کووڈ کے بعد حقیقی جانچ

دنیا بھر کی نظریں کووڈ19کی ویکسین پر لگی ہوئی ہیں۔ دوسرے مرحلے کی جانچ کے زیادہ تر نتائج مثبت ہیں۔ آکسفورڈ کی ٹیم کا کہنا ہے کہ تیسرے مرحلے کی جانچ کی کامیابی کے امکانات بھی روشن ہیں۔ طبی جانچ ایک پیچیدہ عمل ہے ۔ 2020ء کی آخری سہ ماہی اور 2021 ء کی پہلی سہ ماہی میں پیش آنے والے واقعات کا بہت حد تک دارومدار اسی پر ہے ۔ لیکن اس دوران دنیا جس آزمائش سے دوچارہے وہ کہیں زیادہ پیچیدہ ہے ۔ ویکسین کے تجربات وائرس کامسئلہ تو حل کرسکتے ہیں لیکن لوگوں کی جانب سے درست راستے کا انتخاب ہی آنے والے عشروں کی سمت کا تعین کرے گا۔ یہ صرف لیبارٹری تجربات میں مصروف ماہرین کی آزمائش کا وقت نہیں بلکہ سیاسی راہداریوں‘ کمپنیوں کے دفتروں اور گھروں میں رہنے والے افراد کا بھی امتحان ہے ۔ ویکسین کی تیاری ہی نہیں بلکہ کووڈ سے پہلے کی زندگی اور کام کے طریقے کی بھی آزمائش ہے ۔ 
کووڈ 19 نے دنیا کی بہت سی اساطیر کو چکنا چور کردیا ۔ کئی ماہ کے لیے سرگرمیاں ساکت ہوگئیں۔ اس سے پہلے ایسے مناظر انسانوں نے صرف خوفناک فلموں میں دیکھے تھے ۔ سڑکوں سے گاڑیاں غائب‘ سٹور بند ‘پارک خالی‘ کاروباربند۔ پوری صدی میں کبھی دنیا نے اتنا غیر یقینی پن نہیں دیکھا تھا۔ ایسی افراتفری کی فضا کبھی سننے میں نہیں آئی تھی ۔ عام طور پر کسی وائرس کے پھیلائو کے لیے وقت درکار ہوتا ہے ۔ ایبولا اور ایچ آئی وی کا پھیلائو ایک خطے تک محدود تھا‘ لیکن کووڈ 19 نے دیکھتے ہی دیکھتے سات ارب لوگوں کو بیک وقت متاثر کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر قوم کو ایک جیسے مسائل کا سامنا تھا۔ 
جس دوران ہر ملک کو ایک جیسی آفت کا سامنا تھا‘ ان کا ردِعمل یکساں نہ تھا اور ردِعمل میں فرق کے مختلف نتائج برآمد ہوئے ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ مثال کی غیر موجودگی انتخاب کو مشکل بنا دیتی ہے اور فیصلہ معلومات نہیں بلکہ وجدان کی بنیاد پر کرنا پڑتا ہے؛چنانچہ یہاں فیصلہ سازوں کے کردار‘ اقدار اور رویے کا امتحان بھی ہوتا ہے ۔گزشتہ پانچ ماہ کے دوران سامنے آنے والے حقائق نے کچھ سابق تصورات کو حرف ِ غلط کی طرح مٹا کررکھ دیا ‘ جیسا کہ:
1۔ ترقی یافتہ اقوام نے آنے والے کئی عشروں کی تیاری کررکھی ہے ۔کووڈ نے ان ممالک کی سانحات سے نمٹنے کی تیاری کے تاثر کو زائل کردیا ۔ کئی عشروں سے ہم ان کے ترقی یافتہ نظام کو سراہتے تھے کہ وہ کسی بھی ناگہانی صورت کے لیے تیار ہوتے ہیں لیکن موجودہ عالمی وبا نے سب کا بھرم چاک کردیا ۔ دنیا کا کوئی ملک بھی اس وائرس کے مقابلے کے لیے تیار نہ تھا حالانکہ اس کے بارے میں وارننگز موجود تھیں۔ تھنک ٹینکس‘ تجزیہ کار اور محققین بھی ویسے ہی بوکھلائے ہوئے تھے جیسے عام افراد۔ 
2۔ دولت مند ممالک کا نظام ِصحت انتہائی ناگہانی آفات سے بھی نمٹنے کے لیے تیار ہوتا ہے : یہ بھی ایک راسخ شدہ تصور تھا کہ دولت مند ممالک کا بہترین نظام ِ صحت بے پایاں صلاحیت اور گنجائش رکھتا ہے لیکن ہم نے دیکھا کہ جب کورونا وبا اپنے عروج کی طرف بڑھی تو برطانیہ‘ اٹلی اور امریکا جیسے ممالک میں بھی ناقابل ِ تصور مناظر دیکھنے کو ملے ۔ ہسپتال مریضوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے ؛ لاشیں ادھر اُدھر بکھری تھیں اور مریضوں کے لیے ڈاکٹر اور نرسیں دستیاب نہ تھے۔ 
3۔ وائر س کا پھیلائو غریب ممالک کی معاشی کمر توڑ دے گا: قدرتی بات تھی کہ جب دولت مند ممالک بھی وائرس کے سامنے بے بس تھے تو خیال کیا جارہا تھا کہ غریب ممالک کا معاشی اور طبی نظام تو خس وخاشاک کی طرح بکھر جائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ترقی پذیر ممالک پر شدید دبائو پڑا لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ انہوں نے دولت مند ممالک کی نسبت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔ ویت نام وہ پہلا ملک تھا جو وائرس سے آزاد قرار پایا۔ اگرچہ اس میں کچھ نئے کیسز سامنے آئے ہیں لیکن یہ بہت سے دیگر ممالک کی نسبت بہتر حالت میں ہے ۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو اس نے منصوبہ بندی اور بحالی کے لحاظ سے بہترین کارکردگی دکھائی ہے ۔ درحقیقت اس کی حکمت ِعملی کامطالعہ کیا جارہا ہے کہ اس نے کیا کیا جو بہترانداز میں وائر س سے نمٹنے میں کامیاب رہا ۔ 
4۔ علاقائی ہم آہنگی رکن ممالک کی دست گیری کرے گی : تاثر تھا کہ یکساں مسئلے کا مقابلہ کرنے کے لیے یکساں حل درکار ہے‘ تاہم امریکا کا چین اور عالمی ادارہ صحت کے ساتھ تنائو گہرا ہوا۔ یورپی یونین کے ممالک تاحال کوئی مشترکہ حل وضع کرنے کی کوشش میں ہیں۔ مشرق ِوسطیٰ کے ممالک پہلے سے زیادہ خود غرض دکھائی دیے۔ اس طرح منتشر ردِعمل نے اس وبا کو زیادہ خطرناک بنا دیا۔ اگر کوئی مربوط لائحہ عمل اختیار کیا جاتا تو عین ممکن ہے کہ اس کے نقصانات کم ہوتے ۔ 
کوویڈ 19 نے عالمی نظام کا کھوکھلا پن بے نقاب کردیا ۔ اس خوش نما نظام پر سے پردہ ہٹ گیا تو پتہ چلا کہ دبائو کے سامنے اس میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ بھائی چارے اور عالمی تعاون کے غبارے سے ہوا نکل گئی ۔ یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ کسی کو بھی وائرس کے پھیلائو کی سرعت کا اندازہ نہیں تھا ‘ لیکن دوسری طرف یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ نظام اور وسائل کی حقیقی جانچ تو مسائل کے وقت ہی ہوتی ہے ۔ ممالک اور افراد کو اپنے طرزِ عمل اور تصورات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ 
سال کا پہلا نصف وہ مشکل ترین دور تھا جو دنیا نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ۔ وہ کچھ ہوا جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ‘ لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ مصیبت ہی امکانات کا دروزہ کھولتی ہے ۔ ممالک کو جاننے کی ضرورت ہے کہ ایسا کیوں ہوااور وہ ایسا کیا کرسکتے ہیں کہ آئندہ یہ صورتحال پیش نہ آئے ۔ عالمی تنظیمیں جیسا کہ عالمی ادارہ صحت‘ عالمی بینک وغیرہ کو تحقیق‘ تجزیے ‘ پیش گوئی‘ تیاری اور منصوبہ بندی میں ایسی خامیاں تلاش کرنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے یہ آفت نازل ہوئی ۔اس مطالعے میں عالمی سطح پر اس ارادے کی ضرورت ہے کہ ممکنہ طور پر کسی بھی نئے وائرس کا پھیلائو روکنے کے لیے ہر قوم پیش بینی ‘ قانون سازی ‘ سرمایہ کاری اور کارکردگی دکھائے تاکہ کورونا جیسی صورتحال سے بچا جاسکے ۔ یقینا تغیر ہی کو ثبات حاصل ہے ‘ لیکن اچانک اور غیر متوقع تبدیلی غیریقینی پن اور افراتفری کا باعث بنتی ہے ۔ ممالک اور افراددبائو کے سامنے بے سمت ہوکر بکھر جاتے ہیں۔درپیش آفت کے عالم میں ماحول تبدیل ہوجا تا ہے‘ حالات تبدیل ہوجاتے ہیں ‘پروگرام بدل جاتے ہیں‘ پالیسیاں یکساں نہیں رہتیں لیکن اصول تبدیل نہیں ہوتے ۔ پہلا اصول یہ ہے کہ انسانو ں کی اہمیت سب سے زیادہ ہے ۔ صدر ٹرمپ نے کووڈ سے نمٹنے پر اپنے انتخابات کو اہمیت دی ؛ چنانچہ آج دنیا کا امیر ترین ملک دنیا میں سب سے زیادہ متاثر ہے ۔ دوسرا اصول ہے کہ انصاف سیاسی مفاد پر مقدم ہو۔ایک سال سے زیادہ عرصے سے کشمیر کو لاک ڈائون کرنے کے بعد آج پورا بھارت لاک ڈائون ہے ۔ اس نے غریب عوام کو کچل کر رکھ دیا‘ لیکن وائرس کا پھیلائو بڑھتا جارہا ہے ۔ ممالک اور کاروبار کواپنی معیشت بحال کرنے کی جلدی ہے ۔ جلدبازی میں وہ ان ممالک کے ساتھ بھی روابط قائم کررہے ہیں جو دنیا میں جبر کی علامت ہیں۔ فلسطینیوں کے حقوق کا تحفظ کیے بغیر اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات ممکن ہے عملیت پسندی کا تقاضا دکھائی دے‘ لیکن عملیت پسندی انسانیت کا متبادل نہیں ہوسکتی ۔ درحقیقت اس آفت نے انسانی اصولوں کی جانچ کی لکیر واضح کردی ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں