کشمیریوں کی زندگی بھی اہمیت رکھتی ہے

کسی کی اذیت کا احساس اُسی وقت ہوتا ہے جب انسان وہ اذیت خود برداشت کرتا ہے۔ بہت سی چیزوں کا اظہار ناممکن ہے تاوقتیکہ اُنہیں خود محسوس کیا جائے۔ الفاظ تجربے کا متبادل نہیں ہوتے ۔ اگر یہ تمام معروضات کہیں سچ ثابت ہوسکتے تھے تو وہ کشمیر ہے۔ پانچ اگست2019 ء کو کشمیر میں لاک ڈائون کردیا گیا۔ یہ ایک بڑی خبر تھی ۔ کشمیریوں اور پاکستانیوں نے غیر معمولی بھارتی جبر پر صدائے احتجاج بلند کی ۔ دنیا نے یہ آواز سنی‘ اس سے اتفاق کیا‘ لیکن یہ سوچ کر آگے بڑھ گئی کہ جلد ہی بھارتی حکومت لاک ڈائون نرم کردے گی‘ لیکن مودی کے ذہن میں کچھ اور تھا۔نفرت کی سیاست کے بل بوتے پر حاصل ہونے والی انتخابی کامیابی کے غرور میں سرشار ہوکر اُس نے کشمیریوں کی آواز دبانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
پاکستان وہ پہلا ملک ہے جس نے اعلان کیا کہ وہ کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہوگا ۔ مودی اور دنیا کے بہت سے افراد پاکستان کی طرف سے ایسے عزم کا اظہار سننے کے عادی تھے ‘ اُن کا خیال تھا کہ یہ یوم ِ کشمیر پر کیا گیا ایک روایتی احتجاج ہے جس کے جذبات چند دن بعد ٹھنڈے پڑ جائیں گے‘ لیکن وزیر اعظم عمران خان نے دنیا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے اس مرتبہ ایک مختلف قدم اٹھایا ۔ انہوں نے نیویارک ٹائمز میں ایک مضمون لکھا کہ کس طرح کشمیر دنیا کے لیے ایک خطرہ بن جائے گا‘ اگر دنیا نے اس پر توجہ نہ دی ۔مودی کی پارٹی آر ایس ایس کا ہٹلر کی نازی پارٹی سے موازنہ کرنے سے دنیا نے اس پر لکھنا اور بولنا شروع کردیا ۔ عالمی میڈیا نے دیکھا کہ جو کچھ وزیر اعظم عمران خان کہہ رہے تھے ‘ وہ محض بیان بازی نہیں بلکہ ٹھوس اور ننگی حقیقت ہے ۔ جب دنیا نے مودی کی مذمت شروع کی تو اُس نے زیادہ جارحانہ رویہ اپنا لیا ۔مودی سرکارنے شہریت بل متعارف کرایا جس کا مقصد بھارت میں رہنے والے مسلمانوں اور غیر ہندو شہریوں کوامتیازی سلوک کا نشانہ بنانا تھا ۔ اس قانون کے خلاف بھارت کے اندرسے بھی شدید ردعمل آیا ۔ احتجاجی مظاہروں پر پولیس سے بدترین تشدد کروایا گیا جس سے وزیر اعظم مودی کے ہندوتوا عزائم مزید بے نقاب ہوئے ۔ کشمیر کی صورتحال اس سے کہیں زیادہ گمبھیر ہے ۔ وہاں تو شہریوں کو احتجاج تک کی اجازت نہیں ۔ ذرائع ابلاغ پر کڑے پہرے ہیں۔ کشمیریوں کا رابطہ باقی دنیا سے منقطع ہے ۔ میڈیا اور غیرملکی نمائندگان کو کشمیر کے حقائق کی رپورٹنگ کی اجازت نہیں ۔ یقینا یہ سال کشمیریوں پر بہت بھاری تھا۔
اپنے مستقبل کے لیے جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کی زندگی گزشتہ سال پانچ اگست کو آرٹیکل 370 کی منسوخی سے مزید اجیرن کردی گئی۔ یہ آرٹیکل کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا تھا۔ اس کے تحت صرف مقامی افراد ہی زمین خرید سکتے تھے اور صرف مقامی افراد ہی یہاں ملازمت حاصل کرسکتے تھے۔ حالیہ دنوں ججوں‘ دانشوروں اور سفارت کاروں پر مشتمل فورم فار ہیومین رائٹس نے70 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ ''جموں و کشمیر: لاک ڈائون کے انسانی حقوق پر اثرات‘‘شائع کی ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وادی ٔ کشمیر کے عوام بھارتی ریاست اور بھارتی عوام سے مکمل طور پر کٹ کر رہ گئے ہیں۔ انہیں انسانی حقوق اور منصفانہ اور شفاف ٹرائل سے محروم کردیا گیا ہے ۔ جابرانہ قوانین کا کھلا استعمال روا رکھا گیا ہے‘ جیسا کہ پبلک سیفٹی ایکٹ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کرنے والا یواے پی اے ایکٹ۔ ان کا مقصد کشمیریوں کی اختلافی آواز کو دبانا ہے ۔
ریاست میں مواصلات کو منقطع کردیا گیا ہے‘ جو کہ غیر قانونی حرکت ہے ۔ جموں و کشمیر میں 2019ء میں انٹر نیٹ کو 55مرتبہ بند کیا گیا ۔ یہ بندش 213دنوں پر محیط تھی جو کہ ایک ریکارڈ ہے ۔ ایسا حالیہ لاک ڈائون کے دوران کیا گیا ۔بھارتی سپریم کورٹ نے استفسار کیا کہ کیا وادی میں فور جی کی سہولت بحال کی جاسکتی ہے ؟ دہلی حکومت نے مؤقف اختیار کیا کہ انٹر نیٹ تک رسائی بنیادی حقوق میں شامل نہیں ‘ نیز مزاحمت کار فور جی انٹر نیٹ سے فائدہ اٹھا کر حملوں کی منصوبہ بندی کرسکتے ہیں۔ دہلی کی عدالتیں بھی مودی سے خائف ہیں۔ کشمیر کی سماجی اور معاشی ناکہ بندی سے پیدا ہونے والے غصے اور خوف کے جذبات نے کشمیریوں کی صحت پر مضر اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس کے بعد کورونا وائرس آگیا ۔ کوویڈ 19 لاک ڈائون نے اُن کے مصائب میں مزید اضافہ کردیا ۔ لاک ڈائون کی آڑ میں بھارت کو کشمیریوں کی نقل و حرکت مزید محدود کرنے کا بہانہ مل گیا۔ صنعت ‘ سکول ‘ کالج اور سیاحت بند ہونے سے کشمیر کی معیشت پہلے ہی خستہ حال تھی‘ صحت کے بڑھتے ہوئے مسائل کے ساتھ حالات مزید بگڑچکے ہیں ۔ فی الحال کشمیر کی تازہ تصویر سامنے نہیں آئی ہے ۔ یہ وقت ہے جب دنیا ‘ خاص طور پر پاکستان کو کشمیر پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات درکار ہیں:
1۔ سیاسی اقدامات : پاکستان کا نیا سیاسی نقشہ بنانا درست اقدام ہے۔ اس نے واضح پیغام دے دیا کہ پاکستان ہر صورت کشمیریوں کے مفادات کا تحفظ کرے گا۔ یہ نقشہ مستقبل کے اقدامات کی راہ نمائی کرے گا۔ ضروری ہے کہ اسے سفارتی ذرائع سے دنیاکے سامنے رکھ کر کشمیریوں کے لیے حمایت حاصل کی جائے ۔
2۔ کشمیر کے لیے عالمی برادری کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے لابنگ کی جائے ۔ کوویڈ 19 کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ کسی قدر پس ِ منظر میں چلا گیا لیکن اس کی وجہ سے ایک احساس ضرور بیدار ہوا ہے ۔ کوویڈ 19 کے دوران دنیا چند ہفتوں کے لیے اپنے گھروں میں لاک ڈائون رہی ۔اسے علم ہے کہ اس کی اذیت کیا ہوتی ہے ۔ اس سلسلے میں بہت سے جذباتی اور جسمانی صدموں سے لبریز کہانیاں گردش میں ہیں۔ وقت آگیا ہے جب عالمی برادری ایک سال طویل لاک ڈائون کی اذیت کا احساس کرے ۔ ضروری ہے کہ تمام عالمی فورمز جیسا کہ اقوام ِ متحدہ‘ ہیومین رائٹس واچ‘ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور دنیا کی مختلف پارلیمنٹس تک رسائی حاصل کرکے کشمیر میں مسلسل جاری لاک ڈائون کی وحشت کو اجاگر کیا جائے ۔ اگر لاک ڈائون کا موضوع سامنے رکھ کر بات کی جائے گی تو یقینا یہ آواز سنی جائے گی اور اس پر ردعمل بھی آئے گا۔
3۔ مشترکہ مشن فورم کا قیام : بھارت کی علاقائی پالیسیوں نے دیگر ہمسایوں کو بھی پریشان کررکھا ہے ۔ گلوان وادی میں ایل اے سی پر چین کے ساتھ تصادم نے حالات مزید کشیدہ کردیے ہیں۔ بھارت کا نیپال کے ساتھ سرحدی تنازع بھی سامنے آگیا ۔ شہریت بل نے بنگلہ دیش کو بھی زک پہنچائی ؛ چنانچہ وقت آگیا ہے جب بھارتی مداخلت‘ امتیازی سلوک‘ انسانی حقوق کی پامالی کے مزید واقعات کو یکجا کرکے حمایت تلاش کی جائے ۔
4۔ شہری تحریک ''کشمیری لائف میٹرز ‘‘کی مہم : ''کشمیری لائف میٹرز ‘‘کی باز گشت سنائی دینا شروع ہوچکی ہے ۔ ضروری ہے کہ اسے بھی'' بلیک لائف میٹرز ‘‘کی طرح عالمی جہت دی جائے ۔ جارج فلائیڈ کے قتل کی ویڈیو نے تحریک کو دنیا بھر میں پھیلا دیا۔ بھارتی ظلم و جبر کی ویڈیوز اور مناظر دنیا کے سامنے پیش کیے جائیں۔ ان کے ساتھ عالمی رہنمائوں کی رائے اور پیغامات بھی ہوں۔ عالمی فورمز اور تنظیموں کو جگانے کے لیے دبائو ضروری ہے ۔
کوویڈ 19 کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈائون کے دوران گھروں میں چند ہفتے گزارنے سے دنیا شدید ذہنی اور جسمانی اذیت کا تجربہ رکھتی ہے ۔دنیا کو احساس دلانا چاہیے کہ اگر وہ 365 دنوں کے لیے گھروں میں قید ہوجائیں اور اُن کے پاس ذرائع ِابلاغ‘ صحت کی سہولیات اور کوئی وسائل نہ ہوں اور وہ سفاک ریاست کے رحم وکرم پر ہوں تو اُن کی کیا حالت ہوگی ؟ دنیا کے لیے یہ احساس کرنے کا وقت آگیا ہے کہ تمام زندگیوں‘ چاہے سیاہ فام ہوں اور کشمیری‘ کی اہمیت ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں