ماحولیاتی توازن برقرار رکھنے کی ضرورت!

ماحولیات کے لیے آواز بلند کرنے والی امریکی کارکن ٹیری سویرنگجن کا کہنا ہے کہ ''ہم اس سیارے پر اس طرح رہ رہے ہیں‘ جیسے ہمارے پاس رہنے کے لیے کوئی اور متبادل بھی ہو‘‘۔ یہ بیان زمین پر ہمارے طرزعمل کی عکاسی کرتا ہے۔ واحد مسئلہ یہ ہے کہ ہم پرواز کرکے کسی اور سیارے پر نہیں جاسکتے جو زندگی کے لیے محفوظ اور سازگار ہو۔ کوروناوائرس سے پیدا ہونے والا حالیہ عالمگیر بحران بتاتا ہے کہ دنیا کے مقامات جہاں دولت مند اور طاقت ور لوگ رہتے ہیں اور جہاں غریب اور کمزور افرا د جانے کے خواب دیکھا کرتے ہیں‘ آج کس طرح بنداور ویران ہیں۔ ہر چیز تعطیل اور تعطل کا شکار ہے‘ لیکن آپ کہیں جانہیں سکتے۔ ہر کوئی اپنے گھرمیں بند ہوکر رہ گیا ہے ۔ اس وائرس نے درحقیقت دنیا کوسمیٹ دیا ہے ۔ لندن‘ روم اور پیرس ایک صف میں بند دکھائی دیتے ہیں۔ حکم ہے ‘ کوئی اپنی جگہ سے نہ ہلے ؛کوئی باہر نہ نکلے؛ خبردار ‘ کسی کو ہاتھ نہ لگانا؛ کسی سے ملنے نہ جائو۔ یہ حکم ہر کسی کے لیے ہے ‘ چاہے وہ دنیا میں کہیں بھی رہتا ہو۔ بچنے کایہی ایک طریقہ ہے ۔ 
کورونا وائرس کی لاکھوں کہانیاں اور مطالعے گردش میں ہیں۔ سوشل میڈیا کا شکریہ۔ لفظ ''وائرل‘‘ کی حقیقی تشریح اس وائرس نے کردی ہے ‘ جس طرح سوشل میڈیا پر کہانیاں ایک صارف سے دوسرے صارف تک سفر کرتے ہوئے دنیا بھر میں پھیل جاتی ہیں‘ یہ وائرس بھی اسی طرح سفر کررہاہے ۔ یہ طرز ِ مسافت سوشل میڈیا کی خوبی ہے ‘ لیکن اس کے اپنے نقصانات بھی ہیں۔ اس وقت تو کورونا وائرس کی وجہ سے پھیلنے والی بیماری سے نمٹنے کی کوشش کی جارہی ہے ‘تاہم اس آفت کا وسیع ترپیرائے میں جائزہ لے کر زیادہ معقولیت اپنانے کی ضرورت ہے ۔ فی الحال تو آگ سی لگی ہوئی ہے ‘ اور پہلی ترجیح اسے پھیلنے سے روکنا اور بجھاناہے ‘ لیکن آگ بجھنے کے بعد ٹھنڈے دل سے غور کرنا ہوگا کہ آئندہ ایسا نہ ہو۔ کہیں یہ وائرس پہلے سے زیادہ مہلک اور طاقتور بن کر نہ ابھر آئے ۔ اس خطرے کے تدارک کے لیے ہمیں وہ کچھ کرنا ہے جو اس سے پہلے ہم نے نہیں کیا ۔ حالیہ وائرس نے چیچک‘ ایڈز‘ طاعون اور بہت سی مہلک وبائوں کی یاد تازہ کردی ہے ۔ انسان نے ہزاروں سال تک چیچک سے جنگ کی ہے ۔ اس تکلیف دہ بیماری میں تین میں سے ایک متاثرہ مریض مر جاتا تھا۔ بچنے والے کے جسم اور زندگی پر گہرے زخم پڑ جاتے تھے۔ یورپ سے باہر ہلاکت خیز ی کی شرح بہت زیادہ تھی‘ کیونکہ اُن خطوں کے لوگ وائرس سے پھیلنے والی بیماری سے آشنا نہیں تھے ‘ لیکن دیگر ممالک کے سیاح یہ بیماری اُن کے ہاں لائے تھے ۔ مثال کے طور پر مورخین کا اندازہ ہے کہ امریکہ کی 90 فیصد آبادی چیچک کی وجہ سے ہلاک ہوگئی تھی ۔ یہ چیچک یورپی سیاح امریکا لے کر آئے تھے ۔ بیسویں صدی میں چیچک کی وجہ سے 300 ملین افراد ہلاک ہوگئے تھے ۔ جب ویکسین دریافت ہوئی تو ا س کی ہلاکت خیزی کم ہوتی گئی‘ یہاں تک کہ 1980 ء میں انسان نے دنیا کو چیچک سے پاک قرار دے دیا‘ لیکن پھر 1980 ء میں ایک نیا وائرس‘ ایچ آئی وی سامنے آگیا۔ اس کی وجہ سے اب تک کم وبیش 32 ملین افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ یہ بیماری‘ ایڈز‘ اگر چہ وائرل نہیں ‘ لیکن اب بھی کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں تباہی پھیلا رہی ہے۔ ایڈز کے 95 فیصد کیسز اب‘ پسماندہ ممالک میں سامنے آتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے جائزے میں آنے والے افریقی خطے میں ہر پچیس میں سے ایک شخص ایڈز کا مریض ہے ۔ اس خطے میں دنیا میں ایڈز کے مریضوں کی دوتہائی تعداد رہتی ہے ‘ تاہم تحقیق اور ادویات میں جدت کی وجہ سے آج ایڈز کے مریض پہلے کی نسبت زیادہ دیر تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ 
دیکھنے میں آیا ہے کہ ہر عشرے میں کوئی نہ کوئی وائرس لاکھوں انسانوں کو متاثر کردیتا ہے ۔ اس کا اثر کسی خطے میں دیگر سے زیادہ ہوتا ہے ۔ وبا پھوٹنے کی صورت میں متاثرہ ممالک کی مدد کی جاتی ہے ‘ بیماری کے کنٹرول اور علاج کے لیے تحقیق کا سلسلہ شرو ع ہوتا ہے۔ علاج دریافت کرلیا جاتا ہے‘ لیکن کچھ عرصہ گزرتا ہے کہ کوئی اور وائرس سراٹھا لیتا ہے ‘ پھر پہلے کی طرح اس سے بھی نمٹنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ انسان سمجھ چکا کہ زندگی کے یہ چیلنجز سامنے آتے رہتے ہیں‘ اور وہ ان کا مقابلہ کرے گا‘تاہم اب وقت گزرنے کے ساتھ وائرس بھی زیادہ سخت جان‘ مہلک اور تیزی سے پھیلنے والے بن رہے ہیں۔ کورونا وائرس نے پھیلائو کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ہمیں یہ بھی باور کرادیا ہے کہ اب ایسا نہیں کہ صدی میں ایک آدھ مرتبہ کوئی وبا پھوٹ پڑے گی اور زندگی کا کچھ حصہ غیر فعال ہوجائے گا۔ اب ‘ایسا لگتا ہے کہ زندگی کے پھیلائواور جدت کے ساتھ ان نادیدہ حملوں آوروں نے بھی انسانوں پر حملہ آور ہونے کی سکت بڑھاتے ہوئے اس کی صحت سے لے کر کاروبار‘ تعلقات اور زندگی کی ہر جہت کو اپنا ہدف بنا لیا ہے ۔ ذرا تصور کریں کہ ایک سماجی حیوان کہلانے والا انسان سماجی طور پر ایک دوسرے سے کٹ گیا ہے ۔ 
جس دوران کچھ نام نہاد دانشور تباہی کی پیش گوئیاں کررہے ہیں۔ انسان نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ کوروناکی وبا میں مندرجہ ذیل مثبت امکانات موجود ہیں:
1 ۔ پھیلائو تیز ترین ‘مگر مہلک ترین نہیں: بجلی کی رفتار سے پھیلنے والے اس وائرس نے دنیا پر عملاً سکتہ طاری کردیا ہے ‘ تاہم یہ بات معلوم ہوچکی ہے کہ یہ وائرس زیادہ مہلک نہیں؛ اس سے مرنے والوں کی تعداد صرف تین سے پانچ فیصد ہے ۔ اس کے مقابلے میں ایچ آئی وی اور ایبولا سے متاثرپچاس فیصد افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ 
2۔ حملے میں مساوات: یہ ایبولا یا ایچ آئی وی کی طرح افریقا یا یورپ تک محدود وائر س نہیں ہے ۔ اس نے بیک وقت دنیا کے تقریباً ہر ملک کو متاثر کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیق اور علاج میں پیش رفت بھی تیز ہوگی ‘کیونکہ اس کی وجہ سے سب کو خطرہ ہے ۔ کچھ ادویات اس بیماری میں مثبت نتائج بھی دے رہی ہیں۔ 
3۔ غیر معمولی حالات اب معمول بن چکے ہیں: زندگی کے سہولیات‘ جدت‘ فعالیت اور علم کی کھینچی گئی حد کے دونوں طرف ممالک اب مل کر توازن سے زندگی بسر کرنا سیکھ سکتے ہیں۔ اس یگانگت میں اب کوئی صدیاں یا عشروں کا عرصہ نہیں لگے گا۔کہا جا رہا ہے کہ قربت کے فاصلے جلد طے ہوں گے ۔ 
سب سے بڑھ کر یہ وائرس کے خطرات کا تدارک کرنے کی جنگ ہے ۔ اب‘ انسان کو حقیقی ترجیحات کی طرف آنا پڑے گا‘ جیسا کہ بل گیٹس نے 2015 ء میں TED پر نشر ہونے والی گفتگو میں پیش گوئی کی تھی کہ اب انسان کو اپنی سوچ‘ مہارت اورذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے اُس ماحول کو درست کرنا ہوگا‘ جس میں ہلاکت خیز وائرس پروان چڑھتے اور پھیلتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی بات زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس پر صرف بطور پر فیشن بات کی جاتی ہے ۔ آسٹریلیا میں لگنے والی خوفناک آگ ‘ چین اور جنوبی ایشیا میں پھیپھڑوں کو تباہ کردینے والی سموگ ماحولیاتی عدم توازن کی چند ایک مثالوں سے ثابت ہوتا کہ انسان نے جنگی حیات کو اس قدر برہم کردیا ہے کہ اس کا جینا ایک عذاب سے کم نہیں۔ ورجینیا یونیورسٹی کے ایک ماہرِ ماحولیات‘ لیوس سکابر( Luis Escobar) کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں اور جنگلات کی کٹائی وائرس کو مزید متحرک اور فعال کررہی ہے ۔ جنگلات کی کٹائی‘ یا شہری آبادیوں میں اضافہ یا زراعت جیسے مخصوص حالات لوگوں کو جنگلی حیات کے قریب لے جاکر وائرس کے پھیلائو کا باعث بنتے ہیں۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران جنگلات کی کٹائی کو ایبولا‘ زیکا اور نیپا جیسے وائرسوں کے اکتیس فیصد پھیلائو باعث سمجھا جاتا ہے ۔ قدرتی مسکنات کا تحفظ اور ماحولیاتی توازن پیدا کرنا صرف فلسفیانہ اور روحانی گفتگو کے موضوعات نہیں ہیں؛ یہ حیاتیاتی اور طبی علوم کے ثابت شدہ حقائق ہیں۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر ‘ مارکو لمبرتنی کا کہنا ہے کہ ''جس سیارے کو آپ انتہائی دبائو میں لے آئے ہیں‘ وہ ایک دن اُپ پر یہی دبائو الٹ دے گا۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں