ٹرمپ کا ٹوئٹر اور ہنگامہ خیز دور

ہونی ہو کررہی۔ ٹرمپ کا آخری دم تک لڑنے کا نعرہ محض لفاظی نہ تھا۔ دنیا کے زیادہ تر لوگوں کے لیے ہجوم کا پارلیمنٹ پر حملہ جنوبی ایشیا یا لاطینی امریکا کا منظر ہوسکتا ہے۔ کچھ کا خیال تھا کہ یہ محض کوئی فرضی خاکہ ہے۔ دیگر نے اسے مزاحیہ ڈرامہ قرار دیا۔ لیکن نہیں۔ یہ مناظر حقیقی تھے ۔ خود کودنیا کاعظیم ترین ملک قرار دینے والے امریکا میں پیش آنے والا واقعہ۔ ہر قیمت پر عظمت حاصل کرنے کا اندھا جنون جو قومی عقل کو مائوف کردے ۔ ایک مظاہرہ کہ کس طرح ہر قیمت پر جیتنے کی دھن آپ کو اخلاقی دیوالیہ پن کی اتھاہ گہرائیوں میں پھینک سکتی ہے ۔ اور آخر میں‘ دیکھنے میں آیا کہ کس طرح آزاد اور وسیع پیمانے پر ابلاغ سہولت کی بجائے ایک مصیبت بھی بن سکتا ہے ۔ 
چاہے یہ ٹرمپ کے دور کا آخری ہنگامہ تھا یا اس قبیل کے بہت ممکنہ واقعات کا پیش خیمہ ۔ یہ ایک قابل ِ بحث بات ہے۔لیکن اس میں دو رائے نہیں کہ ہجوم کوئی جنونی اقلیت نہیں تھا ۔ مشتعل افراد ملک کی مرکزی آبادی کی نمائندگی کررہے تھے ۔حملے کے بعد کے جذبات پر YouGovپول کے مطابق کم و بیش نصف ریپبلکن ووٹر اور مجموعی طور پر بیس فیصد امریکی انتہاپسند بن چکے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس واقعے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا ۔ پارلیمنٹ کی عمارت پر حملے اور توڑ پھوڑ کو افراد کے اس یقین کے طور پر دیکھا گیا کہ صرف وہی دنیا کے حکمران ہیں اور اگر کوئی قوانین اُن کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں تو وہ اُنہیں کچل کر رکھ دیں گے۔یہ سوچ جمہوریت کی نفی ہے ۔ جمہوریت کے لبادے میں مطلق العنانی اورملوکیت کی یاد دلاتی ہے ۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ افراد ایک عالمی طاقت کے شہری ہیں ۔ 
2016 ء میں ہر چیز کرگزرنے کے باوجود ٹرمپ فاتح ٹھہرے۔اُنہیں میڈیا کی حمایت حاصل نہیں تھی ۔ اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ اُن کی اپنی جماعت کے سینئر ارکان اُن کے حق میں نہیں تھے لیکن ٹرمپ نے عام امریکیوں کی جبلت کی ترجمانی کی۔ یہ جبلت آرام دہ اور آسودہ زندگی کا تقاضا کرتی ہے ۔ اُن کی آمدنی اور خرچ دنیامیں کسی سے بھی زیادہ ہے ۔ ٹرمپ نے امریکا کو دوبارہ 'عظیم‘ بنانے کا نعرہ لگایا ۔ اس نے ملازمتوں اورعیش و عشرت کی زندگی کے متلاشی امریکیوں کی سوچ کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ 2009 ء کے مالیاتی بحران ‘ آمدنی میں کٹوتی اور ملازمتوں کی کمیابی امریکیوں کے لیے پریشان کن تھی ۔ ٹرمپ نے اُن کی جنگوں کی مخالفت بھی شروع کردی جن میں امریکی فوجیوں کی جانیں ضائع ہورہی تھیں۔ امریکا آنے والے تارکین ِوطن کے بارے میں سوچ پیدا کی کہ وہ امریکی وسائل کا ایک بڑا حصہ لے جاتے ہیں۔ 2016ء کے انتخابات میں یہ جذباتی شعلہ فیصلہ کن ثابت ہوا ۔ان کے چار سالہ دور میں نسل پرستی کے عروج نے دنیا کو ششدر کردیا۔ یہ جذبات اُن کے حامیوں کے دل کی آواز تھے ۔ اگر کوویڈ 19نہ آتا شاید وہ دوبارہ منتخب ہوجاتے ۔ ٹرمپ کے دور سے سیکھنے کے تین اسباق ہیں :
1۔ معلومات راہ نمائی بھی کرتی ہیں اورگمراہ بھی : ٹرمپ نے الیکٹرانک میڈیا کی جگہ سوشل میڈیا کے استعمال کو عروج پر پہنچا دیا ۔ جب دیکھا کہ سی این این اور پریس اُن کا خلاف ہے توا مریکیوں ‘ بلکہ دنیا بھر سے مخاطب ہونے کے لیے ٹوئٹراستعمال کیا۔ ٹرمپ نے کھل کر اعتراف کیا کہ سوشل میڈیا 2016 ء کا انتخابی معرکہ جیتنے میں معاون ثابت ہواتھا ۔ اُن کا کہنا تھا‘ ''درحقیقت میں فیس بک‘ ٹوئٹر‘ انسٹاگرام وغیرہ کے ذریعے طاقت رکھتا ہوں‘‘۔انتخابات جیتنے کے بعد اُن کا کہنا تھا‘ ''میرا خیال ہے کہ اس نے مجھے انتخابی دوڑ میں سبقت لے جانے میں مدد کی ہے ۔ دوسری طرف میرے حریف مجھ سے زیادہ رقم خرچ کررہے ہیں‘‘۔اُنہیں انتہائی حساس پالیسیاں ٹوئٹر پر بیان کرتے دیکھ کر بہت سے لوگ حیران رہ گئے ‘ لیکن ٹرمپ نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا ۔ اُنہوں نے اپنی حمایت کے مرکز کی توجہ حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کیا۔ یہ لوگ ملازمتوں سے محروم سفید فام دیہاتی علاقوں میں رہنے والے امریکی ہیں ۔ انہوں نے کوویڈ 19 پر ٹرمپ کی پھیلائی ہوئی تھیوری پر یقین کر لیا کہ یہ چینی سازش ہے ۔وائرس سے انکار کی وجہ سے امریکی ہیلتھ کیئرسسٹم پڑنے والے دبائو کا مقابلہ نہ کرسکااور وبا سے متاثر اور ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید اس وقت اُن کی دوسری مدت شروع ہورہی ہوتی۔
2۔ ذہنی سوچ اقدار کی نمائندگی کرتی ہے: ٹرمپ کو خود پر اور اپنی صلاحیت پر یقین تھا کہ وہ جو چاہیں حاصل کرسکتے ہیں ۔ صحیح یا غلط‘ اس ضمن میں وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے ۔ اُن کی 2016ء میں ناقابل یقین کامیابی نے اُنہیں اپنی صلاحیتوں پر مزید نازاں کردیا ۔قوانین‘ طریق ِکار اور اقدار کا لحاظ کیے بغیر اُنہوں نے دیواروں کی تعمیر ‘ ممالک پر پابندیاں‘ لوگوں کو امریکا سے نکالنے کی پالیسی بنا لی۔ٹرمپ کا خیال تھا کہ وہ ناقابلِ تسخیر ہیں ۔ اُن کے دور میں نسل پرستی کو فروغ ملا ۔ نفرت بھری تقاریر ایک معمول بن گئیں۔ فلائیڈ جارج کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا۔ اس سے شروع ہونے والی ''بلیک لائف میٹرز‘‘ تحریک اُن کے لیے خطرے کی گھنٹی ثابت ہونی چاہیے تھی لیکن اُنہوں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی ۔ کوویڈ سے متاثر ہونے کے بعد اُن کی خودسری میں قدرے کمی آنی چاہیے تھی ‘ لیکن ٹرمپ پر وائرس کا اثر اس کے برعکس ہوا۔ اُنہیں زعم ہوگیا کہ وہ بیماری کو شکست اور موت کو چکما دے سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات میں شکست اُن کے لیے ناقابل ِیقین تھی ۔ ابراہام لنکن کی جمہوری اقدار‘ شخصی وقار اور قانون کی حکمرانی پر ناز کرنے والی ریپبلکن پارٹی کے لیے یہ خود احتسابی کا لمحہ ہونا چاہیے ۔ ٹرمپ نے نسلی امتیاز‘ نفرت اور گروہی تقسیم کو بڑھایا ۔ یہ روش آزادی کی اقدار کے منافی ہے ۔ 
3۔ قیادت کی جگہ خالی ہے : اس وقت دنیا قیادت کے بحران سے دوچارہے ۔ عالمی قائدین کے لیے موقع ہے کہ وہ اپنی ذات سے بلند ہوکر اس خلا کو پورا کریں ۔ کورونا بحران نے خود غرض قیادت کا کھوکھلا پن عیاں کردیا ۔ ٹرمپ‘ بورس جانسن‘ مودی اور بولسونارو (Bolsonaro) جیسے حکمرانوں کی بے بصری اور تنگ نظری کو خوف اور تشویش کی نظروں سے دیکھا جارہا ہے ۔ دنیا کو لنکن اور منڈیلاکے قد کاٹھ کے رہنمائوں کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ وہ لیڈر جو امن‘ اتحاد‘ مساوات اور ہمدردی کو فروغ دے سکیں ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بحران کے عالم میں غیر متوقع مقامات اور پس ِ منظر سے قیادت ابھرکر سامنے آتی ہے ۔ کیا پتہ ایک ''کم عظیم ملک‘‘ سے عظیم عالمی قیادت ابھر آئے جو قیادت کے بحران کو پورا کرسکے ۔ 
ممالک اور کمپنیوں کے لیے اگلا عشرہ 2021 ء سے لے کر 2030 ء تک‘ بہت کٹھن ہوگا۔ بہت سی کمپنیوں نے ''ٹرمپئن اقدار‘‘ کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ٹوئٹر اور فیس بک نے ٹرمپ کے بیانات پر پابندی لگادی۔ کئی ایک کاروبار ٹرمپ کی کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے سے انکاری ہیں ۔جس دوران یہ سب کچھ قابلِ قدر دکھائی دیتا ہے ‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ٹرمپ کا چار سال پہلے ایسا ہی رویہ تھا تو یہ سب لوگ کہاں تھے؟ دوسرا سوال یہ کہ اگر ٹرمپ صدر منتخب ہو جاتے تو کیا ان کمپنیوں کا طرزِ عمل پھر بھی یہی ہوتا؟ دنیا کے شہریوں کے لیے یہ قابلِ غور سوالات ہیں ۔ 
اگلا عشرہ چیلنجز کے ساتھ ساتھ مواقع بھی پیش کرتا ہے ۔ کم ترقی یافتہ ممالک کے لیے آگے بڑھنے ‘ چھوٹے کھلاڑیوں کے لیے بڑے کھلاڑیوں کو چیلنج کرنے ‘ بے نوا افراد کو آواز بلند کرنے اورسماجی معاملات کو گفتگو کی دنیا سے نکل کر عمل کی مرکزی دنیا میں داخل ہونے کے مواقع ابھر رہے ہیں۔ گزشتہ عشرے کو گم شدہ عشرہ قرار دیا جاتا ہے ۔ امید کی جانی چاہیے کہ اگلا نئی دریافت اور نشاۃ ثانیہ کا عشرہ ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں