نقاب اُتر رہا ہے

اشتہار ہٹا لیا گیا۔ اس کی مذمت کی گئی ‘ اس کا سماجی بائیکاٹ کیا گیا۔اس اشتہار کی وجہ سے اشتعال پھیلا اور یہ منظر عام پر آنے کے ایک دن کے اندر ہی ہٹالیا گیا۔ ہم رنگ و نسل کا امتیاز اجاگر کرنے والے کسی اشتہار کی بات نہیں کررہے ‘ تنقیدکا نشانہ رنگ گورا کرنے والی کریم کا نسلی امتیازپر مبنی کوئی شاٹ نہیں تھا‘ہم اُس اشتہار کی بات کررہے ہیں جو اتحاد‘ برداشت اور سماجی تکثیریت دکھارہا تھا۔ Tanishq‘ بھارت میں زیوارت کا ایک مقبول برانڈ وہ اشتہار ہٹانے پر مجبور ہوگیا جس میں بین المذاہب شادی کرنے والا جوڑا حاملہ ماں کیلئے بے بی شاو ر کا جشن منارہا تھا۔ اشتہار ہٹانے کا معاملہ مشرق کے کسی دورافتادہ اور دقیانوس معاشرے میںنہیں بلکہ بھارت کے نام نہاد ترقی پسند‘ روشن خیال سیکولر معاشرے میں پیش آیا ۔ گزشتہ چند برسوں سے دنیا نے بھارت کا اصل چہر دیکھ لیا ہے ۔ کچھ بی جے پی حکومت کو مورد ِالزام ٹھہراتے ہیں‘ کچھ عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے ہتھکنڈوں کی بات کرتے ہیں ‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے سماج پر چڑھا ہوا روشن خیالی کا نقاب اتر رہا ہے اور اندر سے نسلی ‘ مذہبی اور سماجی بالادستی کابھیانک چہر ہ برآمد ہورہاہے ۔ بھارت کا یہ چہرہ دنیا کیلئے شاید نیا ہولیکن اس کے نمایاں خدوخال کسی نہ کسی شکل میں وہاں دکھائی دیتے رہے ہیں۔کشمیر میںجو کچھ ہوا ‘ اس نے دنیا کو چونکا دیا ‘ لیکن یہی کچھ تو بھارت میں نچلی ذات قرار دیے جانے والوںکے ساتھ صدیوں سے ہورہا ہے۔درحقیقت بھارت میں روزِ اوّل سے سماجی امتیاز کی لکیر موجود ہے ۔ پیدائشی طور پر سماجی لکیر کو قسمت سمجھ کر قبول کیا جاتا ہے ۔ آپ جس ذات میں پیدا ہوں‘ وہ آپ کو زندگی میں آگے بڑھنے میں مدد کرتی ہے ‘ یا اس کے برعکس ‘ رکاوٹ بنتی ہے ۔ پیدائشی طور پر برہمن ارفع جبکہ دلت نیچ سمجھتے جاتے ہیں۔
سماجی تقسیم کے باوجود بھارت نے ایک ملک کے طور پر اپنا بھر م قائم رکھا ہوا تھا جو اپنی دقیانوس روایات سے گریز کرتے ہوئے ایک ترقی پسند قوم کے طور پر ابھر رہا تھا۔ 80ء اور 90ء کی دہائیوں میں بھارت کو ایک ایسے ملک کے طور پر دیکھا گیاجوبہت کامیابی سے کھلا معاشرہ رکھنے والا ملک بنتا جارہاتھا۔ بھارت کو رجعت پسند اور دقیانوسی ملک کی بجائے ترقی پسند اور روشن خیال ملک بنانے کیلئے حکومتی سطح پر اصلاحات کی گئیں۔ 1990ء کی دہائی کے اختتام کے قریب بھارت نے اپنی مارکیٹ کو آزاد اور متحرک کیا‘ جس نے اسے ایشیا کی بڑی معاشی قوت میں ڈھالنا شروع کیا ۔
جب قومیں اپنا تشخص اجاگر کرنا چاہتی ہیں تو وہ خود کو عالمی سطح پر دستیاب مختلف پلیٹ فارمزکے ذریعے نمایاں کرتی ہیں۔ امریکا کے عالمی طاقت کہلانے کی وجہ صرف اس کی صنعتی ترقی ہی نہیں ‘اس میں ہالی ووڈ کی فلموں کا بھی بڑا عمل دخل ہے ۔ ان فلموں میں پیش کیے گئے امریکا کے چکاچوند چہرے نے پوری دنیا کو سحرزدہ کردیا ۔ فلموں میں اسے گلیمر‘ مہم جوئی اور بہترین زندگی کے مواقع فراہم کرنے والے ملک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ اسی طرح بھارت نے بھی خود کو بالی ووڈ کے ذریعے نمایاںکیا ۔ چمک دمک‘ تفریح اور بہت بڑی مارکیٹ نے عالمی سرمایہ کاروںکو اس طرف آنے کی ترغیب دی اورتمام بڑی کمپنیاں جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی مارکیٹ سے استفادہ کرنے آگئیں۔
بھارت کی ماہر مارکیٹنگ مشین نے اپنی خامیوںپر بہت مہارت سے پردہ ڈالے رکھا۔ کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم کو کشمیریوں کی مزاحمت سے جوڑا گیا ۔ کئی سالوں تک انہوںنے لابنگ کی‘ تشہیر کی اور کشمیر اور بھارت میں ہونے والے ہر حملے کا الزام پاکستان پر لگایا گیا ۔ جس دوران پاکستان خودہشت گردی کے زخم سہہ رہا تھا‘ بھارت کو چین کے مساوی ایک ابھرتی ہوئی طاقت تسلیم کیا جارہاتھا۔ سیاسی طور پر امریکا کو چین کے مقابلے میں ایشیا میں ایک قوت کی ضرورت تھی ۔ اس نے انڈیا کا بیانیہ اپنا کر پاکستان کو خطے میں فسادپھیلانے والی ریاست کے طور پر پیش کرنا شروع کردیا لیکن گزشتہ چند برسوںسے بھارت کے چہرے سے نقاب اترگیا ہے ۔ شائننگ انڈیا کی اصلیت کھلتی جارہی ہے ۔ انڈیا مندرجہ ذیل تین جہتوں سے بے نقاب ہوا ہے ۔
1۔ بھارت دہشت گردی کا شکار نہیں بلکہ اس کا سرپرست : نائن الیون کے بعد بھارت نے پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دلانے کی سرتوڑ کوشش کی۔ اس نے یہ ثابت کرنے کیلئے جارحانہ پالیسی پر کام کیا کہ بھارت اور افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے والے گروہوں کے ٹھکانے پاکستان میں ہیں۔امریکا میں بہت ماہر اور بااثرلابیوں اور تھنک ٹینکس کے ذریعے یہ بیانیہ گھڑا اور پھیلایا گیا ۔ دوسری طرف پاکستان کے پاس بر س ہا برس تک اس حملے کا تدارک کرنے کی کوئی حکمت ِعملی نہیں تھی ۔ امریکا ہمیشہ بھارت کے بیانیے کو تقویت دیتے ہوئے پاکستان کا بازو مروڑ کر اس سے ''ڈومور‘‘ کا مطالبہ کرتاتھا۔ گزشتہ دو برسوں سے پاکستان نے منہ توڑ جواب دیتے ہوئے مودی اوراس کی انتہا پسند جماعت‘ آر ایس ایس کو ہٹلر کے نازی فلسفے کا پیروکار بتایا۔ اس نے دنیا کے کان کھڑے کردیے ۔ اس کے ساتھ ہی بھارتی بیانیے کی لہر اترنا شروع ہوگئی۔
2۔ روشن نہیں‘ تاریک انڈیا: وزیر ِاعظم مودی نے جب اقلیتوں ‘ خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے والی ہندوتوا مہم کا پرچار کیا تو ''ناقابل ِیقین انڈیا‘‘ پر شکوک و شبہات کے سائے گہرے ہونے لگے ۔ کشمیر پر بھارت کے ناجائز اقدامات نے پاکستان کو عالمی سطح پر بھارتی عزائم بے نقاب کرنے کا موقع فراہم کردیا اور پہلی مرتبہ غیر ملکی میڈیا نے بھارت کا تاریک پہلو اجاگر کیا ۔ فارن پالیسی میگزین میں آٹھ اکتوبر 2020 ء کو شائع ہونے والا ایک مضمون ''انڈین اور وسط ایشیائی باشندے داعش کا نیا چہرہ‘‘ واضح طور پر بھارت کے چہرے سے ترقی پسندی کا نقاب اتار پھینکتاہے ۔ اس مضمون کے مطابق وسطی ایشیائی باشندوں اور بھارتیوں کے دیگر اقوام پر حملے داعش سے وابستہ نئی عسکریت پسندی ہے ۔ 2019ء میں ایسٹر پر سری لنکا میں حملے ‘ 2017ء میں نئے سال کی شام ترکی میں نائٹ کلب پر کیے گئے حملے یا 2017ء میں نیویارک اور سٹاک ہوم میں ٹرک حملوں کے پیچھے یہی روابط تھے۔
3۔ ترقی پسند نہیں ‘ انتہا پسند: جس دوران پاکستان کو انتہا پسند ریاست کے طور پر پیش کیا گیا ‘ بھارت کوجدید روشن خیال ریاست سمجھا جاتاتھا لیکن یہ تاثر زائل ہوچکا ۔ دی اکانومسٹ نے حال ہی میں ٹویٹ کیا کہ کس طرح بھارتی وزیر اعظم اور اُن کی جماعت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔1980ء کی دہائی میں رام مندر کی تحریک سے توانائی حاصل کرکے بی جے پی ابھری تھی ۔دی اکانومسٹ کہتا ہے کہ مودی اور بی جے پی مذہبی اور قومی عصبیت سے سیاسی فائدہ اٹھارہے ہیں۔ ا س سے بھارت میں مسلکی اور نسلی امتیاز کی گہری دراڑ کا پتہ چلتا ہے ۔ بھارت کی معاشی طاقت اور چکا چوند مارکیٹ نے بہت دیر تک ان بدنما داغوں کو چھپائے رکھا۔ بھارتی بہت سکون سے حقائق کی جھٹلاتے یہ سمجھتے رہے کہ دنیا کو ہمیشہ دھوکہ دے سکتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ہالی ووڈ کی مقبول فلم ''Slumdog Millionaire‘‘ کو بھارتیوں اور بالی ووڈ کے فلم ستاروں نے مسترد کردیاتھا کیوں یہ فلم ممبئی کی کچی بستیوں پر پڑا پردہ الٹتی ہے ۔ہر قوم پر اپنے محاسبے کا وقت آتا ہے ۔ بھارت کی معیشت کو کوویڈ 19نے شدید زک پہنچائی ۔ اس میں گراوٹ کا رجحان نمایاں ہے ۔کشمیریوں اور بھارت میں بسنے والی دیگر اقلیتوں کو کچلنے کے جنون نے بھارتی معیشت کا بھی کباڑا کردیا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ گراوٹ کہیں رک جائے گی یا بہت دور تک جائے گی ؟ اس کے جواب کا دارومدار اس پر ہے کہ کیا وہ سیکو لر ازم کی اقدار کو اپناتے ہیں یا ہندوتوا کا جنون سر پر سوار رکھتے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں