مغرب پر طاری ہُوکا عالم

لند ن سے لے کر نیویارک تک کرسمس اور نئے سال کے مواقع تکلیف دہ حد تک ویرانی‘ خاموشی اور اداسی کی لپیٹ میں رہے۔ عام حالات میں یہ دو مواقع ایسے ہوتے ہیں جب اس کرۂ ارض کی سب سے بڑی تقریبات منائی جاتی ہیں ۔ کرسمس پر تعطیلات ہوتی ہیں‘ لوگ گھروں کی راہ لیتے ہیں‘ خریداری کی جاتی ہے ‘ کھانے پینے کی محفلیں سجتی ہیں‘ سڑکوں پر رنگ اور روشنیوں کا سماں ہوتا ہے ‘ لوگ رعایتی قیمتوںکی وجہ سے بے پناہ خریداری کرتے ہیں ‘ کھانے پینے کی جگہوں پر خصوصی رش ہوتا ہے ‘ گلیوں میں لوگ خوشی سے ناچ اور گا رہے ہوتے ہیں۔ جوش کا عالم دیدنی ہوتا ہے ۔ سال بھر اس تہوار کی تیاری کی جاتی ہے ۔ سفر ‘ خریداری‘ خرچ اور طعام کا اہتمام اور منصوبہ بندی ہوتی ہے لیکن اس مرتبہ ان شہروں اور قصبوں میں ہُو کا عالم تھا۔ دکانیں اور عوامی مقامات بند تھے حتیٰ کہ گھروں پر تقریبات بھی بہت محدود تھیں۔نئے وائرس کے خوف کی وجہ سے حکومتوںنے لوگوں کو گھروں پر تنہائی میں رہنے کی ہدایت کی تھی ۔ 
گزشتہ سال کے اختتام سے پہلے ویکسین کی دستیابی کی وجہ سے توقع تھی کہ 2020 ء کے اختتام پر امید کی صبح طلوع ہوچکی ہوگی۔ اس کی بجائے برطانیہ اور امریکا میں افراتفری اور ابہام کی فضا گہری رہی ۔ بورس جانسن اور ٹرمپ صورتحال کی سنگینی بھانپنے میں ناکام رہے ۔برطانیہ میںوباکا پھیلائو پہلے درجے سے چوتھے درجے میں داخل ہوگیا۔ پہلے درجے میں لاک ڈائون میںنرمی تھی‘ چوتھے درجے میں انتہائی سخت لاک ڈائون کرنا پڑا۔ دسمبر میں زیادہ تر علاقوں میں ایک سے دوسرے درجے کا لاک ڈائون تھا جبکہ مرکزی شہر‘ لندن میں دوسرے درجے کا لاک ڈائون تھا۔ جب وبا کے پھیلائو میں اضافہ ہونے لگاتویہ تیسرے درجے میں داخل ہوگیا۔ اس کے بعد مختصر وقفے کے لیے وبا کا پھیلائو کم ہوگیا تو لاک ڈائون بھی نرم کردیا گیا ‘ لیکن کرسمس کے قریب لندن میں متاثر ہ افراد کی تعداد میں یک لخت اضافہ ہونے لگا تو تیسرے درجے کا لاک ڈائون کرنا پڑا۔ اس کے بعد مکمل ملکی سطح پر چوتھے درجے کا لاک ڈائون لگادیاگیا ۔ غلط پالیسی اور وبا سے نمٹنے کے ناقص انتظامات کی یہ ایک مثال ہے ۔ 
دوسری طرف امریکا میں نیا سال نئے تشدد سے شروع ہوا۔ کیپٹل ہل پر احتجاجی ہجوم کی یلغار کے مناظر ناقابل ِ یقین دکھائی دیتے تھے ۔ مشتعل امریکیوں نے پارلیمنٹ کی عمارت پر حملہ کردیا‘ کھڑکیاں توڑ دیں اور فرنیچر کو نقصان پہنچایا۔ کانگرس کی دیواروں پر سپائیڈر مین کی طرح چڑھ کر اراکین ِ کانگرس پر حملوں کو عقل تسلیم نہیں کررہی تھی۔ان پر فلمی مناظر کا گماں ہوتا تھا۔ لیکن نہیں‘ وہ واقعات حقیقی تھے ۔ نیشنل گارڈز کو کنٹرول سنبھال کر کرفیو نافذ کرنا پڑا۔لیبیا یا یمن میں تو ایسے مناظر کی سمجھ آتی ہے ‘ لیکن یہ واشنگٹن ڈی سی میں نئے سال کا ناخوشگوار آغاز تھا ۔ کئی عشروںسے مغرب ترقی کا ماڈل رہا ہے ۔ جمہوریت ‘ تہذیب‘ قانون کی حکمرانی‘ احتساب اور انسانی حقوق امریکا اور برطانوی سماج کا لازمی حصہ مانے جاتے تھے ۔ شمالی امریکا اور مغربی یورپ میں دولت کی تقسیم اور امن کے خدوخال نمایاں تھے ۔ ہر کسی کے پاس اپنی صلاحیتوںسے بھرپور استفادہ کرنے کا موقع تھا ۔ برطانیہ کثیر ثقافتی ترقی کا مرکز تھا تو امریکا میں ہر کسی کو دولت کمانے کے مواقع میسر تھے۔ خوشحالی اور صحت ظاہر کرنے والے توانا اشاریے اُن کی دنیا پر حکمرانی کی سند تھے ۔ دنیا کی تمام اہم ایجادات اور اختراعات انہی سرزمینوںکی طرف سے آئی تھیں۔ اُنہیں پہلی دنیا جبکہ ایشیاکو تیسری دنیا کہا جاتا تھا۔
جیسا کہ کہا جاتا ہے ‘ قوموں کی اچھائی یا برائی کا پتہ بحران میں ہی چلتا ہے ۔ کورونا کے غیر معمولی بحران نے مغرب کی انفرادی اور مجموعی تہذیب کوبے نقاب کردیا ۔ ہمیں ایسے حیرت انگیز مناظر دیکھنے کو ملے جو شاید ہی کسی نے دیکھے تھے۔ اس منفرد تاریخی ردعمل کی وجہ بننے والے کچھ عوامل یہ ہیں:
1۔ خوشحالی کانشہ: دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ نے فیصلہ کیا کہ آئندہ وہ آپس میں نہیں لڑیں گے ۔ یورپی یونین کی صورت اکٹھے ہوگئے ۔ امریکا نے فیصلہ کیا کہ مشرق ِوسطیٰ کو تقسیم کرکے اپنی دفاعی صنعت کو فروغ دیا جائے گااور پیٹروڈالر کمائے جائیں گے۔دولت اور خوش حالی کی معیشت ریکارڈ بلندی پر پہنچ گئی ۔ دوطرفہ تجارتی فائدہ پہنچانے کی بجائے گلوبلائزیشن کی آڑ میں اُنہوںنے ایشیا سے سستے ذرائع حاصل کیے اور اپنے ممالک میں سرمایہ کاری اور کنزیومرازم کو فروغ دیا ۔ لیکن جب چین دولت پر اجارہ داری کو چیلنج کرنے لگا تو امریکا کو کنزیومر مارکیٹ کی خامیوں کا احساس ہونا شروع ہوگیا ۔ کورونا نے عدم مساوات کو دوچند کردیا جس سے کریڈٹ پر گزارہ کرنے والے معاشرے میں بے چینی پھیل گئی ۔ مغربی معاشروں میں ملازمتوں اور خوراک کی کمیابی کا کبھی نام تک سننے میں نہیں آیاتھا۔ اس تنائو نے بہت سوں کی اصلیت ظاہر کردی ۔'' بلیک لائف میٹر تحریک‘‘ اور اس کے بعد کیپٹل ہل میں خوفناک تشدد کو ئی افسانہ نہیں۔ 
2۔ خوداحتیاطی: کورونا نے مغرب اور ایشیائی ممالک کی ثقافتی اصلیت کو ظاہر کردیا ۔ایشیائی ممالک کوروناسے بہتر انداز میں نمٹنے میں کامیاب رہے ۔ اس کی ایک وجہ کنٹرول اور آزاد ی میں فرق تھا ۔ ڈسپلن نافذ کرنے کی ایک مثال چین تھالیکن جنوبی کوریا‘ سنگاپور اور جاپان جیسے ممالک نے بھی کورونا پر بہتر قابوپایا ۔ سارس کا تجربہ بھی تھا لیکن ماسک پہننے اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے جیسے ایس او پیز پرعمل اہم عوامل تھے ۔ دوسری طرف یورپ اور امریکا میں شہری پابندیوںکی عادت نہیں۔ لفظ ''آزادی‘‘ کی فہم یا غلط فہمی لوگوں کو گھروں پر رہنے یا ماسک پہننے کی پابندی کی خلاف ورزی پر اکساتی رہی ۔ آزاد مارکیٹ میں آزادی کی چکائی جانے والی ایک قیمت یہ بھی ہے ۔ لوگوں کو سٹوروں سے بڑی مقدار میں اشیائے خورو نوش‘ روٹی اور ٹشوپیپرز خریدتے دیکھنا بھی کنزیومر ازم کا ایک منفی اظہار تھا۔ 
3۔ قوت ِمدافعت کی کمی : ویکسین کے پیچھے بنیادی تھیوری یہ ہے کہ بیماری کے کمزور وائرس کو جسم میں داخل کردیا جاتاہے ۔ جسم اس سے مقابلہ کرنے لیے اینٹی باڈیز تیار کرلیتاہے ۔ جب بیماری کے طاقتور وائرس حملہ آور ہوتے ہیں تو جسم اُن سے مقابلہ کرنے کے لیے تیارہوتا ہے ۔ وبا کے پہلے اور دوسرے حملے میں برطانیہ‘ فرانس‘ اٹلی اور امریکا جیسے ممالک وائرس کے انتہائی حملے کا نشانہ کیوں بنے ؟ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اُن کے جسم ایسے وائرسز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہ تھے ۔ اُن میں ایسی قوتِ مدافعت ہی نہیں تھی ۔ دنیا کے ترقی پذیر ممالک ‘ جیسا کہ پاکستان نے اس سے نمٹنے میں بہتر کارکردگی دکھائی ۔ سمارٹ لاک ڈائون جیسی اچھی حکمت عملی کے علاوہ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پرموجودہے کہ ہمیں اپنی روز مرہ کی زندگی میں ایسے وائرس کے حملوں کا سامنا رہتا ہے اس لیے ہمارا جسم ان سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوتاہے ۔ اس کی ایک عام مثال دیکھنے میں آتی ہے کہ جب مغربی باشندے پاکستانی کھانے کھاتے ہیں تو اُن کے پیٹ خراب ہوجاتے ہیں۔ 
حرف ِآخر یہ ہے کہ بحران لوگوں اور رہنمائوں کے اصل کردار کو سامنے لاتا ہے۔ دنیا میں وائرس سے سب سے زیادہ متاثر وہ ممالک ( امریکا اور بھارت) ہوئے جن کے رہنما اپنی قوم کو نسلی اور مذہبی تعصب کی بنیاد پر تقسیم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔اس سے زیادہ افسوسناک بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ امریکی حکومت اب باقی رہ جانے والے پندرہ دنوں کے لیے ٹرمپ کو ہٹا کر نائب صدر مائیک پنس کو اقتدار سونپنے کا سوچ رہی ہے ۔ 1500 دنوں کے بعد امریکیوں کو پتہ چلا کہ ٹرمپ کورونا وائرس سے بھی بڑاخطرہ ہے ۔ اگرچہ کہا جاتا ہے کہ ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا‘ لیکن 1500 دنوں میں بہت کچھ بگڑ چکا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں