کراچی کی پکار

پانی میں ڈو با ہوا ‘ دنیا سے کٹا ہوا‘ انفراسٹرکچر تباہ ‘ یہ تصویر انڈونیشیا کے کسی دور افتادہ جزیرے کی نہیں پاکستان کے سب سے بڑے اور دنیا کے آٹھویں بڑے شہرکراچی کی ہے ۔ اس آفت زدہ شہر کیلئے خصوصی دعائوں کی ضرورت ہے ۔ موسلا دھار بارشوں میں اس کا انفراسٹرکچر کرچیوں کی طرح بکھر گیا۔ گھروں ‘دفتر وں اور کاروباری عمارتوں میں پانی داخل ہونے کے مناظر پر خوفناک فلم کا گمان ہوتا ہے ۔ کئی برسوں سے ہم معمول کی بارش کے بعد کراچی کی پانی میں ڈوبی گلیاں دیکھ چکے ہیں؛ چنانچہ غیر معمولی بارش کے بعد توقع کے مطابق ہر طرف پانی ہی پانی تھا ۔یقینا انسان فطرت کی مہربانی پر اعتماد رکھتا ہے اور فطرت انسان کی دوست ہے لیکن ہم اس شہر کی بات کررہے ہیں جس کا ڈھانچہ عشروںسے بوسیدگی کا شکار ہے۔ آپ قسمت پر تکیہ کیے بیٹھے رہیںاور سوچیں کہ ذمہ داری کوئی اور اُٹھائے گا‘ تو کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اب اس شہر کا کوئی والی وارث دکھائی نہیں دے رہا۔ طاقتور اور بااختیار دھڑے اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مون سون میں موسلا دھار بارش ہوتی ہے ‘ بہت سے شہر چند ہفتوں کیلئے کچرے کے ڈھیروںاور گندے پانی میں ڈوب جاتے ہیں‘ ہر سال یہی معمول ہوتا ہے ۔ زیادہ تر نشیبی علاقوں میں شہری چیخ و پکار کرتے ہیں‘ حکومتیں زبانی وعدے کرتی ہیںجن پر بمشکل ہی عمل درآمدہوپاتا ہے اور یوں زندگی کا سلسلہ چلتا رہتا ہے ‘ لیکن رواں سال صورتحال ایسی نہیں تھی ۔ کراچی میں جو کچھ ہوا وہ اس سے پہلے دیکھنے میں نہیں آیا۔ بارشیں اتنی شدید ہوئیں کہ پوش علاقوں کے مہنگے گھروں میں بھی پانی داخل ہوگیا ۔ کراچی کی اشرافیہ کے علاقے بھی برساتی پانی میں گھر گئے ‘ یہی وجہ ہے کہ اس مرتبہ اہلیان ِ کراچی کی صدا زیادہ بلند اور مؤثر ثابت ہوگی ۔ 
کراچی کے بہت سے شعبوں میں کئی ایک مسائل ہیں‘ 1980 ء اور 90 ء کی دہائیوں میں کراچی پر ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کا راج تھا اور قانون ایک کھلونا بن چکا تھا ۔ فیصلہ اس بات پر ہوتا کہ کس علاقے میں کس کے جنگجو زیادہ طاقتور ہیں اور کتنا خوف پھیلا سکتے ہیں‘ کتنی جانیں لے سکتے ہیں۔ 1990 ء کی دہائی بوری بند لاشوں کا دور کہلائی ۔ بدنامِ زمانہ امن کمیٹی میں شامل تمام پارٹیوں نے وسائل سمیٹنے والوں کے ہاتھ مضبوط کیے اور جو فنڈز شہر پر خرچ ہونے چاہئیں تھے ‘ وہ یا تو ایم کیو ایم کے رہنمائوں کے ہاتھوں سے ہوتے ہوئے ملک سے باہر محفوظ ٹھکانوں پر چلے گئے یا پیپلز پارٹی کے اکائونٹس میں سما گئے ۔ شہر اتنا خوفزدہ تھا کہ اپنے حقوق کے لیے زبان بھی نہ کھول سکا۔ اس لوٹ مار کی وجہ سے اس کا انفراسٹرکچر بوسیدہ ہونا شروع ہوگیا۔ اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے مرکزکے بہت سے اختیارات صوبوں کو منتقل کردیے گئے ۔ پیپلز پارٹی نے 2008-13ء میں یہ محسوس کرتے ہوئے کہ وہ سندھ کے دیہی علاقوں کے سوا دیگر صوبوں میں اپنا ووٹ بینک کھو چکی ہے‘ اس نے صوبوں کو بے پناہ اختیارات دینے کا فیصلہ کرلیا تاکہ وہ آئندہ قائم ہونے والی حکومتوں پر اپنی مرضی مسلط کرسکے۔ تمام اختیارات صوبے کے پاس تو آگئے لیکن اس نے مقامی حکومت تک اختیارات منتقل نہ کیے تو کراچی کی تباہی یقینی تھی ۔ اس شہر کا کوئی پرسان ِحال نہ رہا ۔ اٹھارہویں ترمیم نے وفاقی حکومت کے کردار کو بہت محدود کردیا ۔ چونکہ پیپلز پارٹی کا کراچی میں ووٹ بینک نہیں تھا ‘ اس لیے اسے کراچی کی تعمیر اور ترقی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ 
2013ء میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آئی ۔ اس کی وجہ( ن) لیگ کا پنجاب میں ووٹ بینک تھا ۔ اس نے کراچی کے معاملات سے اپنی عدم دلچسپی چھپانے کی کوئی کوشش نہ کی ۔ ویسے بھی اسے قومی انتخابات میں کامیابی کیلئے کراچی کی ضرورت نہیں تھی ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو صوبے میں تو کامیابی مل گئی لیکن وہ کراچی میں ہار گئی ؛ چنانچہ اس کا بھی یہاں سٹیک نہیں تھا ۔تو جب کراچی کا سرپرست ہی کوئی نہیں تھا تو یہ شہر بھتہ خوروں‘ قبضہ مافیا‘ بلڈنگ مافیا اور ٹینکر مافیا کی جنت بن گیا۔ ان سب کو میرٹ کے بغیر بھرتی ہونے والے افسران کی پشت پناہی حاصل تھی ۔ کے ڈی اے یا کے ایم سی سے لے کرہائوسنگ منسٹری تک‘ سب بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے تھے ۔ کوئی روک ٹوک نہ تھی‘ نہ کسی قانون کا ڈر تھا۔ اس کے نتیجے میں نالوں‘ آبی گزرگاہوں اور سیوریج پر تجاوزات تعمیر ہونے لگیں۔ کراچی سے نکاسی آب کے راستے سمٹنے لگے ۔ اس حقیقت سے پردہ اٹھانے کیلئے صرف ایک بھرپور مون سون کی ضرورت تھی ۔ 
یہ ایک حیرت انگیز شہر ہے ۔ سیاسی اور انتظامی بدنظمی کے باوجود یہ عشروں سے ملک کی معاشی شہ رگ تھا‘ اور اب بھی ہے ۔ اس شہر نے بدترین ٹارگٹ کلنگ‘ اغوا برائے تاوان‘ لوٹ مار‘ بھتہ خوری‘ ناانصافی ‘ جبر اور تشدد دیکھا ہے‘ اس کے باوجود اس کی پیداوار اور برآمدات پاکستان کے کسی بھی شہر سے زیادہ ہیں۔اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ نے گوبل لیو ایبل انڈکس 2019ء میں دوکروڑ سے زائد آبادی رکھنے والے اس شہر کو دنیا کے اُن دس شہروں میں شمار کیا تھا جو رہنے کے قابل نہیں ۔ اگر ان تمام مسائل کے باوجود کراچی ملکی خزانے کو 60 فیصد دیتا ہے تو اس سے اندازہ ہوجانا چاہیے کہ اگر یہاں حالات معمول کے مطابق ہوں تو یہ شہر کس قدر امکانات رکھتا ہے ۔ کراچی کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے تین اقدامات کی ضرورت ہے :
1۔ قدرتی دفاع بحال کرنا : کراچی میں برساتی پانی کی نکاسی کے نظام کے بغیر بھی کام چلتا تھا کیونکہ اس شہر میں بارشیں بہت کم ہوتی تھیں‘لیکن ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے عجیب و غریب واقعات پیش آنا شروع ہوگئے ہیں۔ ماضی میں سال میں چار یا پانچ بارشیں ہوتی تھیں لیکن اب ان کی تعداد پندرہ سے بیس تک پہنچ گئی ہے ۔ بارش سے آنے والے یک لخت تیز سیلاب کی روک تھام کیلئے بہت سے قدرتی ذرائع ہوتے ہیں‘ جیسا کہ مینگرو کے جنگلات اور دلدلی علاقے ۔ ماضی میں کراچی میں یہ دفاع موجود تھا لیکن زمین پر قبضہ کرنے کی دوڑ نے مینگرو کے جنگلات ختم کردیے ۔اب سمندر میں یا اس کی فضا میں آنے والی یک لخت تبدیلی کے راستے میں کوئی قدرتی حصار باقی نہیں رہا ۔ کراچی کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے ممکنہ خطرے سے بچانے کے لیے مینگروو کے جنگلات بحال کرنے پڑیں گے ۔ 
2۔ آئین اور قانون سازی : ''یہ ذمہ داری تمہاری ہے اس لیے میں کچھ نہیں کروں گا‘‘اس طرز ِعمل کو بدلنا ہو گا چاہے اس کے لیے آئینی ترمیم یا نئی قانون سازی کرنی پڑے۔ ذمہ داری کا تعین واضح ہونا چاہیے کہ اوپر سے نیچے تک کس کا کیا کردار ہے ۔ اٹھارہویں ترمیم کی آڑ لے کر ''تم اپنے کام سے کام رکھو‘‘ کی سوچ اب کام نہیں دے گی ۔ 
3۔ سول سوسائٹی یا شہریوں کی طرف سے احتساب کا دبائو : کووڈ کی طرح کراچی کی بارشوں نے بھی طبقاتی فرق مٹا دیا ۔ ان میں امیر بھی متاثر ہوئے اور غریب بھی ۔ وفاقی حکومت کے پیش کردہ ''کراچی ٹرانسفارمیشن پلان‘‘ کو صوبائی حکومت عملی شکل میں نافذ کرے گی ۔ ضروری ہے کہ اس پر کراچی سٹیزن واچ کمیٹی نظر رکھے تاکہ یہ منصوبے معیار کے مطابق اور وقت پر مکمل ہوں۔ 
ہر مصیبت کوئی نہ کوئی موقع بھی اپنے ساتھ لاتی ہے ۔ کراچی کے لیے اس بربادی میں امکانات کی کھڑکی کھلی ہے ۔ ضروری ہے کہ وفاقی‘ صوبائی اور مقامی سطح پر تمام کوششوں کو مربوط کیا جائے ۔ تعمیر اور ترقی کی حمایت کی جائے لیکن ایک دوسرے پر نظر بھی رکھی جائے ۔ بعض اوقات قسمت دروازے پر دستک اُس وقت دیتی ہے جب دروازہ ٹوٹ کر گرچکا ہوتا ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں