بحران میں مثالیت پسندی کی اہمیت

قومیں اپنے مفادات مقدم رکھتی ہیں‘ چاہے اس کیلئے کتنی ہی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑے ۔ ممالک ‘ ان کے رہنما اور عوام زیادہ سے زیادہ قومی اور ذاتی مفادات کیلئے سرگرم عمل رہتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے ممکن ہے کہ وہ اس بات کا خیال نہ رکھیں کہ ان کا فائدہ دوسروں کیلئے نقصان کا باعث بھی ہوسکتا ہے ۔ مفادات کا یہ کھیل قوموں اور رہنمائوں کو بناتا بھی ہے اور بگاڑتا بھی ہے۔ قومی کردارپر بہت سے دانشوراپنی رائے رکھتے ہیں۔ سیاست کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ کسی نظریے پر مبنی ہوتی ہے‘ لیکن صر ف تقاریر کی حد تک ہی ایسا دکھائی دیتا ہے ‘ عملی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مشکل حالات میں قوم کا بہترین کردار سامنے آتا ہے ‘ اگر اقوام عالم کو کسی سنگین ترین بحران نے گھیرا ہے تو وہ یہی ہے ‘ کہ چند ہفتوں کے اندر اندر دنیا دوزانو ہوگئی ۔ معیشتیں‘ پالیسیاں‘ کاروبار اور سروسز خشک پتوں کی طرح بکھر گئے ۔ ہر کوئی اپنے بچائو کی فکر کرنے لگا۔ بچائو کی اس دوڑ میں مثالیت پسندی دھول بن کر اُڑ گئی اور بہت سوں کا خیال ہے کہ ایسا ہی ہونا تھا ۔ مشکل کے وقت سچ ظاہر ہوجاتا ہے۔ دنیا بہت بڑی آزمائش سے گزری ہے۔ کئی عشروں کی بے ہنگم ترقی کا الجھائو ہرگام پر دکھائی دیتا ہے۔ اس کی وجہ سے عدم توازن انتہائی نقطے تک پہنچ چکاہے ۔ بظاہر ٹیکنالوجی‘ سائنس اور جدید زندگی کے پاس تمام سوالوں کا جواب ہے‘ لیکن وائرس کے سامنے وہ سب بے بس دکھائی دیے ۔ دنیا کے بہترین دماغ کئی ماہ سے اس کا حل نکالنے کی کوشش میں ہیں لیکن ابھی اس عقدہ کو حل کرنے میں ناکام ہیں۔ 
فطرت مہربان سہی ‘ لیکن یہ بھی پلٹ کر وار کرتی ہے ۔ ماحولیات کی بے پناہ تباہی کے نتیجے میں گرین ہائوس گیسز میں اضافہ ہوا ہے‘ اوزون کی تہہ میں شگاف پڑ گئے ہیں؛ ماحولیاتی عدم توازن کے نتیجے میں بارشیں‘ آگ اور وائرس قابو سے باہر ہوچکے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ کنٹرول حاصل کرنے کے جنون نے ممالک کو طاقت حاصل کرنے کی راہ دکھائی ہے ۔ حالات بے قابو ہوتے دیکھ کر بہت سے ممالک اور رہنمااپنے اہداف پر نظر ثانی پر مجبور ہوچکے ہیں۔تبدیل شدہ اہداف اُن کے اور ان کے ملک کے مستقبل کا تعین کریں گے ۔ حقیقت پسندی کی تھیوری کی بنیاد دوسروں کو کنٹرول کرنے اور ذاتی مفاد حاصل کرنے کی انسانی فطرت پر ہے ۔ دوسری تھیوری لبرل ازم ہے ‘ جو اخلاقی فلسفے‘ آزادی اور قانون کے سامنے سب کی برابری پر مبنی ہے ۔ یہ مطلق العنانی اور فردِ ِواحد کے اختیار کے خلاف بغاوت تھی۔ انقلاب ِفرانس کے بعد لبرل ازم کی تھیوری مقبول ہوئی ‘ آج کل اس کا رواج ہے ۔ کم وبیش ہر ملک میں کوئی نہ کوئی رہنما یا تجزیہ کار لبرل ہونے کا دعویدار ہے ۔ حقیقت پسندی اور لبرل ازم کے درمیان فرق کنٹرول اور آزادی کے ٹکرائو کا ہے ۔ اگر ہم اپنے گرد وپیش پر نگاہ ڈالیں تو انتہائی ترقی یافتہ جمہوریتوں میں بھی طاقت کا کھیل ہر دوسری جہت پرغالب ہے ۔اس پس ِ منظر میں کووڈ وائرس کا بے قابو ہونا اُن رہنمائوں اور ممالک کیلئے ایک حقیقی چیلنج ثابت ہوا جن کا خیال تھا کہ ہر چیز اُن کے کنٹرول میں ہے ۔ اس حوالے سے امریکا اور برطانیہ واضح مثالیں ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کوئی وائرس ایسا بھی ہوسکتا ہے جو اُن کی سپرپاور کو بے اثر کردے ۔ انکار‘ تردید اور مزاحمت کے کھیل نے لاکھوں انسانوں کی صحت دائو پر لگادی‘ ہزاروں جانیں لے لیں اور روزگار اور معیشت کو بے پناہ نقصان پہنچایا ۔ اس کاری ضرب نے طاقت ور ترین افراد کو بھی اپنے افعال اور طرزِعمل پر نظر ثانی پر مجبور کردیا ‘ تاہم انسان کی بے چین طبیعت اکثر اسے فطری قوانین کے خلاف آمادہ ٔ جنگ رکھتی ہے ۔ 
خود کو بچانے کی جدوجہد کرنے والے ممالک جہاں سے بھی مدد ملے حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں‘ چاہے اس کیلئے اُنہیں اپنے اصولوں اور نظریات سے گریز ہی کیوں نہ کرنا پڑے ۔ امریکا ہمیشہ طاقت ور ممالک کے ساتھ چاہتا ہے جو اس کے مفادات کے لیے کام کرسکیں۔ چین کو مشترکہ دشمن مان کر امریکا اور بھارت ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں۔ اسرائیل اپنے اتحادیوں کی مدد سے اپنے قیام کا جواز منوانے کی کوشش میں تھا‘اس دوران مسلمان ممالک کی کورونا زدہ معیشت نے اسے دبائو بڑھانے کا موقع فراہم کردیا ۔ سفارتی دبائو کا نتیجہ یہ نکلا کی یواے ای نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ۔ دیگر ممالک پر بھی ایسا کرنے کے لیے سفارتی دبائو ڈالاجارہا ہے ۔ تاہم تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جو ممالک عارضی فائدے کی بجائے دبائو برداشت کرگئے ‘ وہ دنیا کے رہنما ثابت ہوئے ؛ چنانچہ ضروری ہے کہ پاکستان عالمی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے اپنی خارجہ پالیسی کو ان راہوں پر گامزن رکھے:
1۔ اصولوں پر کھڑے رہنا : پاکستان نے کورونا سے نمٹنے میں بہت سے ترقی یافتہ اور وسائل رکھنے والے ممالک سے کہیں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ اس کی معیشت تو کورونا سے پہلے بھی دبائو کا شکار تھی ۔ بہت سوں کا خیال تھا کہ وائرس کے دبائو کے سامنے بکھر جائے گی ‘ لیکن اس نے توقع سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ دبائو کے اس دور میں جب ممالک مدد اور تعاون کے لیے ادھر اُدھر ہاتھ پائوں ماررہے ہیں‘ پاکستان بھی تبدیل ہوتے ہوئے حقائق کے دبائو میں تھا ‘ ملک میں ایک لابی کہہ رہی تھی کہ پاکستان کو بھی اپنا مفاد دیکھتے ہوئے بہتر معاشی نمو رکھنے والے الائنس میں شامل ہوجانا چاہیے ۔ قومی مفادات کا خیال رکھنا ضروری ہے ‘ تاہم ہر قیمت پر مفادات کا حصول عارضی کامیابی ثابت ہوتا ہے ۔ پاکستان وہ واحد ملک تھا جس نے کورونا کے دوران ایران پر امریکی پابندیوں کے خلاف آواز بلند کی۔ پاکستان کشمیریوں کے حقوق کے لیے مسلسل کوشش کررہا ہے اور پاکستان نے دیگر اسلامی ممالک کے برعکس اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ۔ 
2۔ معیشت کو توانا کرنا : دنیا میں معاشی طاقت بہت بڑی حقیقت ہے ۔ بھارت‘ امریکا اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ معیشت کیلئے ہے۔پاکستان بھی اپنی فیصلہ سازی کی بدولت معاشی خود انحصاری حاصل کرلے گا۔ ایک طرف چین‘ دوسری طرف وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ معاشی بلاک کو مزید توانا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قومی اور علاقائی اثر ورسوخ حاصل کیا جاسکے ۔ 
3۔ میڈیا اور سفارتی کاری: سوشل میڈیا کے بے پناہ پھیلائو کی وجہ سے اب عالمی میڈیا تک رسائی آسان ہوچکی ہے ۔ جو کچھ کشمیر اور فلسطین میں ہورہا ہے ‘ اسے اُن ممالک کے ساتھ مل کر اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جو پاکستان کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں۔ اس کے لیے ممالک کے درمیان قریبی روابط قائم کرنے اور میڈیا تک رسائی کو ظلم ‘ جبر اور انصافی کے خلاف مشترکہ طور پر استعمال کرنے کی ضرورت ہے ۔ 
عالمی نظام میں تاریخی تبدیلی برپا ہونے جارہی ہے ۔ مورخین گہری دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں کہ اس عالمی بھونچال سے کون بہتر نمٹتا ہے اور کون بکھر جاتا ہے ۔ شمالی اور جنوبی امریکا کے ممالک اپنی قیادت کے فیصلوں کے نتائج بھگت رہے ہیں۔ اُنہوں نے وقتی فائدے کیلئے کھائی میں قدم رکھ دیا ۔ وہ ایسی قیادت کی طرف دیکھ رہے ہیں جس نے اپنا مؤقف بدلنے اور تبدیل ہوتے ہوئے حقائق کے ساتھ خود کو ڈھالنے سے انکار کردیا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تبدیلی ایک چوائس ہے یا یہ مسلط کی جانی ہے ؟ نومبر میں ہونے والا امریکی انتخاب ایک دلچسپ معرکہ ہوگا۔ کائناتی اصول تبدیل نہیں ہوتے ‘ لیکن گہرے بحران کی گھڑی میں اُن پر کاربند رہنا آسان نہیں ‘ لیکن پھر یہی مواقع ہوتے ہیں جب افراد اور اقوام گھٹنوں کے بل گر جاتی ہیں یا پوری استقامت سے کھڑی رہتی ہیں۔ حقیقت پسندی سے منہ موڑنا آسان نہیں لیکن نظریاتی ڈھال کے بغیر انسانی ممکنات کی سکت ادھوری رہتی ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں