گوسوامی گیٹ

ایک غیر محتاط لمحہ‘ ایک لاابالی بیان ‘ شاید تحریر کی غلطی ‘ جلد بازی میں اٹھایا گیا قدم ‘ یا ممکن ہے کہ قبل از وقت جوش کی وارفتگی ‘جو مرضی نام دے لیں‘ گوسوامی کے انکشافات بارودی سرنگ کا دھماکہ ثابت ہوئے ہیں ۔ نقب زنی ‘راز کی چوری یا ہیکنگ ‘جو مرضی کہہ لیں‘اس نے انڈیا کو زبردست زَک پہنچائی ہے ۔ بھارتی میڈیاکو ارنب گوسوامی کے واٹس ایپ مواد نے ہیجان میں مبتلا کردیا ہے لیکن اُن کی توجہ کا مرکز سکیورٹی سازش سے زیادہ دیگر امورہیں ‘ دوسری طرف پاکستانی میڈیا اسے بھارت کے بے نقاب ہونے کی خبر کے طور پر چلا رہا ہے ‘ خیر اسے بھارتی میڈیا جیسی خبر اچھالنے کی مشق اور مہارت حاصل نہیں ۔ کیا اسے بغاوت پر آمادہ اینکر کی پیشہ ورانہ ضابطہ اخلاق کی پامالی کہہ کر بھلا دیا جائے گا یا یہ بھارت کے بہت سے دیگر مذموم عزائم کے بے نقاب ہونے کی طرف پہلا قدم ہوگا؟ اس وقت یہی سوال سب سے اہم ہے جسے پوچھنے اور جواب کا تقاضا کرنے کی ضرورت ہے ۔
بھارتی جعلی خبریں گھڑنے کے فن میں استاد ہیں۔ ڈس انفو لیب کے انکشافات نے بیس سال سے چلنے والے نیٹ ورکس کے الجھے اور پیچیدہ جال کوبے نقاب کردیا۔ یہ نیٹ ورکس برس ہا برس سے وہ خبریں اچھا ل رہے تھے جسے بھارتی حکومت بیانیہ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کررہی تھی ۔ نیٹ ورک نے نہایت چال بازی سے اعلیٰ درجے کی عالمی ساکھ رکھنے والے نام‘ جیسا کہ ہاورڈ‘ یورپی یونین اور اقوام ِ متحدہ کی تصدیق استعمال کی ۔ ہاورڈ کے جس پروفیسر نے پاکستان کے بارے میں تحقیقات کرتے ہوئے اشتعال انگیز باتیں کیں‘وہ درحقیقت فوت ہوچکا تھا ‘ لیکن دنیا نے اس بات کونوٹ نہ کیا ۔ کس کے پاس وقت ہے کہ وہ تہہ در تہہ فریب کاری کی دنیا کو کھنگالے اور اس دھوکا دہی کو بے نقاب کرے جس کے لیے پر کشش امریکی تھنک ٹینک اور عالمی سند رکھنے والی این جی اوز اور اداروں کے نام استعمال کیے گئے ہوں؟
مودی کے انڈیا نے روایتی سکیولرازم کو چھوڑ کر اکثریت کے فلسفے کو مسلط کردیاہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ خطے میں جس کی اکثریت ہوگی‘ اسی کے مذہب‘ نسل اور ثقافت کو بالا دستی حاصل ہوگی اور اس بالا دستی کے سامنے اقلیتیں بے حیثیت اور غیر اہم ہوجائیں گی ۔ ہندوتوا نظریہ یہی ہے ۔ یہ نظریہ افراد کی ذہنیت ‘ پالیسی سازی اور بھارتی ریاست کے رویے پر غالب ہے ۔ بھارت میں رہنے والے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف نفرت اورتشدد موجودہ بھارتی حکومت کے دور میں اپنے عروج پرہے ۔ بھارت کا حقیقی چہرہ چھپانا اب مشکل ہوتا جارہاہے ۔ اس پر پڑے ہوئے نقاب کو نہ صرف پاکستان بلکہ یورپی ادارے ‘ برطانوی پارلیمنٹ اور امریکہ بھی نوچ کر اتار رہے ہیں ۔ ''نیا انڈیا ‘‘ہو یا ''پرانا‘‘ نقاب کے بغیر یہ سہ جہتی فساد پیدا کرتا ہے :
1۔ ایک دیوہیکل ریاست: ایک سابق سفارت کار نے بجاطور پر کہا تھا کہ بھارت ایک بڑا ملک ہے ‘عظیم ملک نہیں ۔ اسے بڑا حجم رکھنے کے فائدے حاصل ہیں ‘لیکن عظیم نہ ہونے کا نقصان بھی ہے ۔ بھارت ہمیشہ اپنے ہمسایوں سے تنازعات میں الجھا رہا ہے ۔ اگرچہ اصل ہدف پاکستان ہے‘ لیکن چین ‘ نیپال ‘بھوٹان اور حالیہ دنوں بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات بھی کشیدہ ہیں۔ اس کی افغانستان کے ساتھ رغبت پاکستان سے نفرت کی بنیاد پر ہے ۔
سفارشات: ایک بڑا ملک ہونے کے ناتے بھارت چین کا حریف بننے کی وجہ سے امریکا کے لیے پرکشش اتحادی ہے ‘ تاہم چین بہت بڑاملک‘ اور پاکستان کا اتحادی ہے ۔ پاکستان کو افغانستان‘ بنگلہ دیش‘ نیپال اوربھوٹان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔ پاک چین اقتصادی راہداری اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے ذریعے پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک کو ساتھ ملا کر اُس فائدے کا مقابلہ کرسکتا ہے جو بھارت کو بڑا حجم ہونے کی وجہ سے حاصل ہے ۔ تجارت اور مشترکہ سرمایہ کاری کا پلیٹ فارم رکھنے والا پاکستان تمام ہمسایہ ممالک کے لیے خود کو ایک سہولت کار کے طور پر پیش کرسکتا ہے ۔ یہ چیز دیگر ممالک کو بھارت کی رعونت اور خودسری سے بچا سکتی ہے ۔
2۔ نفرت کا سوداگر: 759 ویب سائٹس کے نیٹ ورک کا گھڑا ہوا بھارت کا روایتی بیانیہ بہت ہوشیاری سے ان دونوں ممالک کی کہانی کا تانا بانا بنتا ہے ۔ ایک کو جدید ترقی پسند ریاست کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تو دوسری کو انتہاپسند دہشت گردی کی آماجگاہ دکھایا جاتا ہے ۔ یہ صرف گزشتہ دوبرسوں سے ہوا جب وزیر ِاعظم عمران خان نے مودی اور ہٹلر کے درمیان مماثلت کو اجاگر کرنا شروع کیا تو دنیا کو بھارت کے اصل چہرے کی کھوج میں دلچسپی پیدا ہوئی ۔
سفارشات: پاکستان کو روس اور یورپی یونین کے ساتھ مل کر بھارت کیخلاف مشترکہ حکمت ِعملی تیار کرنی چاہیے کیوں کہ بھارت نے یورپی یونین کے پلیٹ فارمز کا غلط استعمال کرتے ہوئے اُنہیں بدنام کیا ۔ ڈس انفولیب کی سامنے آنے والی رپورٹ یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کی شناخت کے غلط استعمال کا ثبوت ہے کہ اس طرح ان کا نام استعمال کرتے ہوئے عالمی تائید حاصل کی گئی نیز ہاورڈ کے نام کو بھی بدنام کیا گیا ۔اس کے ایک پروفیسر سے ایسی تحقیق منسوب کی گئی جو اُنہوں نے کبھی کی ہی نہیں تھی ۔ تمام متاثرہ فریقوں کو مشترکہ قانونی چارہ جوئی کرتے ہوئے بھارت پر ہتکِ عزت اور دھوکہ دہی کا مقدمہ کرنا چاہیے ۔ ہوشیاری اور معاملہ فہمی سے کی گئی سفارتی کاوشوں کے ذریعے یورپی یونین کی راہداریوں تک رسائی حاصل کی جائے تاکہ پاکستان کی تنہا کوشش کی بجائے مشترکہ پلیٹ فارم سے شکایت پیش کی جائے ۔
3۔ میڈیا کی سرایت : مودی کے بیانیے کو بھارتی میڈیا نے تخلیق کیا اور اچھالا ۔ اس کی بنیاد پاکستان دشمنی پر تھی ۔ مودی نے شعلہ بیان اینکروں کو استعمال کرتے ہوئے جنونیت کی فضاقائم کی۔ بھارتی عوام کو باور کرایا گیا کہ پاکستان اُن کے ملک میں دہشت گردی پھیلاتا ہے ۔ٹاک شوز میں نفرت کا پرچار کیا گیا ۔ اس تمام من گھڑت بیانیے کا خلاصہ ارنب گوسوامی تھا۔ وہ سب سے بلند آہنگ تھا ۔ ہمہ وقت پاکستان کے خلاف میڈیا کے محاذ پر مورچہ بند رہتا تھا ۔ مودی کی 2019 ء کی انتخابی مہم کا مرکزی موضوع پاکستان سے نفرت تھا ۔ مودی نے ''چوکیدار‘‘ کاانتخابی نعرہ بلند کیا ۔ تاثر دیا کہ صرف وہی پاکستان کی طرف سے آنے والی دہشت گردی کو روک سکتا ہے ۔ پلوامہ کے واقعے نے اسے حقیقی رنگ دے دیا ۔ اس نے مودی کو بالاکوٹ حملے کا موقع فراہم کیا ۔ اگرچہ حملے کو ناکام بنادیا گیا لیکن بھارتی میڈیا میں ہیجان بپا کیا گیا کہ بھارت نے پاکستان کے اندر گھس کر ضرب لگائی ہے ۔اس جھوٹے آپریشن اورحملے کے تانے بانے ارنب گوسوامی نے بُنے تھے ۔ گوسوامی کا واٹس ایپ پیغام کہتا ہے کہ یہ ''ایک معمول کے حملے سے بہت بڑی کارروائی تھی اور کشمیر پر بھی اہم پیش رفت ہوئی ہے ۔ حکومت کو یقین ہے کہ پاکستان پر کیا گیا حملہ عوام کو خوش کردے گا ‘‘۔
سفارشات: ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ تلخ سچائی سامنے آنے پر بھارتی میڈیا کو سانپ سونگھ گیا ۔ پاکستانی میڈیا کو ان انکشافات کو اجاگر کرتے رہنا چاہیے ۔ عالمی ابلاغ کے فورمز کے سامنے ویڈیوز رکھنے چاہئیں جن میں بے جا الزام تراشی کا ثبوت ہو۔ برطانیہ میں میڈیا کے نگران ادارےOfcom نے پاکستان کے خلاف نفرت انگیز تقریر پر بھارت کی سرزنش کرنے کے علاوہ اسے جرمانہ بھی کیا ۔ سوشل میڈیا کی مربوط کوشش سے مودی کا ہٹلر اور گوئبل کا گوسوامی سے موازنہ مغربی سامعین کو فوری طور پر متوجہ کرے گا۔ گوسوامی نے ایک راستہ کھول دیا ہے ۔ ضروری کہ ہم اس سے فائدہ اٹھاتے ہوے اپنا پائوں آگے بڑھا کر مزید مواقع تلاش کریں ۔اس کے لیے سیاست‘ ابلاغ اور قانون کی مربوط حکمت ِعملی درکار ہے ۔ کئی عشروں بعد پہلی مرتبہ پاکستان تاریخ کی درست سمت پہ کھڑا دکھائی دیا ہے۔ دنیا پہلی مرتبہ دیکھ رہی ہے کہ پاکستان دراصل بھارتی نفرت کا شکار ہے ۔ پاکستان کو تاریخ میں پہلی مرتبہ احترام کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے ۔ اب اس کا دارومدار ریاست چلانے کی مہارت پر ہے کہ کس طرح اس واقعے کو تاریخ ساز موقع بنایا جاتا ہے یا پھر ایک اور موقع تاریخ کے اوراق میں گم ہوجاتا ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں