خطرناک ہوتی مایوسی

صورت ِحال ایسی ہے کہ کچھ نہ کرنے کا مطلب مرنا ہوگا ۔ یہ بھی غلط نہیں کہ اگر کروگے تو مروگے ۔ کورونا وائرس کے بعد پاکستان میں ٹرمپ وائرس بھی پہنچ چکا ہے۔ کورونا سے انہیں کوئی پریشانی نہیں‘ وہ وائرس سے زیادہ حکومت سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔'' ریلیوں سے تووائرس پھیلتا ہی نہیں‘‘ انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے اسی دانائی کے جوہرپارے ارزاں کیے تھے ۔ اپنی حالیہ تحریک کے لیے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے پاس بھی یہی دلیل ہے۔ اُنہوں نے تمام حفاظتی تدابیر کو ہوا میں اُڑاتے ہوئے پاکستان میں بہت سی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے ۔ جہاں تک ٹرمپ کا معاملہ ہے تو وہ بہرحال انتخابات کا موقع تھا۔ انتخابی عمل اور نتائج انتہائی اہمیت کے حامل تھے ۔ یہاں پی ڈی ایم کے سامنے ایسی کوئی ناگہانی صورت نہیں ۔ تو پھر یہ سب ہنگامہ آرائی کیا ہے ؟
پاکستان نے غیر معمولی طور پر کوروناوائرس کی پہلی لہر کاکامیابی سے مقابلہ کیا تھا ۔عالمی ادارۂ صحت سے لے کر ورلڈ اکنامک فورم تک سب نے پاکستان کی تدبیر کو سراہا ۔ یہ اتنی بڑی کامیابی تھی کہ عالمی ادارۂ صحت نے پاکستان کا شمار اُن سات ممالک میں کیا تھا جنہوں نے دنیا کے لیے لائق ِ تقلید مثال قائم کی تھی‘ جبکہ ورلڈ اکنامک فورم نے جانیں اور روزگار بچانے کے لیے پاکستان کی مثالی حکمت ِعملی کو خراج ِ تحسین پیش کرنے کے لیے ایک دن مختص کیا تھا ۔اگردنیا پاکستان کی کامیابی کا اعتراف کررہی ہے تو حزب ِا ختلاف حکومت کی ساکھ متاثرکرنے پرکیوں تلی ہوئی ہے؟ اس کی بظاہر یہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ اپوزیشن ہے اور اپوزیشن کا کام ہی حکومت کی مخالفت کرنا ہوتا ہے ۔ لیکن مخالفت برائے مخالفت کی دلیل بھی اس جان لیوامہم جوئی کے لیے کافی نہیں ۔ پی ڈی ایم کے پاس اس خطرناک ماحول میں جلسے کرنے کی تین وجوہ ہوسکتی ہیں:
1۔ عوامی مفاد : پی ڈی ایم کا دعویٰ ہے کہ وہ عوامی حقوق کے لیے جلسے کررہے ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی کمر توڑ دی ہے ۔ بادی النظر میں یہ ایک معقول وجہ ہے ۔ اکتوبر اور نومبر میں اشیائے خور ونوش کی قیمتوں میں یقینا بہت زیادہ اضافہ ہوا ۔ مارکیٹ میں آٹے او ر چینی کی قلت دکھائی دی ۔ سبزیوں کی قیمتیں بھی بلند رہیں۔ تاہم گزشتہ دوہفتوں کے دوران مہنگائی اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی کا رجحان نمایاں ہے ۔ چینی اور گندم کی درآمد سے قیمتوں میں کمی آچکی ہے ۔ پٹرول اور بجلی پر امدادی قیمت نے برآمدات اور درمیانے درجے کے چھوٹے کاروباری اداروں کی پیداواری سرگرمیوں پر بوجھ کم کردیا ہے۔میکرو اکنامک کے اعدادوشمار میں بہتری آرہی ہے ‘ مائیکرو اکنامک کے اعدادوشمار بھی حوصلہ افزا ہیں ۔ اس لیے پی ڈی ایم جانتی ہے کہ ان کے پاس عوامی مسائل پر طوفان کھڑا کرنے کے لیے صرف چندہفتے رہ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مہنگائی کم ہونے سے پہلے پہلے وہ زیادہ سے زیادہ سیاسی درجہ حرارت بڑھانا چاہتے ہیں۔ 
2۔ ذاتی مفاد: پی ڈی ایم میں شامل گیارہ جماعتوں میں ہر کسی کا اس تحریک سے ذاتی مفاد جڑا ہواہے ۔ تینوں بڑی جماعتوں‘ پاکستان مسلم لیگ (ن)‘ پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام( ف) کی قیادت پر بدعنوانی کے الزامات ہیں۔ یہ بہت پرانے مقدمات ہیں ‘ لیکن سپریم کورٹ نے نیب کو ان مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کا حکم دیا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ مستقبل میں ان میں سے کچھ کی گرفتاری ہوسکتی ہے ۔ جس دوران کورونا کی وجہ سے قومی اسمبلی کے اجلاس معطل ہیں‘ ان کے پاس حکومت اور اداروں پر دبائو ڈالنے کے لیے جلسے‘جلوس اورجارحانہ تقاریر ہی باقی رہ گئی ہیں۔ اس وقت دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت کو بھی انسداد ِبدعنوانی کے ادارے نے گرفتار کرنا شروع کردیا ہے ۔ اگر وہ ریلیف حاصل کرنے کے لیے حکومت اور اداروں پر دبائو ڈال کر انہیں پچھلے قدموں پر جانے پر مجبور نہیں کردیتے تو اُن کے زندگیاں اور مال و دولت خطرے میں پڑ جائیں گئے ۔ جس مافیا کے لیے ان کی بدعنوانی بہتی گنگاتھی‘ وہ بھی ان کے خلاف کارروائی میں اپنا نقصان دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان تمام عناصر کے لیے یہ تحریک خود کو بچانے کی آخری کوشش ہے ۔ 
سیاسی مفاد: پی ڈی ایم کا باہمی اتحاد بہت کمزور ہے ۔ ان سب کے پاس ان جلسوں کا مقصد مختلف ہے ۔ جے یو آئی ایف حکومت کا خاتمہ چاہتی ہے چاہے اس کے لیے اسمبلیوں سے استعفوں کا آپشن کیوں نہ اختیار کرنا پڑے ۔پیپلز پارٹی سندھ میں حکومت میں ہے ‘وہ استعفوں پر متفق نہیں ۔ مسلم لیگ (ن) اداروں کو نشانہ بنائے ہوئے ہے ۔ اسے امید ہے کہ مقتدرہ مخالف جذبات جلسوں کی صورت ڈھل کر ان کے بازو توانا کریں گے اور اس دوران بیرونی ہاتھ بھی ان کی حمایت کرے گا۔پی ڈی ایم اُس وقت تک متحد رہے گی جب تک اس میں شامل تینوں بڑی جماعتیں اس ایجنڈے میں مساوی کردار ادا کرتی ہیں۔ جب یہ تحریک دھرنے کی صورت اختیار کرے گی تو ان کی حمایت کے غبارے سے ہوا نکلنا شروع ہوجائے گی ۔ اس کی نوبت آنے سے پہلے ان کے لیے ضروری ہوچکا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ افراتفری پھیلادیں تاکہ اپنے ذاتی اور سیاسی مفاد کے لیے کوئی ڈیل کرسکیں۔ان کا مشترک بیانیہ ہے کہ 2018ء کے انتخابات چرا ئے گئے تھے ‘ مگر اس بیانیے کی گونج ماند پڑچکی کیوں کہ اس شور وغل کو عوام کی پذیرائی نہ مل سکی۔ حقیقت یہ ہے کہ 2018 ء میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پاس دھاندلی کی شکایات 2013 ء سے پچاس فیصد کم تھیں۔ دی گئی درخواستوں کے ساتھ ناکافی ثبوت پیش کیے گئے جن کی وجہ سے انہیں درخور اعتنا نہ سمجھا گیا ۔ اس کے علاوہ یورپی یونین اور فافین کی انتخابات کا جائزہ لینے والی ٹیموں نے بھی واضح طور پرنشاندہی کی کہ کچھ بے ضابطگیوں کے علاوہ 2018 ء کے انتخابات انتظامی طور پر 2013 ء کی نسبت کہیں بہتر تھے ۔ فافین کی رپورٹ کے مطابق 2018 ء کے انتخابات میں 2013 ء کی نسبت 62 فیصد کم بے ضابطگیاں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کے پاس چند ایک ہفتے ہیں کہ وہ جوکرسکتی ہے کرلے۔ا س کے بعد وہ سیاسی طورپر بے دم ہوجائے گی۔
دوسری طرح حکومت نے دانائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اُنہیں ملتان جلسے تک فری ہینڈ دیے رکھا ۔ کہنا پڑے گا کہ ملتان جلسے پر حکومتی ردِعمل غیر ضروری ہی نہیں غیر دانش مندانہ بھی تھا۔ اس نے پی ڈی ایم کو نئی زندگی دے دی ۔ ضروری ہے کہ حکومت یہ غلطی لاہور میں نہ دہرائے ۔ مینار ِپاکستان بہت وسیع میدان ہے ۔ گیارہ جماعتوں کو اسے بھرنے یا بھرا ہوا دکھائی دینے کے لیے غیر معمولی کوشش کرنا پڑے گی ۔ زیادہ تر انحصار جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مدرسوں کے طالب علموں پر ہوگا۔ فضل الرحمن نے پہلے ہی واضح کردیا ہے کہ وہ لاٹھیوں سے لڑائی ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ وہ لڑائی جس کے نتیجے میں خونریزی ہوگی۔ سیاسی تصادم اُن کے ایجنڈے کو تقویت دے گا جو سیاسی میز پر طاقتور پتوں کے ساتھ بیٹھنا چاہتے ہیں۔ 
جس دوران ہم نئے سال کی طرف بڑھ رہے ہیں‘ اعصاب کی جنگ میں شدت آتی جارہی ہے ۔ حز ب ِ مخالف اپنے تمام اثاثے اس میں جھونک دے گی ۔ضروری ہے کہ حکومت جذباتی ہوئے بغیر اپنے قدموں پر کھڑی رہے اور اس موقع کو گزر جانے دے ۔ کورونا کے تیزی سے پھیلائو کا خطرہ بڑھ رہا ہے ۔ حکومت بے ہنگم ہجوم کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔ دوسری طرف پی ڈی ایم کے ہاتھوں سے وقت نکلا جارہا ہے ۔یہ افراتفری برپا نہ کرنا برداشت نہیں کرسکتی ۔ دیکھنا ہے کہ اس سیاسی شطرنج پر کس کے مہرے پہلے ختم ہوتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں