بامقصد تدابیر اور احتیاط کی ضرورت

''کورونا وائرس کو شکست دی جاچکی‘ آئیے اب ہم معمول کی زندگی کی طرف لوٹ چلتے ہیں‘‘۔ یہ تھے بیانات پاکستانیوں کی اکثریت کے‘ جب حکومت نے کم و بیش تمام شعبہ ہائے زندگی کو کھولنے کا اعلان کیا ۔ یہ بیانات خطرناک سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔یہ سوچ اس یقین پر مبنی ہے کہ وائرس ختم ہوچکا اور کوویڈ سے پہلے کا دور واپس آچکا ؛ چنانچہ قبل اس کے کہ یہ غلط فہمی غلط اقدامات اور سنگین نتائج کا باعث بن جائے اپنی سوچ درست کرنے اور اپنے افعال پر نظر ِثانی کا وقت ہے ۔ انسانی رویہ عادات پر چلتا ہے اور انسانی ذہن بھول جاتاہے ۔ا گرچہ ہر کوئی سکون کا سانس لے سکتا ہے لیکن کسی کو بھی تمام حدود پار کرنے کی اجازت نہیں۔تمام احتیاطی تدابیر بالائے طاق رکھتے ہوئے سب کچھ کر گزرنے کی خواہش میں توازن پیدا کرنا ‘غیر ضروری حرکات سے گریز کرنا اور محفوظ فاصلہ برقرار رکھنا بلاشبہ ایک چیلنج ہے ۔ 
پاکستان نے وائرس کو محدود کرکے ایک حیرت انگیز کارنامہ سرانجام دیا ۔ دوسروں سے مختلف حکمت ِعملی اپنا تے ہوئے یہ ملک خطے اور دنیا سے ممتاز دکھائی دیا ۔ زیادہ تر ماہرین کا خیال تھاکہ غربت اور صحت کی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے پاکستان اور دنیا کے غیر ترقی یافتہ ممالک اس عالمگیر وبا سے بہت زیادہ متاثر ہوں گے۔ مارچ میں امپیریل کالج نے پیش گوئی کی تھی کہ اگست تک پاکستان میں یومیہ 70,000تک اموات ہوں گی ۔ جب دنیا میں وائرس کا پھیلائو شروع ہوا تو پیش گوئی تھی کہ جلد یا بدیر تمام ممالک اس خطرناک وائرس کا شکار ہو جائیں گے ۔ پاکستان نے بھی آہستہ آہستہ اقدامات اٹھاناشروع کردیے ۔ اس نے تحفظ کا اپنا ہی ماڈل اپنانے کا فیصلہ کیا ۔ بہت سوچ بچار کے بعد اپنائے گئے مرکزی عوامل جنہوں نے پاکستانی ماڈل کو کامیاب بنایا یہ ہیں:
1: جان اور روزگار بچانے پر توجہ : مکمل لاک ڈائون کی بجائے وزیر ِاعظم پاکستان نے باقی دنیا سے مختلف طرز ِعمل کامظاہرہ کیا۔ دلیل یہ تھی کہ امیر ممالک کے پاس اپنے عوام کی کفالت کے لیے وافر وسائل ہیں‘ تاہم غریب ممالک کی 80فیصد معیشت غیر دستاویزی ہے اور حکومت کے پاس لامتناہی امدادی رقوم دینے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ حکومت نے احساس پروگرام متعارف کرواتے ہوئے غریب افراد میں 150ارب روپے تقسیم کیے ۔ یہ پروگرام ملکی تاریخ کاسب سے بڑا امدادی پروگرام تھا۔ اس سے لاک ڈائون کے پہلے دوماہ کے دوران لوگوں کو ریلیف ملا۔ 
2: ٹیکنالوجی کی مدد سے ہدف کا تعین : پاکستان آئی ٹی اور ڈیجیٹل کی بہترین صلاحیتیں رکھتا ہے ۔ پاکستان نے ایسی ٹیکنالوجی بنالی جو وائرس سے متاثرہ افراد اور ممکنہ پھیلائو والے علاقوں کی شناخت کرسکتی تھی۔ ایک حکمت ِعملی کے ذریعے وائرس کو مخصوص علاقوں تک محدود کیا گیا ۔ 
3: مکمل لاک ڈائون کی بجائے سمارٹ لاک ڈائون : وائرس سے متاثرہ علاقے‘ گلی اور محلوں میں نقل و حرکت کو محدود کرنے سے سمارٹ لاک ڈائون کا تصور پیدا ہو ا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ صرف متاثرہ علاقے کو بند کیا جائے‘ دیگر علاقوں میں کاروباری سرگرمیوں کو جاری رکھا جائے ۔ اس وقت دنیا بھر میں اس حکمت ِعملی کو سراہا جارہا ہے ۔ 
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ وائرس کو محدود کرنے کا مطلب اس کا مکمل خاتمہ نہیں ۔ جیسے ہی ہم اسے محدود کرنے کے لیے اختیار کیے گئے ایس اوپیز پرعمل کرنا چھوڑیں گے یہ واپس آجائے گا‘ جیسا کہ ایران ‘ آسٹریلیا اور کچھ دیگر ممالک میں دیکھنے میں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اسے ایک ایسا دشمن سمجھنا ہے جسے ہم نے پکڑتولیا ہے لیکن جیسے ہی غفلت برتی یہ فرار ہوجائے گا ۔ وائر س کے دوسرے مرحلے میں کہیں زیادہ کوشش درکار ہے ۔ پہلے مرحلے میں لوگ خوف زدہ تھے ‘ حکومتیں بے یقینی کا شکار تھیں اور درست معلومات حاصل نہیں تھیں۔ خوف کی وجہ سے لوگوںنے بے حد احتیاط کی لیکن اس کے پھیلائو کے دوسرے مرحلے میں ''سب ٹھیک ہے‘‘ کا اطمینان اور اعتماد غالب ہوگا؛ چنانچہ ضروری ہے کہ اس کے دوسرے مرحلے کے لیے بہت احتیاط سے نپی تلی منصوبہ بندی کی جائے ۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات درکار ہیں:
1: آگاہی سے نفاذ تک : پہلے مرحلے میں عوامی آگاہی‘ یعنی عوام کوبتایا جائے کہ وائرس خطرناک ہے ‘ اس سے بچنے کے لیے حفاظتی اقدامات درکار ہیں۔ سوشل میڈیا ‘ الیکٹرانک میڈیا اور موبائل فون کی رنگ ٹونزکے ذریعے چلائی گئی عوامی آگاہی کی مہم بہت مؤثر ثابت ہوئی ۔ دوسرا مرحلے میں ایس اوپیز کا نفاذ یقینی بنایا جانا ہے ۔ جس طرح مساجد میں کیا گیا‘ ہر صنعتی تنظیم کو اپنے ملازمین کے لیے ایسے ہی حفاظتی اقدامات یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے ۔ ٹرانسپورٹ‘ پرچون کی دکانوں‘ ریستوران اور صنعتی تنظیموں کوا عتماد میں لیا جائے ۔ اگر کوئی مخصوص شعبہ ایس اوپیز پر عمل کرنے میں ناکام دکھائی دے تو اسے وارننگ دے کر دوبارہ ایس اوپیز پر عمل کرنے کا کہا جائے ۔ ذمہ داری ڈالے او ر نگرانی کیے بغیر لوگ ہدایت ناموں پر عمل نہیں کریں گے۔ 
2: بااثر افراد کی چلائی گئی مہم : پہلے مرحلے میں عوامی سطح پر چلائی گئی مہم کا مقصد تمام آبادی تک پیغام پہنچانا تھا۔ دوسرے مرحلے کے لیے اسے قدرے نیا رخ دینے کی ضرورت ہے ۔ گھر میں بچوں کی باتوں کا اثر لیا جاتا ہے ۔ بچوں کو ماسک پہننے کی ترغیب دی جائے تاکہ اُن کے والدین بھی محسوس کرتے ہوئے اس پر عمل کرسکیں ۔ بچوں کے لیے دلچسپ ماسک تیار کئے جائیں ‘جو وہ لطف اُٹھانے کے لیے پہنیں‘ لیکن اس کے ذریعے ایک سنجیدہ پیغام چلا جائے اورخاندان کے بڑے ماسک پہن کر باہر جائیں ۔ 
3: سیکھے ہوئے سبق کی یاددہانی : انسانی یاد داشت مختصر ہوتی ہے ۔ جب مشکل میں ہو تو انسان کے دل ودماغ تکلیف اٹھاتے اور پچھتاوا محسوس کرتے اور آئندہ کے لیے خود کو تبدیل کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ لیکن انسان بھول جاتا ہے۔ جب انسان بیمار ہوتو وہ کم شکر استعمال کرتا ہے ‘ پیدل چلتا ہے اور جلدی سوجاتا ہے ‘لیکن جسم کو صحت مندر کھنے والی یہ سرگرمیاں چند ایک ہفتوں کے بعد ختم ہوجاتی ہیں۔ اس وبا کے دوران عوام نے ماحول‘ صحت اوروسائل تباہ کرنے پرتاسف کا اظہار کیا ۔ اُنہوں نے وعدہ کیا کہ اب ویسی ہی سادہ زندگی بسر کریں گے جیسی کویڈ19 نے اُنہیں بسر کرنے پر مجبور کردیا تھا ۔ لیکن اب جب ہم معمول کی زندگی کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ ویسی ہی خریداروں کی بھیڑ دکھائی دیتی ہے ۔ تمام پہلی عادات واپس آچکی ہیں۔ سول سوسائٹی اور تعلیمی اداروں کو سادہ زندگی بسر کرنے ‘سماجی ذمہ داریوں کا احساس دلانے اور پرامن معاشرہ قائم کرنے کی ذمہ داری اٹھانی چاہیے ۔ 
کوویڈ 19 نے دنیا کو کچھ اہم سبق سکھائے ہیں۔ پہلا یہ کہ چاہے آپ کا تعلق ترقی یافتہ دنیا سے ہو یا تیسری دنیا سے ‘ آپ کسی بھی چیز سے کہیں بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ کوویڈ 19 ایک شخص سے ایک ملک میں شروع ہوااور پوری دنیا میں پھیل گیا ۔ اگر چند ممالک اپنے ہاں وائرس کو کنٹرول کرلیتے ہیں تو بھی وہ اُس وقت تک محفوظ نہیں ہوں گے جب تک دنیا کا ہر ملک محفوظ نہیں ہوجاتا۔یہی وجہ ہے کہ تمام ممالک کو اجتماعی سوچ‘ شراکت داری اور تعاون درکار ہے ۔ بدقسمتی سے اس کا ابھی تک فقدان ہے ۔ دوسرا سبق یہ کہ کوویڈ 19 کا بُرا وقت گزار کر دوبارہ زندگی کے پہلے جیسے معمولات کی طرف بڑھ جانا کام نہیں دے گا۔ اس کا مطلب کسی مہیب خطرے کو دعوت دیناہوگا۔افراد اور ممالک کو احساس کرنا ہوگا کہ زندگی کا مقصد اور مطلب ذاتی مفاد سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ وائرس نے ہمیں یہی سبق سکھایا ہے ۔ جب تک انسان اپنے ذاتی مفادات سے باہر نکل کر نہیں سوچتے ‘ سماجی حیثیت‘ صحت اور ماحول کی گڑبڑفطرت کے توازن کو درہم برہم کرتی اورانسانی بقا کے لیے نت نئے چیلنجز پیدا کرتی رہے گی ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں