بھارتی خارجہ پالیسی کی حماقت

جب مشکل میں ہوں تو فائر کردیں۔ قومیں ناقص کارکردگی سے توجہ ہٹانے کے لیے اندرونی یا بیرونی مسائل کو ہوا دیتی ہیں ۔ بھارت کی چین کے ساتھ کشمکش نا صرف غلط وقت پربلاجواز شروع ہوگئی‘ بلکہ گزشتہ نصف صدی کے دوران اس کی مثال نہیں ملتی‘ جس دوران دنیا بھر کی توجہ ایک نادیدہ دشمن پر مرکوزتھی ‘ تمام وسائل کا رخ اور پالیسی ارتکازکووِڈ 19 کے خطرے کے سدِباب پر تھا ‘تو دنیا کم از کم کسی اور محاذ آرائی کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی‘ تاہم سیاسی سوچ ایک مختلف چیز ہے۔ اس کا ردِعمل کئی حوالوں سے غیر متوقع ہوتا ہے ۔ 
مارچ میں کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا نے صدمے کے عالم میں سرگرمیوں کو بند ہوتے دیکھا۔ بہت سے افراد کا خیال تھا کہ سات ارب لوگوں کو متاثر کرنے والے مرض کی موجودگی میں تمام انسانیت کے سامنے ایک ہی ایشو ہوگا؛اس کا علاج یا ویکسین کیسے دریافت کی جائے؟ دنیا بھر کو تحقیق اور تلاش کی کثیر جہتی کوششوں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے دیکھنا بہت حوصلہ افزا بات تھی ؛حتیٰ کہ طالبان بھی کورونا مریضوں کی مدد کرتے دیکھے گئے ۔ بے پناہ کاروباری رقابت کے باوجود گوگل اور ایپل کئی ایک امور میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹارہے تھے۔ مقصد اور لگن کی یگانگت کو دیکھتے ہوئے توقع تھی کہ عالمی رہنما بھی اپنی ذات سے بلند ہوکر اپنے دوستوں اور دشمنوں کی طرف ہاتھ بڑھائیں گے کہ انسانیت کو درپیش اس سب سے بڑے خطرے کے سامنے انسان متحد ہیں۔ 
بہت سے لوگ برطانیہ کے چرچل اور امریکا کے ابراہم لنکن کا حوالہ دے رہے تھے کہ کس طرح اُن رہنمائوں نے دنیا کو مایوسی اور جنگ سے نکالا۔ قیادت تو ہوتی ہی وہ ہے‘ جو طوفان سے کشتی کو نکال لے جائے ۔ اس وقت سب سے بڑا خطرہ ویکسین کی تاحال عدم دستیابی نہیں‘بلکہ ایسے بیدار مغز رہنما کی کمی ہے‘ جو دنیا کو زیادہ محفوظ اور صحت مندمنزل تک پہنچائے ۔ امریکا پر ٹرمپ کی حکومت ہے۔ اُن کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ وائرس کا اُن کے نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات پر اثر ہے ‘ اسی طرح دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد علاقے میں بھارت کو بھی وائرس پر قابو پانے میں مشکل کا سامنا ہے ‘ جس دوران ایک سو ملین افراد غربت کی لکیر کے نیچے جاچکے تھے اور وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہورہا تھا‘ بھارتی وزیراعظم مودی نے وہی کچھ کیا‘ جو وہ ہمیشہ کرتے ہیں۔انہوں نے اندرونی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے بیرونی کشمکش چھیڑ دی۔ 
لداخ میں ایل اے سی پر چین اور بھارت کے درمیان ہونے والی جھڑپ خطے کی خارجہ پالیسی کے لیے سنگین مضمرات لیے ہوئے ہے ۔ بھارت کی سرحدیں صرف پاکستان کے ساتھ ہی نہیں لگتیں‘ اس کی 1962 ء میں چین کے ساتھ جھڑپ بھی ہوچکی ہے ۔ چین اور بھارت کا سرحدی تنازع اس خطے کی سب سے بڑی سرحدی کشمکش ہے ۔ بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنائو کو نمٹانے کے لیے پانچ نظام قائم کیے گئے ہیں۔ 1993 ء میں ایل اے سی کو پرامن اور خاموش رکھنے کے لیے چین اور بھارت کے درمیان معاہدے پر دستخط کیے گئے ۔ 1996 ء میں ایل اے سی کے قریب ملٹری فیلڈ میں اعتماد سازی کے اقدامات کے لیے معاہدہ کیا گیا۔ 2005 ء میں ایل اے سی کے قریب ملٹری فیلڈ میں اعتماد سازی کے اقدامات کے طریق کار پر معاہدہ کیا گیا ۔ 2012 ء میں سرحدی علاقے کے معاملات کے لیے مشاورت اور تعاون کے طریق کار کا معاہدہ طے کیا گیا۔ 2013ء میں سرحد ی دفاع کے تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے گئے ۔ 
ان معاہدوں کے باوجود بہت سے اختلافات بھی ہیں۔ گلوان وادی میں ہونے والا پرتشدد ٹکرائو نصف صدی کے دوران اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ تھا۔تنائو کی فوری وجہ بننے والی پیش رفت پانچ مئی کو بھارت کی گلوان وادی میں سڑک تعمیر کرنے کی کوشش تھی ۔ چین نے ایک پل اور دیگر رابطہ سڑکوں کی تعمیر پر اعتراض کیا تھا۔ یہ انفراسٹرکچر تزویراتی طور پر شیوک دولات بیگ اولڈی روڈ سے متصل ہونے کی وجہ سے انتہائی اہم ہے ۔ چین کی وزارت ِدفاع نے اس پر کھل کر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ چین ہمیشہ سے گلوان وادی پر اپنی خودمختاری رکھتا تھااور یہ کہ بھارت کے سرحدی دستوں کی حرکات و سکنات اور الفاظ کیے گئے معاہدوں کی خلاف ورزی ہیں۔ 
پندرہ جون کی شب مشرقی لداخ میں گلوان وادی میں تنائو کم کرنے کی کوششوں کے دوران ٹکرائو کے نتیجے میں بیس بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے۔ طرفین نے ایک دوسرے کو مورد ِالزام ٹھہرایا۔ اس کے بعد دونوں نے تنائو کم کرنے کا فیصلہ کیا۔ بھارت کی خارجہ پالیسی ایک طرف ہونے والے نقصان کی تلافی سرحد کے دوسری طرف پورا کرنے کی کوشش میں ہے ۔ 
اصل سوال یہ ہے کہ اس کا علاقائی استحکام اور پاکستان کے ساتھ تعلقات اور کردار پر کیا اثر پڑے گا؛ اگرچہ پاکستان میں بہت سے لوگ اس تنائو پر طمانیت کا اظہار کررہے کہ بھارت کا یہی علاج ہے ‘ تاہم ہمارے لیے سوچنے ‘ پیش بینی کرنے اور خارجہ پالیسی کومتحرک اور فعال کرنے کی ضرورت ہے ۔ پاکستان کو خارجہ پالیسی کے مندرجہ عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے منصوبہ سازی درکارہے :۔
1۔ بھارت کے محرکات اور ایجنڈا: بھارت کی سیاسی پالیسی واضح ہے ۔ جب داخلی طور پر معاملات بگڑ جائیں تو میڈیا کے جنون کو بیرونی مہم جوئی میں الجھادو۔ نریندر مودی کے انتخابات کے قریب بھی یہی کچھ ہواجب انہوں نے پلوامہ کا بہانہ بناتے ہوئے پاکستان پر حملہ کیا۔ اس مرتبہ کووِڈ 19 اور اس کی وجہ سے لاک ڈائون کی غلط پالیسی نے حکومت کے لیے شدید مشکلات پیدا کردی تھیں۔ اب ‘گلوان وادی کا واقعہ پیش آگیا۔ بیس فوجیوں کی ہلاکت نے بھارت کو اپنی حکمت ِعملی پر سوچنے پر مجبور کردیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے گھبراہٹ میں آکر پاکستانی ہائی کمیشن پر جاسوسی کا الزام لگاکر اپنا عملہ نصف کرنے کا کہا ہے ۔ 
2۔ علاقائی حمایت اور تعاون : بھارت کے علاقائی عزائم جنوبی ایشیا کے لیے ایک خطرہ ہیں۔ کشمیر میں بدترین جبرو تشدد کا مظاہرہ کرنے کے علاوہ انہوں نے چھوٹے ہمسایوں جیسا کہ نیپال کے ساتھ بھی سرحدی تنازع چھیڑ لیا ہے ۔ ان دونوں ممالک کے درمیان 372 مربع کلومیٹرعلاقے پر تنازع ہے ۔ درحقیقت یہ علاقہ نیپال‘ بھارت اور چین کے علاقے تبت کے درمیان ایک مثلث ہے ۔ نیپال کے ایوان ِبالا نے ملک کے نئے نقشے کی منظوری دی ۔ اس میں بھارت کے زیر کنٹرول علاقہ بھی شامل ہے ۔ اس پیش رفت نے بھارت کومشتعل کردیا۔ اس سے اٹھنے والے تنازع نے بھارت کے اپنے جنوبی ایشیائی ہمسایوں سے تعلقات مزید کشیدہ کردئیے ہیں۔ 
3۔ مداخلت کی عالمی خواہش: جس دوران دنیا کورونا کے خلاف جنگ لڑنے میں مصروف ہے‘ عالمی تنظیموں اور اداروں کے پاس نہ وقت ہے نہ گنجائش کہ وہ سرحدی تنازعات پر توجہ دیں۔ہوسکتا ہے کہ عالمی ادارۂ صحت اور اقوام ِمتحدہ انہیں تنائو کم کرکے عالمی وبا پر پوری توجہ مرکوز کرنے کا مشورہ دیں۔ پاکستان کے لیے یہ ایک اہم وقت ہے ۔ پہلی بات یہ ہے کہ معاشی مشکلات کا شکار اور چین کے ہاتھوں فوجی ہزیمت اٹھانے والا بھارت پاکستان کے ساتھ جارحیت دکھانے کی کوشش کرکے گا۔ پاکستان نے دنیا کو بھارت کے عزائم سے باخبر رکھتے ہوئے بہت اچھا کیا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان کو کووِڈ 19پر سارک کانفرنس بلانے اور بھارت کو مدعوکرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کانفرنس کے اراکین کو عالمی وبا کی وجہ سے امن اور استحکام کے معاہدوں پر دستخط کرنے کے لیے کہا جائے ‘ اگر بھارت دستخط کردے گا تو اچھا ہوگا ‘ اگر نہیں کرے گا تو ا س کے عزائم دنیا پر آشکار ہوجائیں گے ۔ تیسری بات یہ ہے کہ پاکستان کو اعلیٰ اور درمیانی سطح کے وفود چین اور نیپال بھیجنے چاہئیں‘ تاکہ اُن کے ساتھ کسی بھی ممکنہ بھارتی عزائم کے مقابلے میں تعاون کی فضا کا تاثر قائم کیا جائے ۔ وقت آگیا ہے ‘ جب بڑے اور چھوٹے علاقائی کھلاڑیوں کو مل مودی سرکار کی مہم جوئی کا ہاتھ روکنا ہے‘ کیونکہ مودی سرکار داخلی حماقت سے توجہ ہٹانے کے لیے بیرونی محاذ کھولنے پر تلے ہوئے ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں