کورونا کی مہیب تاریکی میں روشنی کی کرن!

سیاہ بادل سورج کو ڈھانپ لیں تو افق تاریک ہوجاتاہے۔ دن کی روشنی سے مانوس آنکھیں خوفزدہ ہوجاتی ہیں ‘ لیکن پھر بادلوں کی اوٹ سے سورج کی ایک تیز کرن تاریکی کا سینہ چاک کرتے ہوئے امیدوں کے پھول کھلادیتی ہے‘جس دوران کورونا وائرس نے ہنگامہ خیز سرگرمیوں سے لبریز دنیا کو تاریک اور اس کی آوازوں کو خاموش کردیا ہے‘ بہت سے اندیشے امکانات کا روپ دھار رہے ہیں۔ ناممکن اب ممکن ہوتے جارہے ہیں‘جو کچھ کبھی سنائی بھی نہیں دیا تھا‘ اب صاف اور بلند آہنگ ہے ‘ اسی طرح بچائو کی کوشش جدت کی راہ دکھاتی ہے ۔ اتحاد تخلیق کا باعث بنتا ہے ۔ کورونا وائرس نامی یہ بلا اب تک قابو پانے کے ہر حربے‘ ہر حکمت اور ہر ترکیب کو غچہ دیتے ہوئے پوری دنیا کی رگ ِ جاں دبوچ چکی ۔ اس موضوع پر تو بہت کچھ لکھا جارہا ہے ‘ لیکن شاید ہی کسی ذہن میں یہ سوچ ابھری ہو کہ کس طرح اس تباہ کن صورت ِحال نے انسانی فعالیت‘ مدافعت اور ترقی کی جہت کو تبدیل کردیا ہے ۔ آج لوگ اس طرح کام کررہے ہیں ‘جیسا اُنہوں نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ زندگی گزارنے کا طریقہ پہلے جیسا نہیں رہا ‘ جو کچھ لوگ آج کررہے ہیں؛ پہلے انہوں نے کبھی ایسا نہیں کیا تھا۔ وہ ایسا کچھ تخلیق کررہے ہیں‘ جس کا اُنہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ زندگی تبدیل کردینے والی یہ پیش رفت آسان نہیں۔ درحقیقت یہ بہت مشکل اور کٹھن ہے ‘ لیکن کیا یہی کچھ بہت سے ترقی پسند افراد اور ادارے کئی سال کہتے چلے آرہے تھے کہ زندگی اس نہج تک پہنچ چکی ہے کہ اب روایتی اور لگے بندھے طریق کار کو چھوڑ کرغیر معمولی سوچ اور فعالیت دکھانے کا وقت آچکا ؟
کئی برسوں سے کاروباری اداروں کو سمجھایا جارہا تھا کہ وہ خوش فہمی کا شکار نہ ہوں‘کیونکہ انہیں متغیر انتظامیہ کا تصور متعارف کرایا جاتا رہا ہے ‘ لیکن دیکھا گیا کہ افراد ‘ کاروباری ادارے اور معاشرے تبدیلی کے راہ میں مزاحم ہیں۔ ''کمفرٹ زون‘‘ کی اصطلاح ٹکسال کی گئی ۔ انسان عادت رکھنے والی مخلوق ہے اور عادات اور رویے تبدیل کرنا بہت بڑا چیلنج ہے ۔ تحریر کیا گیا بہت سا مواد بتاتا ہے کہ جن افراد اور اداروں نے تبدیلی کے سامنے مزاحمت کی‘ وہ آخرکار ناکام ہوگئے ۔ بہت سے مطالعے اور جائزے اس صورت ِ ِحال کی تصدیق کرتے ہیں۔کثیر تعداد میں فروخت ہونے والی کتابوں میں سے ایک ‘ ''Innovator's Dilemma‘‘ جدت پسندی کے سامنے حائل ابہام کے تصور کی نشاندہی کرتی ہے ۔ جب جدید ٹیکنالوجی سامنے آنے سے بزنس کا روایتی طریق کار غیر ضروری اور مہنگا ہوجاتا ہے‘ تو صنعتیں برباد ہوجاتی ہیں۔ مذکورہ کتاب ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر اور بزنس مین کلیٹن کرسٹنسن کے کام کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہے کہ بچائو کیلئے رستخیز کی ضرورت ہوتی ہے ‘ چاہے اس کا عامل کوئی بھی ہو۔ کورونا وائرس ایک قدرتی عامل ہے‘ جس نے معمول کے حالات کو برہم کر دیا ۔موجودہ کورونا بحران کا روشن پہلو یہی ہے ۔ بزنس اور لوگ تاخیر نہیں کریں گے۔ وہ اس سے لائی گئی تباہی کے سامنے مزاحمت کریں گے ‘ لیکن تباہی تو اب ہوچکی ۔جدت پسندکے سامنے الجھن یہ ہے کہ اس وقت اُس کے لیے سامنے کوئی اور راستہ موجود نہیں ۔ سات ارب لوگ نت نئے طریقے سوچتے ہوئے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ایسی آفت کئی نسلوں سے انسان نے نہیں دیکھی تھی ۔ زلزلے کی لہروں کی طرح اس کاپیدا کردہ ارتعاش تکلیف دہ بھی ہے اور تباہ کن بھی ‘ لیکن اس کے نتیجے میں لوگ ایسی حیرت انگیز صلاحیتوں کا اظہار کر رہے ہیں‘ جن کا عام حالات میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ اس کے پانچ روشن پہلو ہویدا ہیں:۔ 
1۔ جنگی اتحاد: تاریخ میں پہلی مرتبہ سات ارب انسان متحد ہو کر ایک دشمن کیخلاف جنگ لڑرہے ہیں۔دنیا بھر کے سائنسدان اور محقق اس وائرس کے ٹیسٹ‘ علاج اور تدارک کا حل تلاش کرنے کیلئے ہمہ وقت مصروف ہیں۔ یہ اتحاد پراڈکٹ میں بہتری لانے کے ریکارڈ توڑ رہا ہے ۔ چند ہفتے پہلے ٹیسٹنگ کٹس بہت مشکل سے دستیاب تھیں‘ لیکن اب وہ نا صرف دستیاب ہیں ‘بلکہ نتائج بھی اب دنوں کی بجائے گھنٹو ں ‘ بلکہ منٹوں میں وصول ہوجاتے ہیں۔ اس ضمن میں ناقابل ِیقین پیش رفت کا سفر جاری ہے ۔کئی آئی ٹی کمپنیاں بھی کورونا وائرس کا حل تلاش کرنے کی کوشش میں ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ 
2۔ عالمگیر اختراع: ممالک چاہے امیر ہوں یا غریب‘ اس جنگ میں ساز وسامان تیار کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں ہیں۔ کورونا کے بعد کی دنیا میں ''جدید تعلیم سب کے لیے ‘‘ کے خواب کی تعبیر ملنے جارہی ہے ۔ ذرا تصور کریں کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں تین ماہ کے لیے سکول بند کردئیے گئے ہیں‘ پرائیویٹ سکول آن لائن کلاسز کی سہولت فراہم کررہے ہیں۔ سرکاری سکولوں کے حوالے سے حکومت ِ پنجاب نے ایک ٹی وی چینل ''تعلیم گھر‘‘ کھولا ہے ‘جس پر پرائمری کی کلاسزلی جارہی ہیں۔ طلبا و طالبات گھر بیٹھے ہی پڑھ رہے ہیں۔ 
3۔ صلاحیت ہی اصل میرٹ ہے : ہمارے ہاں یہ تاثرپایا جاتا ہے کہ نوجوان افراد اپنی صلاحیتوں کا اظہار نہیں کرپاتے ہیں۔ موجودہ تباہ کن صورت ِحال نے اُنہیں یہ موقع فراہم کردیا ہے ۔ ایک نجی یونیورسٹی کے طلبا بہت سے پراجیکٹس پر کام کررہے ہیں۔ ان کی تفصیل پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔ ٹیلی کنٹرول جراثیم کش ربوٹ‘ سستی پی سی آر ٹیسٹنگ کٹس‘ اردو اور انگریزی زبانوں میں کووڈ 19 سلف سکرینگ ایپ‘ دنیا میں اینڈرائیڈ کے لیے پہلی اردو ایپ جس کا نام ہے ''کووڈ چیک پاکستان‘‘۔ یہ پراجیکٹس طلبا کی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تھوڑی دیر (چند گھنٹوں سے لے کر ایک دن تک) تک سانسیں بحال رکھنے کے لیے وینٹی لیٹرز۔ ہیلتھ کیئر مصنوعات اور ادویات کو ریگولیٹ کرنے والی برطانیہ کی ایجنسی ‘ MHRA کی طرف سے اسے منظور کرلینا ایک بہت بڑی پیش رفت ہے ۔ 
4۔ غیر معمولی تخلیق: تخیل سے تخلیق تک کا سفر محض ایک نعرہ ہوا کرتا تھا۔ اب یہ ایک حقیقت بن چکا ۔ اچھی بری تمام مصنوعات میں جدت لائی جارہی ہے ۔ وہ مصنوعات‘ جن سے انسانیت کو خطرہ بتایا جاتاتھا۔ اب‘ اُن سے انسانوں کیلئے مواقع پیدا ہورہے ہیں۔ تمام معمولی سروسز کو غیر معمولی بنایا جارہا ہے ۔ آئی ٹی انڈسٹری کی طرف ہی دیکھیں۔ آن لائن میٹنگ سروس‘ زوم کے صارفین کی تعدادصرف دوماہ میں بیس ملین سے بڑھ کر دوسوملین تک پہنچ چکی ہے ۔ یہ پلیٹ فورم گھر بیٹھے میٹنگ‘ لیکچر‘ انٹرویو‘ ملازمت دینے ‘ ملازمت سے نکالنے اور تبادلہ خیال کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ کچھ چھوٹے کاروباری اداروں نے بالائی طبقے کی ضروریات سامنے رکھ کر کورونا حفاظی سامان فروخت کرناشروع کردیا ہے ‘جیسا کہ ایک گفٹ پیک کی صورت آرگینگ سوپ‘ خوبصورت ماسک اور مہنگے سینی ٹائزرز ۔ یہ پیک آرڈر پر تیار ہوتے ہیں۔
5۔ ہلاکت خیز ہتھیاروں کی جگہ جان بچانے والا سامان: بچائو کی ضرورت انقلاب کا عجیب ترین محرک ہوتی ہے ۔ جب خطرہ اتنا عام ہو جتنا آج کورونا وائرس ہے تو تمام راستے ایک ہی منزل کی طرف جاتے ہیں؛ چنانچہ ہم دیکھ رہے کہ طالبان رضاکار افغانستان میں مریضوں کی تیمار داری کر رہے ہیں۔ سعودی عرب اور یمن میں جنگ بندی ہوچکی ۔ ہلاکت خیز میزائل برسانے والے ڈرونز کے ذریعے اب جراثیم کش سپرے کیا جارہا ہے ۔ انتہائی متاثرہ علاقوں میں لاک ڈائون کے دوران ادویات فراہم میں ڈرون معاون ہے ۔ ڈرونز سے انسانوں کی جان بچانے کاکام لیا جارہا ہے ۔
لاہور کا شمار دنیا کے تین انتہائی آلودہ شہروں میں ہوتا تھا۔ یہاں کی فضامیں آلودگی کی شرح بتانے والا انڈکس 400 پر تھا۔ اب‘ یہ شہر انتہائی صاف ہوا رکھتا ہے ۔ فضائی آلودگی کا انڈکس 51 تک گر چکا ۔ بی بی سی اس بحران سے نمٹنے کیلئے پاکستان کے ''فیاضی کے قانون ‘‘ کا معترف ہے ۔الغرض کووڈ 19 کی لائی گئی تباہی وقت کے ساتھ ختم ہوجائے گی ‘ لیکن اس کی وجہ سے روشن ہونے والے امکانات زندگی کا نیا معمول بن کر انسانیت کی فتح کی علامت اوراس کے دشمن کی شکست کی کہانی سناتے رہیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں