یک طرفہ آزادی؟

آزادی کا بیانیہ زبان زدِعام ہے ۔ آزادی ایک پناہ گاہ ‘ بلکہ تمام حدود پار کرنے کا جواز بن چکی۔ درحقیقت آزادی نے آزادی کو خطرے میں ڈال دیا ہے ۔ انسان آزاد پیدا ہو ا‘ درست ‘ لیکن انسان کو آزاد اس لیے پیدا کیا گیا تاکہ وہ اپنی راہوں کا انتخاب کرسکے ۔ انسان کو آزادی اس لیے دی گئی تاکہ وہ اپنی مرضی سے کیے گئے فیصلوں کے نتائج کا خود ذمے دار ہو ۔ تاریخ انسان کی آزادی کے لیے جدوجہد سے لبریز ہے ۔ دوسری اقوام پر کنٹرول حاصل کرنے کیلئے انسان نے جنگیں کی ہیں‘ غیر ملکی قبضے سے آزادی حاصل کرنے کے لیے آج بھی جدوجہد جاری ہے ۔ آزادیوں کے درمیان عدم توازن باہمی روابط پر اثر اندا ز ہوتا ہے ۔ زیادہ جابر اقوام اور سخت گیر والدین بغاوت اور سرکشی کو دعوت دیتے ہیں۔ 
دنیا بھر میں اختیار‘ اجارہ اور آزادی کا غلط استعمال بڑھنے سے عدم مساوات بڑھ رہی ہے ۔عد م مساوات کے نتیجے میں عدم توازن پیدا ہوتا ہے جو غصے‘ تصادم اور انتقام میں ڈھل کر خوں ریزی کا باعث بنتا ہے ۔ آزادی کی عموماً تشریح ایک ایسی سیاسی جدوجہد کے طور پر کی جاتی ہے جواقوام مختلف درجوں پر کرتی ہیں۔ برطانوی سلطنت نے جنوبی ایشیا پر تسلط جما لیا تو اس کے خلاف جدوجہد غیرملکی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کیلئے تھی ۔ بعد میں بیسویں صدی کے وسط میں جدوجہد کا ارتکاز امریکی بالادستی کے خلاف رہا ۔ عراق اور افغانستان میں لڑی گئی امریکی جنگیں جبر اور رد ِعمل کی علامت بن گئیں۔ 
جس دوران اقوام اپنی سرزمینوں پر آزادی سے جینے کیلئے جدوجہد کررہی تھیں‘ ترقی یافتہ اقوام نے اپنے بہتر تعلیمی نظام‘ تحقیق اور پراپیگنڈے کی مہارت سے شخصی آزادی کی تشریحات ارزاں کرنا شروع کردیں۔ امریکی آئین میں شامل یہ آزادیاں انسانی حقوق کا تعین کرتی ہیں۔امریکی آئین کی دس شقیں اظہار‘ اجتماع اور تنظیم سازی کے حقوق کی ضمانت دیتی ہیں۔ بہت سی دیگر ترامیم ان آزادیوں کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ان کا دائرہ کار طے کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر پہلی ترمیم بچوں کو تحفظ دیتی ہے ۔ والدین کے برے سلوک یا اُ ن کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی صورت میں بچے والدین کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرسکتے ہیں۔ مشرق میں یہ حرکت بدتہذیبی ‘ گستاخی او ر نافرمانی کے زمرے میں آئے گی ۔ 
یہ وہ وسیع آزادیاں اور ان کی تشریحات ہیں جو ثقافتی اختلاف رکھنے والے ملک کیلئے تنازعات کا باعث بنتی ہیں۔ یہ مسئلہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب ایک گروہ کی طرف سے کی گئی آزادی کی تعریف اس کی حتمی تشریح سمجھی جاتی ہے ۔ فرانس نے مذہبی آزادی کے خبط میں بہت سی غلطیوں کا ارتکاب کرڈا لا‘مگر توہین آمیز خاکوں کا معاملہ انتہائی افسوس ناک اور خطرناک ہے ۔فرانسیسی میگزین نے انتہائی اشتعال انگیز ‘توہین آمیز اور مذموم جسارت کی ہے ۔ توہین آمیز خاکے شائع کرکے اس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل شکنی کی اور اُنہیں مشتعل کر دیا ہے۔ 2011ء میں ڈنمارک کے ایک میگزین نے ایسی ہی مذموم جسارت کی تو اس کے دفتر پرآتشیں بم حملے کیے گئے ‘ جبکہ 2013 ء میں جس فرانسیسی جریدے نے یہی حرکت کی تھی دوسال بعد‘ 2015ء میں پیرس میں مسلح افراد نے اس کے دفتر پر حملہ کرکے بارہ افراد کو ہلاک کردیا۔ حالیہ دنوں کلاس میں توہین آمیز خاکے دکھانے والے فرانسیسی ٹیچر کا سر قلم کرنے کا واقعہ بھی اسی ردعمل کا نتیجہ تھا جو دوسروں کے عقائد کی توہین کرنے اور ان پر اپنے نظریات مسلط کرنے کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں ردعمل درعمل کا سلسلہ چل نکلتا ہے ۔ کلاس میں لیکچر دینے والے ٹیچر نے آزادی ِاظہار کو جواز بنا کر اپنی آزادی کو دوسروں پر مسلط کرنے کی مذموم کوشش کی ۔ اسے ہلاک کردیا گیا۔ پھر حملہ آور کوبھی مار دیا گیا ۔ اس ردعمل کے نتیجے میں مزید واقعات پیش آنے کا امکان بھی ہے۔ اس کی وجہ تین امور کو سمجھنے اور قبول کرنے میں ناکامی ہے :
1۔ آزادی سب کے لیے: انتہا پسند صرف خود کو آزاد سمجھتے ہیں اور دوسروں کو اپنے آزادی کے تصور کی پیروی کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس طرح جب کوئی شخص اپنا اصول ‘ لباس یا اقدار دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ'' انتہا پسند‘‘ کی تعریف پر پورا اترے گا۔مگر دنیا کا دہرا مزاج ملاحظہ کریں کہ کئی ممالک میں موجود انفرادی گروہوں کی تخریبی کارروائی کے نتیجے میں مسلمانوں پر شدت پسندی کا الزام لگایا جاتا ہے جبکہ مسیحی یا ہندو انتہاپسندگروہوں کی کارروائیوں کو آزادیٔ اظہار کی آڑ دی جاتی ہے ۔شخصی آزادی کا اگر یہ مطلب ہے کہ اگر کوئی مختصر لباس پہننا چاہے تو دوسروں کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے تو اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ اگر کوئی اپنے جسم کو ڈھانپنا چاہے تو وہ بھی اس کی مرضی ہے اور دوسروں کو اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے ۔ فرانس نے مسلمانوں کے اس بنیادی حق کی خلاف ورزی کی جس سے کشمکش اور تشدد نے سراٹھایا ۔ ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ فرانسیسی حکومت کی طرف سے 2003 ء میں خواتین کے سر ڈھانپنے اور 2010 ء میں چہرے کے نقاب پر پابندی سے مسلمان کمیونٹی اور دیگر فرانسیسی آبادی کے درمیان تنائو بڑھا ہے۔ 
2۔ احترام دوطرفہ ہوتا ہے : احترام سب کا‘ چاہے وہ جوبھی ہو‘ یہی جینے اور تکثیریت کا بنیادی اصول ہے ۔احترام کی بنیادی شرط دوسروں کے مؤقف کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہے ۔ جب صورت ِحال کی تفہیم رکھتے ہیں تو آپ میں برداشت پیدا ہوتی ہے ۔ جب آپ کا برداشت کا لیول بڑے گا تو آپ دوسروں کے نکتہ ٔ نظر کو قبول کرنے کا حوصلہ رکھیں گے ۔ مغرب محسوس کرتا ہے کہ اگر وہ اپنی مذہبی شخصیات کا مذاق اُڑاسکتے ہیں تو وہ کسی اور کی مذہبی شخصیات کے ساتھ ایسا کرنے کا بھی حق رکھتے ہیں‘ تاہم اُنہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سب مقدس ہستیوں کا احترام لازم ہے ۔اس معاملے میں اپنی غلط تاویل دوسروں پر مسلط کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا۔ 
3۔ تنوع اور یکسانیت : اگر تنوع کا مطلب اختلافات کو برداشت کرنا ہے تو پھر رنگ اور نسل کے ساتھ ساتھ مذہبی اختلافات کو برداشت کرنا بھی اسی دائرے میں آتا ہے ۔ تنوع کا مطلب صرف برداشت ہی نہیں مختلف ثقافتوں اور مذاہب کو کھلے دل سے قبول کرنا بھی ہے ۔تفہیم کا فقدان تعصب کا باعث بنتا ہے ۔ میکرون کی طر ف سے تشدد کو اسلام کے ساتھ جوڑنے سے اس کی ناسمجھی اور بنیادپرستی کااظہار ہوتا ہے ۔ وہ بھی ٹرمپ کے سفید فام اقوام کی بالا دستی کے راستے پر چل نکلا ہے ‘ یہی روش نریندر مودی کی ہے ۔مگر اس راہ پر چلنے کے نتائج کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔ کالم کی اشاعت تک صدر ٹرمپ انتخابات میں شکست کھا چکے ہوں گے جبکہ مودی کو بھارت میں منہ زور وبا اور بدحال معیشت کا سامنا ہے ۔ 
اس تصویر کے دوسری طرف نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈ ا آرڈن ہیں ۔ مسجد میں پچاس افراد کو قتل کیا گیا تو اُنہوں نے فقید المثال انسانی ہمدردی اور حساسیت کا مظاہرہ کیا ۔ حملے میں ملوث شخص کو دہشت گرد قرار دے کر سزا دی گئی ۔ جب وہ مسلمان خاندانوں سے ملنے گئیں تو اُنہوں نے مسلم روایات کے مطابق سر ڈھانپا ہوا تھا ۔ وہ اُن کے ساتھ نمازِ جمعہ کے اجتماع میں بھی شریک ہوئیں۔ تو اس میں جائے حیرت نہیں کہ نیوزی لینڈ وہ پہلا ملک تھا جس نے اس وبا پر قابو پایا ۔ اُنہیں حالیہ انتخابات میں ایک مرتبہ پھر بھاری کامیابی ملی ہے ۔ رہنما وہ ہے جو صدرمیکرون کی طرح حالات کے مطابق کو نہیں ڈھال لیتا ‘ بلکہ وہ حالات سے بلند ہو کر جسینڈا آرڈن کی طرح قوم کی راہ نمائی کرتا ہے۔ یہ راہ اپنانا مشکل ضرورہے لیکن پھرحالات بدل جاتے ہیں لیکن ثابت قدم رہنماہی باقی رہتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں