مصیبت میں زندگی کا حقیقی پن

جب آپ خطرے کا سامنا کررہے ہوں تو دفاعی حصار کی دراڑیں نمایا ں ہوجاتی ہیں۔ موجودہ عالمی و بانے دنیا کے انتہائی طاقت ور‘ دولت مند ‘ عقل مند اورپرُ امید افراد کو بھی آزمائش میں ڈال دیا ہے ۔ عزم‘ لگن‘ حوصلے اور جذبے کی پرکھ کا وقت ہے ۔ اس غیر معمولی عالمی شٹ ڈائون کے مضمرات کا شکار ممالک ‘کمپنیوں اورافراد کوایک نئی اور تکلیف دہ حقیقت کا سامنا ہے۔ امریکی پولیس کے ہاتھوں جارج فلائیڈ کی موت دنیا بھر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ ان میں سے کچھ نے احتجاجی مظاہروں میں شرکت کی ؛ پولیس کو للکارا اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی ہدایت کی خلاف ورزی کی تو کچھ نے املاک کو نذر ِآتش اور لوٹ مار کرنا شروع کردیا۔ غصے ‘ غم اور موقع پرستی کے اس اظہار نے اقوام اور افراد کے اصل کردار کو بے نقاب کردیا ہے ۔ 
بطورِایک عالمی طاقت امریکا کا عروج انسان کو صلاحیتوں کے مطابق ترقی کا موقع فراہم کرنے کا بہترین ماڈل قرار پایا تھا۔ وسیع حجم رکھنے والی معیشت‘ تیز رفتار صنعت کاری‘ جدت اور اختراع ‘ دنیا کا بہترین تعلیمی اور تحقیقی نظام اور دنیا بھر سے آنے والے مختلف افراد کی میزبانی کی قابل ِرشک مثال بن گیا۔ بہت سے ترقی پذیر ممالک امریکی نظام تعلیم‘ آئی ٹی اور جدت کا مطالعہ کرتے اس راہ پر چلنے کے لیے کوشاں تھے ‘ اسی طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ میں برطانیہ کثیر ثقافتی ‘ علم اور یورپ کے اتحاد کا مرکز بن کر ابھرا۔ ترقی پذیر ممالک کوشکایت تھی کہ اُن کے ذہین دماغ ان دونوں ممالک کے علمی اور تحقیقی نظام کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں۔امریکا اور برطانیہ کی کارکردگی اور تاثر ترقی کا قابل ِ تقلید پیمانہ بن گیا‘تاہم اس چکا چوند ظاہری میک اپ کے نیچے کچھ عرصے سے ثقافتی دراڑیں پڑنا شروع ہوچکی تھیں۔ ہم شاید بھول جاتے ہیں کہ 1960 ء کی دہائی میں امریکا نسلی تعصب کے مسائل کا شکار تھا۔ سیاہ فام امریکیوں سے زندگی کے ہر شعبے میں امتیازی سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ فلائیڈ کی موت کے بعد کے مناظر اور مارٹن لوتھر لنگ کے قتل کے بعد کے مناظر میں مماثلت پائی جاتی ہے ۔ گلیوں میں احتجاجی مظاہرے‘ نسلی بنیادوں پر انصاف کی دہائی ‘ پولیس کی طرف سے مظاہرین پر آنسوگیس پھینکنا‘ آتش زدگی اور افراد کا زخمی ہونا۔ یہ سب کچھ 1968 ء میں چلنے والی سماجی حقوق کی تحریک کے دوران بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ اُس تحریک کے نتیجے میں سیاہ فام افراد کو سماجی حقوق ملے اور امتیازی سلوک پرمبنی پالیسیاں تبدیل ہوئیں۔ 
اصل مسئلہ یہ تھا کہ نسلی تعصب اور امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے قوانین تو بن گئے‘ لیکن اس کی جڑیں امریکی معاشرے میں پیوست رہیں۔ اس معاشرے کا کیا جانے والا ہر مطالعہ ثابت کرتا ہے کہ نسلی بنیادوں پر پائی جانے والی عدم مساوات دراصل امتیازی سلوک کا اظہار تھی ۔ معاشی اور ثقافتی سطح پر سیاہ فام افراد سفید فاموں کی نسبت کہیں پست ہیں۔ جب سیاہ فام اوبامہ امریکاکے صدر منتخب ہوئے تو امید کی کرن پھوٹی تھی کہ اب‘ جبکہ ایک سیاہ فام وائٹ ہائوس میں داخل ہوا ہے تو امریکی معاشرہ بھی حقیقی تبدیلی کی راہ پر چل نکلے گا‘تاہم اپنی تمام تر ذہانت اور قوت ِگفتار کے باوجود اوباما نے اپنی جنگی پالیسیوں‘ بہت سے متنازع معاملات پر غیر واضح موقف اپنانے سے گریز اور مشکل فیصلے کرنے میں تذبذب سے بہت سوں کو مایوس کیا۔ آخر میں وہ کیپٹل ہل میں پائی جانے والی انتہائی تقسیم کو مورد ِالزام ٹھہرا کر رخصت ہوئے ۔ اُس کے بعد آئے ٹرمپ‘ اوبامہ کے دعوے دعوے ہی رہے تھے اور وہ نسلی امتیا ز کے خاتمے کے لیے کچھ نہ کرسکے ‘ لیکن صدر ٹرمپ کی آمد نے تو سیاہ فام آبادی کیلئے تبدیلی کے تمام چراغ گل کردئیے ۔صدر ٹرمپ نے کھل کر امتیازی رویوں کو ہوا دی۔ اُن کے دور میں سفیدفام بالا دستی کی تحریک نے زور پکڑا۔ تمام جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دورمیں جلد کی رنگت کی بنیاد پرزندگیوں میں فرق کس قدر بڑھتا گیا۔ درمیانی طبقے سے تعلق رکھنے والے سفید فام امریکیوں کی سالانہ اوسط آمدنی 175000 ڈالررہی تو دوسری طرف اسی طبقے سے تعلق رکھنے والے سیاہ فام امریکیوں کی سالانہ آمدنی محض 17000 ڈالر تھی ۔ 
زندگی کے ہر بنیادی شعبے میں یہی فرق نمایاں تھا۔ امتیازی سلوک کی اس لکیر کے آرپار صحت کی سہولیات بھی تقسیم تھیں۔ موجودہ عالمی وبا کے دوران امتیازی سلوک کی وجہ سے دونوں طبقوں کی شرح اموات میں واضح فرق دیکھنے میں آیا۔ امریکا اور برطانیہ‘ دونوں سے حاصل ہونے والے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ سیاہ فام افراد نا صرف اس وائرس سے زیادہ متاثر ہوئے‘ بلکہ مرنے والوں میں بھی زیادہ تعداد اُنہی کی ہے۔ اس پر مزید تحقیقات کی ضرورت ہے کہ کیا یہ صورتِ حال صحت کے پست معیار‘ کووڈ 19 کے دوران صحت کی سہولیات کی غیر مساوی تقسیم یا کسی اور عامل کی وجہ سے ہے ؛ چنانچہ ''بلیک لائیوز میٹر‘‘ محض ایک احتجاجی نعرہ نہیں‘ بلکہ پالیسیوں کی اصلاح اور گہری تحقیق کی دعوت فکر ہے ۔
قنوطی افراد ممکن ہے کہ ان واقعات کو میڈیا پر دکھائی دینے والا بھونچال قرار دیتے ہوئے کہیں کہ جیسے ہی کوئی اور واقعہ پیش آئے گا ‘ یہ موضوع تبدیل ہوکر پس ِ منظر میں چلا جائے گا۔ زیادہ تر کا انداز ِفکر اس سے مختلف ہے ۔ دنیا بھر کے نامی گرامی تجزیہ کار اس پیش رفت کی سنگینی محسوس کرتے ہوئے اسے بہت بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں۔ گو‘اُن کا لہجہ محتاط ہے۔ اُن کا استدلال مارٹن لوتھر کنگ کے قتل کے بعد ہونے والے احتجاج اور موجودہ احتجاج میں دکھائی دینے والے فرق پر مبنی ہے ۔ یہ فرق مندرجہ ذیل ہے :۔ 
1۔ اب مناظر دکھائی دے رہے ہیں : 1960 ء کی دہائی میں سوشل میڈیا نہیں تھا۔ سیاہ فام افراد کا احتجاج بمشکل ہی الیکٹرانک میڈیا پردکھایا جاتا تھا‘ لیکن موجود دور میں ہر واقعہ چشم زدن میں جغرافیائی حدود سے ماورا کروڑوں افراد کی نظر میں آجاتا ہے ۔ جارج فلائیڈ کی گردن پر نو منٹ کے لیے گھٹنارکھنے والی ویڈیو نے دنیا میں بھونچال برپا کردیا۔ سوشل میڈیا کی فعالیت نے الیکٹرانک میڈیا کو بھی اسے بار بار دکھانے پر مجبور کیا۔ کسی بھی تحریک کے دورانیے کا دارومدار اس کے بنیادی موقف کے اعادے پر ہے۔ جب تک یہ عوام کے ذہن میں تازہ ہے‘ تحریک زندہ رہے گی۔
2۔ احتجاج مظاہرین کا نسلی تنوع ایک اور فرق ہے : موجودہ احتجاج میں دنیا بھر کے کثیر ثقافتی جذبات کی نمائندگی شامل ہے ۔ مارٹن لوتھر کنگ کے وقت مظاہروں میں شامل سفید فام افراد کی تعداد برائے نام تھی ‘ لیکن موجودہ احتجاج میں سفید فام‘ ایشیائی ‘ افریقی اور یورپی باشندے برابر شریک دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں ہر عمر کے افراد کی نمائندگی موجود ہے ۔ وائرس کے خطرے اور لاک ڈائون کے باوجود ان میں بچوں سے لے کر معمر افراد تک شامل ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تاریخ کے بہت سے عظیم احتجاجی مظاہروں کے دوران دنیا اس طرح لاک ڈائون نہیں تھی ۔ طلبا کی کلاسیں اور امتحانات چل رہے تھے‘ لوگ ملازمت یا کاروبار میں مصروف تھے ‘ زندگی کی گہما گہمی اس قدر تھی کہ احتجاج کی خبر ایک محض ایک عام خبر کی طرح آئی اور گزر گئی ۔ کچھ احتجاجی بیانات آئے ‘ اشتعال کا مظاہرہ ہوا اور پھر زندگی معمول پر آگئی‘ لیکن اب ‘جب کہ لاک ڈائون کے دوران کرنے کو کچھ نہیں ہے او ر نہ ہی کوئی اور خبر ہے‘ تو یہ موضوع اپنی جگہ پر موجود ہے ۔ 
3۔ سٹیک ہولڈرز کا تنوع: اس گھنائونے فعل کی دنیا بھر میں مذمت کی گئی ۔ حاضر سروس دفاعی افسران سے لے کر ریٹائرڈ افسران‘ ریاستی سربراہان سے لے کر بادشاہوں اور سماجی کارکنوں سے لے کر دانشوروں تک ہر آواز نے امتیازی سلوک پر مبنی پولیس بربریت کی مذمت کی ہے ۔ 
زیادہ تر تجزیہ کارمحسوس کرتے ہیں کہ اس موقع کو ضائع نہیں جانے دینا چاہیے ‘ جس دوران ایک طویل عرصے کے بعد دنیا اور شہریوں کی توجہ ایک نقطے پر مرکوز ہوئی ہے تو کووڈ 19 کی تاریک رات سے ایک روشن تبدیلی کا آغاز ہونا چاہیے ۔ اس واقعے کے نتیجے میں حقیقی اصلاحات کا عمل شروع ہوسکتا ہے ۔ یہ اصلاحات صرف پولیس میں ہی نہیں ‘بلکہ عوام کے رویے ‘ سوچ اور طرزعمل میں بھی ہوں گی۔ دنیا بھر میں سنگین ناانصافیوں پر ردِعمل گھٹن زدہ نہیں رہے گا ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں