اپنی حدود کا خیال رکھیں!

انسان ایک سماجی حیوان ہے۔ سماجی تنہائی گھبرا ہٹ کا سبب بنتی ہے۔ مشینوں کی موجودگی انسانوں کے ایک دوسرے سے تعلقات کی جگہ نہیں لے سکتی۔فیس بک بالمشافہ ملاقات کا متبادل نہیں ہو سکتی ‘ نہ ہی مجاز حقیقت بنتا ہے۔یہ زندگی کی حقیقتیں انسانی فطرت میں رچ بس چکی ہیں ۔ اب سماجی فاصلہ ‘ سماجی تنہائی اور سماجی گریزنے ذہنی‘ جسمانی اور کاروباری روابط کو آزمائش میں ڈال دیا ہے ۔ گزشتہ چار سے چھ ہفتوں کے دوران دنیا خلاف ِفطرت حقائق سے نبردآزما ہے۔ لوگ اپنے اپنے کمروں اور مکانوں میں بند ہیں۔ وہ باہر جانا چاہتے ہیں‘ انسانوں میں گھل مل کررہناچاہتے ہیں‘ لیکن میل ملاپ سے ایک خطرناک بیماری کا اندیشہ ہے ۔ 
عالمی ادارۂ صحت نے اس عالمی وبا کے شروع میں اس نے خبردار کیا تھا کہ اگر حکومتوں نے لاک ڈائون نہ کیا یا دیگراقدامات نہ اٹھائے تو کورونا وائرس بیس ملین افراد کی جان لے سکتا ہے ۔ اب ڈبلیو ایچ اونے خبردار کیا ہے کہ بھوک سے بھی تیس ملین لوگ مر سکتے ہیں۔ لاک ڈائون نہ کیا جائے تو وائرس لوگوں کی جان لیتا ہے ‘ لاک ڈائون کرنے سے بھوک ہلاک کرتی ہے ۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ دنیا بھر کی حکومتوں نے وائرس کا پھیلائو روکنے کے لیے لاک ڈائون کیا ‘ لیکن اب معیشت ایک چیلنج بن چکی ہے ۔ فیکٹریاں بند‘ ریستوران اور خریداری کے مراکز بند‘بے روزگاری عروج پر ‘ صحت کی سہولیات پر اربوں ڈالر خرچ ہورہے ہیں‘ لیکن اس رقم سے کوئی ریوینوحاصل نہیں ہوگا۔ یہ چیز معاشی استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ اب تو ترقی یافتہ اور امیر ممالک میں بھی لاک ڈائون برقرار رکھنے یا اُٹھانے کی بحث شروع ہوچکی ہے‘ حالانکہ ابھی وائرس کے وار تھمے نہیں ہیں۔ یہ انتخاب دومہیب مشکلات کے درمیان ہے ‘ لیکن پھر رہنمائوں کو بحران میں نپے تلے رسک بھی لینا ہوتے ہیں‘ ان کے نتائج مثبت بھی نکل سکتے ہیں اور منفی بھی ۔
جیسا کہ کہا جاتا ہے ‘ سب سے خطرناک چیز خطرہ مول نہ لینا ہے۔ وہ جو لاک ڈائون کے حامی نہیں تھے ‘اُنہوں نے وائرس کے تیز پھیلائو کا سامنا کیا ۔ دوسری طرف اس کے حامیوں نے معیشتوں کو تیزی سے زمیں بوس ہوتے دیکھا۔ کون تصور کرسکتا تھا کہ تیل کی قیمت صفر‘ اور پھر منفی36ڈالر بھی ہوسکتی ہے؟ جانیں بچانا یقینا ترجیح ہونی چاہیے ‘ لیکن روزگار بچانا بھی ضروری ہے۔ غریب ممالک میں معاشی سرگرمیوں کو نہیں روکا جاسکتا ‘ ان کی حکومتوں کے پاس لاک ڈائون کے دوران عوام کی کفالت کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ اس الجھن کا جواب کوئی ایسا درمیانی راستہ تلاش کرنا ہے‘ تاکہ لاک ڈائون بھی برقرار رہے اور معاشی سرگرمیاں بھی چلتی رہیں۔ ایسا نہ ہوکہ معاشی تباہی کی قیمت جانوں کے تحفظ سے کہیں بڑھ جائے ۔ بظاہر تو یہ ایک سادہ سی مساوات دکھائی دیتی ہے ‘ لیکن یہ بے حد پیچیدہ ہے ۔ دنیا کو پہلے کبھی ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔ یہ ایک نیا تجربہ ہوگا۔ اور تجربے کے نتائج غلط بھی نکل سکتے ہیں۔ تجربہ بتاتا ہے کہ طویل عرصے تک لاک ڈائون نہیں کیا جاسکے گا‘کوئی نئی طرح کا تجربہ ناگزیر ہوچکا ہے ۔ جانیں بچاتے ہوئے معیشت کو چلتے رکھنے کی حکمت ِعملی سمارٹ لاک ڈائون کہلاتی ہے ‘ مگر یہ تجربہ سمارٹ ہوتا ہے یا حماقت‘ اس کا دارومدار چار معروضات پر ہے :
1۔ ابتدائی مرحلے پر تیاری: وبائوں سے غافل ہوجانے اور ان سے نمٹنے کی تیاری نہ کرنے سے خطرات کی پیش گوئی مشکل ہو جاتی ہے‘ تاہم موجودہ وبا نے انسان کو چوکنا کردیا ہے ‘ اس نے جان لیا ہے کہ وبا شروع ہوتے ہی حرکت میں آنا ہوگا۔ جب متاثرہ افراد کی تعداد ابھی دہرے ہندسے میں ہوتو لاک ڈائون شروع کردینا چاہیے ‘ اس سے وبا کا پھیلائو روکا جاسکتا ہے ۔ 
2۔ ملکی ترقی : اس کاکوئی طے شدہ فارمولا نہیں ۔ موجودہ عالمی وباسے نمٹنے کے لیے ہر خطے کے لیے ایک جیسا فارمولا نہیں ہے۔ جنوبی ایشیا میں چین اور جنوبی کوریا نے مختلف آپشنز کامیابی سے آزمائے۔ مغربی ممالک میں جو چیز سویڈن کے لیے کامیاب رہی‘ وہ امریکہ کے لیے تباہ کن ثابت ہوئی۔ ہوسکتا ہے ترقی یافتہ ممالک میں کام دینے والا بہترین فارمولا غیر ترقی یافتہ ممالک کے لیے تباہ کن ثابت ہو۔ غریب ممالک میں غربت کا وائرس بھی موجود ہے ۔ اس کی ہلاکت خیزی کورونا وائرس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ ایل سلواڈور‘وینزویلااور انڈیاکی تین مثالیں ایسی ہے کہ اُنہوں نے مغرب کی طرز کا لاک ڈائون کیا‘ لیکن ایسا کرتے ہوئے اپنے ہاں مختلف سطحوں پر پائی جانے والی غربت کے بارے میں نہیں سوچا۔ ایل سلواڈور میں لاک ڈائون کے ایک ہفتہ بعد ہی لوگوں کے ہجوم امداد مانگنے کے لیے دارالحکومت میں جمع تھے ۔ وینزویلا کی گلیوں میں فسادات ہونے لگے ‘ جبکہ بھارت میں لاک ڈائون کی وجہ سے سینکڑوں افراد کی جان چلی گئی ۔ 
3۔ عوام کا اعتماد اور تعاون : لاک ڈائون یا سماجی فاصلے کی حتمی کامیابی کا دارومدار عوام کے رویے پر ہے ۔ دیکھنا ہے کہ وہ اس مسئلے کو کیسے سمجھتے ہیں اور حکومت کی طرف سے طے کردہ ضوابط کی کس حد تک پابندی کرتے ہیں۔عوامی شعور رکھنے والے ممالک میں لاک ڈائون کافی نرم کردیا گیا ہے ‘وہاں عوام حکومت کے طے کردہ ضوابط پر عمل کرتے ہیں‘ اُنہیں اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے حکومتی اقدامات پر اعتماد ہے ۔ دیگر کچھ ریاستوں‘ جیسا کہ فلپائن ‘ کے وزیر ِاعظم کو لاک ڈائون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو گولی مارنے کی دھمکی دینی پڑی۔
4۔ تجزیہ کرنے اور حکمت ِعملی وضع کرنے کی صلاحیت: کورونا وائرس ایک سائنس ہے ‘ جبکہ صحت ِعامہ کی ایمرجنسی لگانے کے لیے ڈیٹا کا جائزہ لینا ہوگا۔ پھیلائو کی شرح‘ عوامی رویہ اور صحت کی بروقت سہولیات کا تجزیہ کورونا سے نمٹنے کی تیاری کے مراحل ہیں۔ بدلتی ہوئی صورتحال کے ساتھ حکمت ِعملی کو مؤثر اور فعال طریقے سے تبدیل کرنے کیلئے پالیسی فیصلوں پر مستقل نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس کی ایک مثال جرمنی ہے ‘ اُنہوں نے شرح اموات کم رکھنے کا فیصلہ کیا‘یہی وجہ ہے کہ جرمنی میں شرح اموات یورپ میں کم ترین ہے ۔ دوسری طرف جاپان نے ہرمرحلے کویکساں تیاری سے ڈیل نہیں کیا‘اب وہاں متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے ۔ 
ذہن اور اعصاب کے اس کورونا مقابلے سے سیکھنے کے تین سبق ہیں۔ پہلا یہ کہ دنیا کے بہتر ماڈلز کی دیکھیں لیکن اُنہیں مقامی طور پرزمینی حقائق سے ہم آہنگ کریں۔ دوسرا یہ کہ اعدادوشمار اورجائزے سے ممکنہ طور پر زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے‘ اُنہیں ریڈ زون کا نام دے لیں ‘اُن علاقوں کا مؤثر لاک ڈائون کیا جائے ۔ اس کے بعد بتدریج کم متاثرہ علاقے اورنج اور گرین زون ہوں گے ۔ اُن علاقوں میں طے شدہ ضوابط کے اندر رہتے ہوئے کام کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے ۔ تیسرا یہ کہ عوام کو باخبر رکھیں‘ اُنہیں آبادی کے معمر افراد کے تحفظ ‘ اور غریب اور ضرورت مند افراد کی کفالت اور امداد کی ضرورت کا احساس دلائیں۔ ممکن ہے کہ ویکسین کی تیاری میں کچھ دیر لگ جائے ‘ لیکن اس دوران ایک سماجی اور عملی طور پر قابل ِ قبول حکمت ِ عملی وضع کرنا ہوگی۔ کورونا وبا نے دنیا کو اچانک آلیا‘ اس کے لیے کوئی بھی تیار نہ تھا‘ اب سیاسی عزم کے ساتھ ساتھ عوام کی قوت ِارادی ہی اس بحران سے نکال سکتی ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں