دہلی سے پھیلنے والا نفرت کا وائرس

جس دوران دنیا کورونا وائرس کے خطرے سے دوچار ہے‘ ایک اور بھی خطرناک وائرس خطے میں تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ یہ مہلک وائرس سے بھی زیادہ تباہ کن ثابت ہورہا ہے ۔یہ دہلی میں پروان چڑھنے ‘ اور پھیلنے والا نفرت اور تشدد کا وائرس ہے۔ ہرچند ٹرمپ اور مودی بھارت اور امریکا کی شراکت داری پر نازاں ہیں ‘ آر ایس ایس کے غنڈے‘ بھارت کو مذہبی طور پر ہندو کرنے کے جنون میں پاگل ہوچکے ہیں۔ وہاں ہونے والے تشدد‘ ہلاکتوں اور خونریزی نے دنیا پر سکتہ طاری کردیا ہے ۔ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنا یا ان خونچکاں واقعات پرپردہ ڈالنا ناممکن ہوچکا ہے ۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہندو اور پولیس افسران سمیت تمام پارٹیاں اس سے متاثر ہورہی ہیں۔ آج دنیا کے سامنے ایک ننگی حقیقت اپنے بھیانک چہرے کے ساتھ موجود ہے کہ مودی ہٹلر کے فسطائی نظریے پر عمل کرتے ہوئے بھارت کو ایک ''خالص ہندو‘‘ ریاست بنانے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے ۔ 
کشمیر کا جاری محاصرہ اب ‘عالمی میڈیا کی خبر نہیں رہا ‘ لیکن دہلی میں ہونے والی قتل و غارت موضوع ضرور بن چکی ہے کہ مودی دراصل کس سوچ کی نمائندگی کرتا ہے؟۔ بھارتی سیکولر ازم پر سوالات اٹھ رہے ہیں کہ بی جے پی کو چھوڑیں‘ دیگر جماعتوں‘ سول سوسائٹی‘ میڈیا اور عوام کا ردِعمل ویسا نہیں ‘جیسا ایک سیکولر ملک میں ہونا چاہیے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے ادوار سے موازنہ کرکے سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کیا یہ بھارت کاتاریک ترین دور ہے ۔یہ موازنہ زیادہ تر بھارتیوں کیلئے ناگوار‘ لیکن برمحل ہے۔ 
سب سے واضح مثال 1984 ء کے واقعات ہیں‘ جب ہندئووں نے سکھوں پر یلغار کی تھی۔ جب وزیراعظم اندرا گاندھی کو سکھ محافظوں نے گولی مار کر ہلاک کردیا تو دارالحکومت میں سکھ مخالف فسادات نے کم وبیش 3,000 افراد کی جان لے لی ۔ ٹارگٹ کلنگ اور سکھوں پر تشدد کے واقعات لدھیانہ‘ دہلی اور جنوبی دہلی تک پھیل گئے ۔ 1984 ء میں جنونی ہجوم کے پاس سکھوں کی رہائش گاہوں کی فہرستیں تھیں ۔ سکھوں کی جائیدادیں اور مارکیٹیں اور مارکیٹوں میں موجود دوکانوں کو ہدف بنا کر نذر ِآتش کردیا گیا۔ آج بھی انہی واقعات کا اعادہ ہورہا ہے ؛ اگرچہ 1984 ء کے واقعات کے دوران پولیس غائب ہوچکی تھی ‘ لیکن آج وہ انتہا پسندوں اور جنونیوں کے ساتھ کھڑی ہے ۔ 1984 ء میں کانگرس کی حکومت تھی‘ جبکہ 2002 ء کے فسادات کے وقت مودی وزیراعلیٰ تھے‘ جب گجرات میں 2000 کے قریب مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا تھا ۔فسطائیت اور جنونیت کا ملاپ لامتناہی تباہی کا سبب بنتا ہے ۔ فسطائی سوچ منفی جذباتیت کو ابھارتی ہے۔ یہ جذبات اس قدر بھڑک سکتے ہیں کہ عقل‘ استدلال ‘ معقولیت ‘ آزاد سوچ اور معقول شہری رویے شک‘ عدم اعتماد‘ نفرت‘ خوف‘ عدم تحفظ‘ حقارت اور تعصب کے ہاتھوں یرغمال بن جاتے ہیں ۔ہر وہ تصور روند دیا جاتا ہے‘ جو جنونیت سے لگّا نہیں کھاتا۔ ہمہ وقت منفی جذبات بھڑکائے رکھنے سے غصہ جنونی شکل اختیار کرلیتا ہے ‘ یہاں تک کہ انسانی فطرت حیوانیت میں ڈھل جاتی ہے ۔ اس کے بعدمعاشرے میں جنگل کا قانون رائج ہوجاتا ہے ۔ نریندر مودی نے بہت کامیابی سے اس نفسیاتی سوچ کو استعمال کرتے ہوئے عوام کو ہر اُس سوچ سے خوف اور نفرت میں مبتلا کردیا جو ہندو توا کو چیلنج کرتا ہے ۔ نسلی عظمت کے اس ''بیانئے ‘‘ کے سامنے عام انسانی ضروریات غیر اہم ہوجاتی ہیں۔ 
نریندرمودی نے دہلی میں حالیہ انتخابی مہم کے دوران ''قوم بچائو‘ ہندوتوا پھیلائو‘‘ کا نعرہ لگایا۔ وہ الیکشن تو ہار گئے لیکن فسادات کے دوران اُنہوں نے ایک مرد ِ آہن ہونے کا تصور ضرور اچھالا۔ دہلی سے تعلق رکھنے والے ماہر ِ سیاسیات بھانو جوشی اور اُن کی تحقیقاتی ٹیم کے ایک سروے کے مطابق ‘دہلی کے ریاستی انتخابات سے قبل بی جے پی نے ''پارٹی کی مشینری کو مسلسل متحرک رکھتے ہوئے شک ‘ تعصب اور خوف کا پیغام پھیلایا‘‘۔ ریسرچ ٹیم نے مودی کی مہم چلانے والے اور ایک ووٹر کے درمیان مندرجہ ذیل مکالمہ ریکارڈ کیا۔ ووٹر کا کہنا تھا کہ وہ عام آدمی پارٹی کوووٹ دی گی ‘کیونکہ وہ پارٹی پانی مفت فراہم کررہی ہے ۔ ''تم اور تمہارے بچوں کے پاس ملازمتیں اور پیسہ ہے؛ چنانچہ مفت پانی کا سوچنا چھوڑو‘ اگر یہ قوم ہی نہ رہی تو سب مفت دھول بن کر اُڑ جائے گا۔ ‘‘ اُس ووٹر کو تنبیہ کی گئی ۔یہ ہے وہ خوف اور نفرت جو مودی کی ٹیم کئی برسوں سے پھیلا رہی ہے ۔ اس کی پہلی وجہ یہ تھی کہ لوگ اسی پیغام کواہم قومی معروضہ سمجھنے لگیں اور دوسری یہ کہ اُن کی خوفناک معاشی خامیاں قومی سلامتی کو لاحق خطرے کے پیچھے چھپ جائیں۔
بھارت نے کچھ عرصہ پہلے اپنی نوجوان نسل کو تاریخ کے ''طاقتور رہنماؤں ‘‘ کے بارے میں بتانا شروع کردیا تھا۔ اُن میں ہٹلر کا نام بھی شامل تھا۔ نریندر مودی کا تعلق آرایس ایس سے ہے ‘ اور یہ گروہ ہٹلر کی نازی پارٹی سے متاثر تھا۔ 2004 ء میں جب مودی گجرات کے وزیر ِاعلیٰ تھے ‘ ریاست کے بورڈ کی شائع شدہ درسی کتب میں ہٹلر کو ایک ہیر و کے طور پر پیش کیا اور اس کی فسطائیت کو سراہا گیا تھا۔ دسویں جماعت کی سوشل سٹڈیز کی درسی کتاب میں ''ہٹلر‘ ایک عظیم ہیرو‘‘‘ اور ''نازی ازم کی داخلی کامیابی‘‘ جیسے ابواب موجود تھے۔ 2011 ء میں تامل ناڈو کی شائع شدہ دسویں جماعت کی سوشل سٹڈیز کی کتاب ( جس کے ایڈیشن 2017 ء تک پڑھائے جاتے رہے ) میں بھی ہٹلر کے لیے توصیفی ابواب ‘ جیسا کہ ''متاثر کن رہنما‘‘ اور ''ہٹلر کے کارنامے‘‘ موجود تھے۔
دو سری طرف جوان نسل کے لیے تاریخ کو بالی وڈ کے ذریعے موثر طریقے سے پیش کیا جارہا ہے۔ تاریخ میں فکشن کی آڑ میں بہت نازک طریقے سے من پسند رنگ بھرتے یا ڈھٹائی سے مسخ کرتے ہوئے بھارتی ناظرین کے ذہن میں ہندو بالا دستی کے تصورات اتارے جارہے ہیں۔ مشہور فلم ساز اور ہدایت کار ایسی فلمیں بنا رہے ہیں ‘جوبتاتی ہیں کہ کس طرح ہندوستان پر عظیم راجپوت سردار حکومت کرتے تھے‘ جنہوں نے حملہ آور مسلمانوں کو کچل کر رکھ دیا۔ بھارت میں ایک سپرہٹ فلم ''پدما وتی‘‘ مسلمانوں کے دور ِ حکومت کی انتہائی منفی تصویر پیش کرتی ہے۔ اس میں ستی کی وحشیانہ رسم کو روحانی سربلندی حاصل کرنے کا ایک راستہ‘ اور ذات پات کے نظام کو سماجی ضرورت سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے ۔ مودی اور اُن کے پیروکار انہی نظریات کے حامل ہیں۔ 
مودی کی انتہا پسند تنظیم ‘ آر ایس ایس پر تین مرتبہ لگنے والی پابندی سے پتہ چلتا ہے کہ اس نظریے میں کیا خرابی ہے ۔ اس تمام صورت ِحال کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ بھارت کے سیکولر لبرلز کا اصل چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے ۔ دہلی فسادات پر دیگر سیاسی جماعتوں‘ بشمول اروندا کجریوال کی عام آدمی پارٹی ‘ جو دہلی پر حکومت کررہی ہے ‘مسلم بنیاد رکھنے والے بالی وڈ اداکاروں‘ جیسا کہ شاہ رخ خان‘ عامر اور سلمان خان کی حیرت انگیز خاموشی بہت کچھ کہہ رہی ہے ۔ بہت سے دانشوروں ‘ بھارتی میڈیا اور سول سوسائٹی کے سیکولر ازم کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے ۔ چند ایک آوازوں کے سوا کسی نے بھی حکومت کی طرف سے بنیادی انسانی حقوق‘ سماجی اور اخلاقی اقدار کی کھلی پامالی کی مذمت نہیں کی ۔ 
یہ سب کچھ بھارتی معاشرے کے لیے اچھا شگون نہیں ۔ چاہے‘ یہ خاموشی سخت ردعمل کے خوف کی وجہ سے ہے یا اپنے مذہب اور نسل کی بالادستی کی انمٹ خواہش کے غلبے سے‘ یہ درحقیقت ایک ایسے ملک کے چہرے سے اترتا ہوا نقاب ہے‘ جس نے بہت دیر سے خود کو سیکولر اور لبرل ریاست کے طور پر عالمی برادری کے سامنے پیش کیا ہوا تھا۔ زیادہ تر وائرس خاموشی سے انسانی جسم میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اُن کا پتہ اُس وقت چلتا ہے ‘جب وہ جسم کو بیمار کردیتے ہیں۔ بھارتی معاشرے اور عالمی برادری کی خاموشی دہلی اور کشمیر میں لگی ہوئی آگ پر تیل گرا رہی ہے اور نفرت کا وائرس بے قابو ہورہا ہے‘ جو ا یسی ا نسا نیت کش بیماری کو فروغ دے رہا ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں