی ہے ۔ اشرف غنی نے اپنی فتح کا اعلان تو کر دیا‘ لیکن اُن کی کامیابی کو اُن کے سیاسی حریف عبداﷲ عبداﷲ یا طالبان نے تسلیم نہیں کیا۔ طالبان ‘ اشرف غنی کے ساتھ بطورِوزیراعظم افغانستان نہیں ‘بلکہ ایک اور گروپ کے نمائندے کے طور پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کا مطلب سیاسی عدم استحکام کے سوا اور کچھ نہیں‘ اور اس سے امن کے امکانات کو زک پہنچانے والوں کو شہ ملے گی۔ 
امریکا کیلئے افغانستان سے نکلنا ناگزیر ہوچکا‘ کیونکہ صدر ٹرمپ اپنی دوسری مدت کے انتخابی معرکے کے قریب ہیں۔ افغان امن معاہدہ اُن کے لیے ترپ کا پتا ثابت ہوسکتا ہے ۔ پاکستان کے لیے افغانستان میں امن اہم ہے۔ امن معاہدے کے بعد اس کا کردار اتنا ہی اہمیت کا حامل ہوگا‘ جتنا اس کے دوران۔ امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کیلئے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کے بعد اب اسے طالبان اور دیگر افغان دھڑوں کے درمیان امن قائم کرنے والے عامل کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس معاہدے کو سبوتاژ کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں ۔ وہ پاکستان کو مداخلت کاراور پریشانی اور انتشار پید اکرنے والے عنصر کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کریں گے ۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دنیا کے سامنے سیاسی‘ سفارتی اور دیگر مختلف ذرائع سے اپنے آپ کو قیام ِ امن کے شراکت دار کے طور پر پیش کرے ۔ پاکستان کو اپنی ساکھ اس طرح قائم کرنی ہے کہ عالمی برداری اسکی خطے میں امن کیلئے کوششوں کو سراہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں