شاہی زندگی کی الجھنیں

کیا میڈیا میں مقبول عام ‘ سنسنی خیز ناٹک ''دی کرائون‘‘ تھا یا'' میرے پاس تم ہو،پارٹ ٹو‘‘یا ''برج سٹون‘‘؟ نہیں‘ یہ اوپر ا ونفری (Oprah Winfrey) کا میگھن مرکل اور پرنس ہیری کا انٹرویو تھا ۔ اس نے دھماکہ کردیا۔ 1995ء میں مارٹن بشیر کے لیڈی ڈیانا کے انٹرویو کے بعد سے شاید ہی شاہی خاندان کے بارے میں اتنا کچھ کہا یا لکھا گیا ہو جتنا اس بار۔ اس انٹرویو نے عالمی سطح پر غصے کی لہر دوڑا دی۔ الیکٹرانک میڈیامیں بھونچال آگیا ۔ سوشل میڈیا پر ہیجانی کیفیت طاری ہوگئی ۔ ایسا لگتا ہے کہ شاہی خاندان کی مشکلات وہ بیسٹ سیلنگ سکرپٹ ہے جسے پوری دنیا کے لوگ سننا اور پڑھنا چاہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ شوقیہ فوٹو گرافر اُن کی زندگی کے لمحات کی تصاویریا کہانی سامنے لاتے رہتے ہیں ۔ شاہی خاندان کی خبریں اپنی بے پناہ دلچسپی کی وجہ سے بہت بڑا بزنس بن چکی ہیں ۔ اپنی زندگی میں شہرت اور خوبصورتی اورپھر المناک موت کی وجہ سے لیڈی ڈیانا کے متعلق خبروں کا توجیسے دنیا کو جنون سا ہوگیا تھا۔ لیڈی ڈیانا نے شاہی زندگی میں عوام کی دلچسپی بڑھا کر لافانی شہرت حاصل کرلی ۔ آج بھی اُن کی زندگی پر بنی ہوئی فلمیں‘ ڈرامے اورتحریریں مقبول ہیں ۔ناظرین اور قارئین کی تعداد بڑھنے کا مطلب ہے کہ ان کے ذریعے بہت زیادہ دولت بھی کمائی جاتی ہے۔ دولت کے ذریعے شاہی زندگی کے مزید موضوعات سامنے لانے پر سرمایہ کاری بھی ہوتی ہے ۔ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ شاہی خاندان کے اس پہلو کے متعلق کچھ اہم عوامل اس طرح ہیں:
1۔ دیومالائی کہانیوں کی سی کشش۔ اکیسویں صدی میں جمہوریت کے چرچے اور بادشاہت کے خلاف عوامی جدوجہد کی تمام حکایات کے باوجود بادشاہ ‘ بادشاہ ہی ہوتا ہے ۔ دیومالائی کہانیوں اورمشہورشخصیات اور شاہی افراد کے بارے میں لوگ بے پناہ دلچسپی رکھتے ہیں ۔ سب لوگ محلات اور تخت و تاج کا حصہ تو نہیں ہوسکتے لیکن ان کی داستانیں عوامی دلچسپی کا باعث ضروربنتی ہیں ۔ شاہی کروفرعوام کے دل کی دھڑکن بڑھا دیتا ہے ۔ شاہی خاندان کے ساتھ اپنے متنازع تعلقات کی وجہ سے لیڈی ڈیانا کی کہانی بہت مشہور ہوئی۔ اُن کا ''محبت کی متلاشی حسینہ‘‘کا تاثر ابھی بھی فلموں اور ڈاکو منٹریز کے لیے بے پناہ کشش رکھتا ہے ۔ کچھ لوگ ان کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں کچھ اُن پر تنقید ی سوالات اٹھاتے ہیں ۔ جو بھی وجہ ہویہ پرکشش موضوع ہے ۔ بہت سے لوگ محسوس کرتے ہیں کہ اگرچہ تصاویر اتارنے کے خبط نے لیڈی کی جان لی تھی لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ وہ بھی اس کی عادی ہوگئی تھیں۔ اس دوران شاید وہ بھول گئیں کہ حقیقی زندگی کو میڈیا میں پیش کردہ افسانوی زندگی سے کس طرح الگ رکھاجائے۔ شاہی خاندان اور عوام دونوں کے لیے میگھن مرکل اور ہیری کا محل چھوڑنے کا فیصلہ کسی دھماکے سے کم نہ تھا ۔ لوگ یہ کہانی سننے کے لیے بے تاب تھے ۔ اس میں ان کے لیے بے پناہ کشش تھی ۔ میگھن نے ایسا کیوں کیا؟ کیا بادشاہت کا اختتام ہونے جارہا ہے ؟ لوگوں کی زبانوں پر بہت سے سوالات تھے ۔ ماہرین رائے سازی کررہے تھے ۔ اس دوران اوپرا نے کہانی کو چار چاند لگادیے ۔ انٹرویو زبان زد عام ہوگیا ۔
2۔ کہانی کارڈرامائی عنصر پیدا کرلیتے ہیں۔ شاہی خاندان کو بہت زیادہ میڈیا کوریج ملتی ہے ۔ شاہی مورخین سے لے کر ناول نگاروں اور کہانی نویسوں تک‘ سب حرف کو شاہی تاج پہنا کر دولت کماتے ہیں ۔ شاہی خاندان کا لباس کیسا ہے ‘ وہ کیا کہتے ہیں‘ کیا کرتے ہیں ‘ یہ موضوعات بہت سوں کی روزی کا سامان کرتے ہیں ۔ کچھ اس پر بہت بڑا نام بھی کمالیتے ہیں ۔ایک چھوٹا سا واقعہ بہت بڑی کہانی بن سکتا ہے اور کہانی سنائی جاتی ہے ‘ اس کے دام لگتے ہیں ۔ ملنے والی کوریج کی وجہ سے اوپرا ونفری کے انٹرویو نے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ۔ ذر ا تصور کریں کہ سی بی ایس پر چلنے والے انٹرویو کو کتنے ناظرین نے دیکھا! ایک اندازے کے مطابق سترہ ممالک کے 49 ملین سے زیادہ ناظرین سے تو کہانی شروع ہوئی تھی ۔ سی بی ایس نے 80 سے زیادہ علاقوں میں انٹرویو نشر کرنے کا لائسنس دیا ۔ درحقیقت سی بی ایس نے دیگر تمام چینلوں کو مات دے دی ۔ ونفری اور شاہی خاندان کی وجہ سے پرائم ٹائم میںاس چینل کے ناظرین کی ہفتہ بھر اوسط چھ ملین رہی ۔ اس دوران اے بی سی کی ساڑھے تین ملین‘ این بی سی کی 32 لاکھ ‘ فاکس کی 25 لاکھ ‘ یونی ویژن کی 13 لاکھ ‘ آیون ٹیلی ویژن کی 11 لاکھ اور ٹیلی منڈو کی ایک ملین تھی ۔ کورونا‘ جنگیں ‘ امریکااور چین تنازع جیسے موضوعات کو شاہی کہانی نے پس منظر میں دھکیل دیا۔
3۔ تنازع کا چسکا۔ عالمی شہرت یافتہ سماجی سکینڈلوں میں ہونے والی بحث کا تعلق اس سے ہے کہ کون کس طرف کھڑا ہے ۔ لاکھوں افراد کو حالیہ سکینڈل کے نسلی امتیاز کے پہلو نے سخت صدمہ پہنچایا ۔ بہت سے دیگر کا کہنا ہے کہ یہ ایک عام سی بات ہے ‘ بس انٹرویو میں سنسنی خیز ی پیدا کرنے کے لیے اسے تھوڑا سا موڑ دے دیا گیا ۔ اس سے قطع نظر کہ آپ کا مؤقف کیا ہے ‘ اصل بات اس واقعے میں پیدا ہونے والی دلچسپی اور ناظرین اور قارئین کی تعداد ہے ۔ اس طرح سکینڈل خود بخود نمو پاتا رہتا ہے ۔ یہ جاننے کا چسکا کہ اس کے بعد آگے کیا ہوگا‘ بھی دلچسپی کو تازہ رکھتا ہے ۔ملکہ کا اس پر کیا ردعمل ہوگا؟ اس پر قیاس آرائیوں نے مزید مواد پیدا کیا ۔ اس کہانی کے دور رس نتائج کیا ہوں گے ؟ اس پر مزید لکھا گیا ‘ انٹرویو ہوئے ۔ تمام سوشل میگزین اور مبصرین اس پر حیرت کا اظہار کررہے ہیں ۔ انہی حلقوں کی جانب سے اس کا مذاق بھی اُڑایا جارہا ہے ۔ اس کے خاکے بن رہے ہیں‘ مزاح تخلیق ہورہا ہے ‘ اداریے لکھے جارہے ہیں ۔ ہر کوئی حالات کے ساتھ چل رہا ہے ۔
جس دوران شاہی افرادکی زندگی پرہنگامہ خیز گفتگو جاری تھی‘اس سے سیکھنے کے لیے کچھ سبق بھی ہے ۔ سب سے پہلے تو ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی ۔ دولت مند اور مشہور افراد کی زندگیوں کی کہانیاں عوامی دلچسپی کا باعث ضرور بنتی ہیں لیکن وہ کھوکھلی کہانیاں ہیں ۔ خبروں میں رہنے کا مسلسل دبائو ‘ عوام کی نظروں میں آنے کا تنائو‘ معمول کی زندگی بسر کرنے کے قابل نہ ہونے کی کسک بہت سے ذہنی اور جذباتی مسائل کا باعث بنتی ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اپنی پسند کے نتائج اُن کے سامنے واضح ہوتے ہیں ۔ میگھن پر قنوطی تبصرہ یہ بھی ہے کہ اُنہیں اس زندگی میں اور کس چیز کی توقع تھی ؟ ممکن ہے کہ وہ سوچتی ہوں کہ اگر کیٹ میڈلٹن کی زندگی اچھے طریقے سے گزررہی ہے تو وہ بھی مسائل پر قابو پالیں گی ۔ وہ بھی اپنے شاہی مرتبے کو اپنے طریقے سے نبھائیں گی ۔ لیکن تاج کی روایات جاننے والوں کو پتہ ہے کہ یہاں آکر مرضی اور پسند کا خون کرنا پڑتا ہے ۔ آخری بات یہ کہ زندگی میں توازن لانا بہت مشکل‘ لیکن بہت اہم ہوتا ہے ۔
ہر چیز کی زیادتی بری ہوتی ہے ۔ زندگی وہی اچھی ہے جو انسان ہوشیاری سے ‘ بہت سی نظروں سے اوجھل لیکن بامقصد طریقے سے گزار لے ۔ ان تینوں میں کسی ایک چیز کا فقدان خوشی کو غارت کردیتا ہے ۔پریوں کی کہانیاں پڑھنے کی حدتک اچھی ہیں ۔ ان سے وقت اچھا کٹ جاتا ہے ‘ جب یہ ''ایک مرتبہ کا ذکر ہے ‘‘ سے شروع ہوکر ''ہنسی خوش رہنے لگے‘‘ پر ختم ہوتی ہیں ۔ اس سے بڑھ کر شاہی زندگی پیسہ بنانے والوں کے ہاتھ چڑھ جاتی ہے ۔ جیسا کہ کسی نے ٹویٹ کیا کہ سسرالیوں کے بارے میں انٹرویو کے لیے سات ملین ڈالر ؟ دنیا کے ہر حصے میں ہر روز سسرالیوں کے بارے میں گفتگو ہوتی رہتی ہے اور وہ بھی مفت لیکن پھر عام افراد اور شاہی افراد میں فرق وہی ہے جو عام زندگی اور افسانوی زندگی میں ہوتا ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں