زندگی بچانے کی ذمہ داری

''یہ میری زندگی ہے ‘‘ جون بون جووی (Jon Bon Jovi) کے گائے ہوئے اس گیت نے 2000 ء میں مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے ۔ ہر کسی نے اس کے موضوع کو سراہا ۔ نئے ہزاریے کا آغاز تھا‘ اکیسویں صدی کی 'باغی‘ نسل نے اس تصور کو پسند کیا کہ یہ میری زندگی ہے اور میں اس کے ساتھ جو کرنا چاہوں ‘ مجھے کرنے دو ۔ اس نے عمررسیدہ افراد کے جذبات کی بھی عکاسی کی جو محدود اور تنہائی کی زندگی بسر کررہے تھے ۔ یہ سپر ہٹ گانا دوعشروں بعد آج بھی اُسی طرح مقبول ہے ۔
زندگی اپنی مرضی سے گزارنا ایک آفاقی موضوع ہے ۔ اس طرح یہ سمجھنا بہت مشکل ہے کہ وہ لوگ جو زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کے نغمے گاتے اور نعرے لگاتے ہیں وہ کئی مرتبہ کسی اور کو اپنی زندگی کا ذمہ دار کیوں ٹھہراتے ہیں ؟ کورونا وائرس کے دنوں سے بڑی اس کی اور کیا مثال ہوسکتی ہے ۔ اس دور نے بہت سوں کو بے نقاب کردیا ہے ۔بہت سی کمپنیوں ‘ بہت سے ممالک کو۔ حقیقت یہ ہے کہ وائرس کی اس دنیا میں زیادہ تر لوگ اپنی زندگی کی ذمہ داری اٹھانے سے انکاری ہیں ۔ اس نے دنیا کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے ۔ لاک ڈائون سے لے کر ویکسی نیشن تک قطار توڑ کر آگے نکلنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اس وقت کورونا کی تیسری اور انتہائی خطرناک لہر چل رہی ہے ‘ لوگ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں۔مارچ میں شادیوں کا بھرپور سیزن تھا ۔ سماجی فاصلے ‘ مہمانوں کی محدود تعداداور ماسک پہننے جیسے اصولوں کی کھلی پامالی کی گئی ۔ ایک دن میں ہزاروں افراد کے وائر س سے متاثر ہونے کے بعد اب شور ہے کہ ''ویکسین کہاں سے لگوائیں ؟‘‘ہر کسی نے دہائی دی ہوئی ہے ‘ کہا جارہا ہے کہ پاکستان کے پاس ویکسین نہیں اور نہ ہی اس کا فوری بندوبست کیا جارہا ہے ۔ دولت مند اور صاحب ِ حیثیت افراد نجی کمپنیوں سے رجوع کررہے ہیں کہ سب سے پہلے انہیں ویکسین لگا دی جائے ۔ حکومت نے لاک ڈائون لگانے میں سختی کی لیکن لوگ احساس کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ اُن کے تعاون کے بغیر وائرس کا پھیلائو خطرناک ہوتاجائے گا۔ اس کشمکش اور افراتفری کے موسم میں کوئی نادر خیال اور اچھوتا تصور درکار ہے :
1۔ ترجیحی فہرست کو تبدیل کریں : عالمی ادارہ صحت کے طے کردہ ویکسین ایس اوپیز کی دنیا بھر میں پیروی کی جارہی ہے ۔ عمر رسیدہ افراد اورفرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز سب سے زیادہ خطرے کی زد میں ہوتے ہیں۔ انہیں حکومت کے خرچ پر سب سے پہلے ویکسین لگائی جارہی ہے ۔ تاہم ایک غریب ملک میں جہاں وسائل پر پہلے ہی شدید دبائو ہو‘ امیروں کو ویکسین امدادی قیمت پر کیوں دی جائے؟ حکومت یہی کرسکتی ہے کہ نچلے طبقے اور نادار افراد کو مفت ویکسین لگادے اور امیروں کو نجی شعبے سے خرید کر لگانے دے ۔ اس کے لیے پاکستان میں ویکسین درآمد کی سہولت فراہم کرنے کی ضرورت ہوگی۔ لیکن جب اس کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ‘ ضروری ہے کہ حکومت اس کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ وسیع پیمانے پر ‘تیزی سے اور کم نرخوں پر پاکستان کی تمام آبادی کو ویکسین دستیاب ہو۔
2۔ مقامی سطح پر تیاری کی ترغیب دیں : ویکسین کی فراہمی تیز تر کرنے کی واحد صورت اسے مقامی طور پر تیار کرناہے ۔ چین کی کین سینو بائیو کمپنی نے اپنی ویکسین کی آزمائش پاکستان میں کی تھی ۔ تجربات کے عوض وہ پاکستان میں ویکسین کی تیاری کے لیے رضا مند ہوگئے تھے ۔ اس موقع سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ۔ وہ ویکسین کو بھرنے اور پیک کرنے کاکام پاکستان میں کریں اور پھر پاکستان اور دیگر ممالک میں تقسیم کریں ۔ دیگر امکانات کے ساتھ اس موقع سے بھی فائدہ اٹھانا چاہیے ۔ انڈیا کا سیرم انسٹی ٹیوٹ مقامی طور پر محدود مقدار میں ویکسین تیار کررہا ہے اس لیے دنیا دیگر مقامات پر اس کی تیاری کے امکانات تلاش کررہی ہوگی ۔ پاکستان کے لیے چین ‘ روس اور ویکسین تیار کرنے والے دیگر ممالک سے رجوع کرنے کا وقت ہے جو لائسنس کے تحت پاکستان میں اسے تیار کریں ۔
3۔ مشترکہ کاوش کی تلاش: پاکستان کو مستقبل میں مشترکہ کاوش کی طرف قدم بڑھانا چاہیے ۔ کین سینو بائیو منصوبے کے عملی شکل اختیار کرنے کے بعد پاکستانی ماہرین کو بھی اس کی ٹریننگ دینے کا بندوبست کیا جائے جو اس کی پاکستان میں جزوی تیاری کرسکیں۔ دنیا کو احساس ہے کہ وائرس سے بچنے کا واحد طریقہ ویکسین کو عام کرنا ہے اس لیے ہماری ادویہ ساز صنعت کو تیار کرنے اور حکومت کو اس کے لیے ترغیب دینے کی ضرورت ہے ۔
4۔ کاروباری اداروں کے ساتھ تعاون کریں : حکومت کو صنعتی طبقے کے ساتھ رابطے میں رہنے کی ضرورت ہے ۔ اے پی ٹی ایم اے اور پی ای سی کو ٹاسک دیا جائے کہ وہ اپنے کارکنوں کو ویکسین لگوائیں۔ زیادہ تر کمپنیوں میں کارپوریٹ سوشل رسپانسیبلٹی بجٹ ہوتا ہے ۔ کمپنیوں کو اسے اپنے ملازمین کے لیے ویکسین خریدنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے ۔ اس مقصد کے لیے حکومت ''ہم خیال رکھتے ہیں‘‘ کی مہم چلائے ۔ ان کمپنیاں اور کاروباری اداروں کے نام ویب سائٹ پر نمایاں کئے جائیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے تشہیر کی جائے جو اپنے ملازمین کی ذمہ داری اُٹھاتے ہیں ۔ اس سے متاثر ہوکر دوسرے بھی اسی راہ پر چلیں گے ۔
5۔ رمضان میں سخاوت کا جذبہ : ماہ رمضان میں لوگوں میں سخاوت کا جذبہ عروج پر ہوتا ہے ؛چنانچہ دولت مند افراد کو احساس دلایا جائے کہ وہ اپنے ملازمین کو ویکسین خرید کر لگوائیں۔دوافراد کی ویکسین کی قیمت پچیس ہزار روپے بنتی ہے ۔ بہت سے خاندان یہ رقم مستحقین کو دینے کی استطاعت رکھتے ہیں ۔
6۔ مذہبی رہنمائوں کو اس مہم میں شامل کریں : عوام کو ویکسی نیشن لگانے میں سب سے بڑا مسئلہ عوام کی جانب سے اس کی مزاحمت ہے ۔ بعض علاقوں میں ویکسین کے خلاف بداعتمادی پائی جاتی ہے اس لیے مقامی امام مسجد کو اعتماد میں لیا جائے۔ ضروری ہے کہ وہ اپنے جمعہ کے خطبے میں لوگوں کو مسلسل بتاتے رہاکریں کہ ویکسین لگانا اُن کی ذمہ داری ہے ۔ اس حوالے سے مرکزی مذہبی تنظیم کی طرف سے جاری کیا گیا فتویٰ بھی فائدہ مند ہے۔
7۔ ماسک نہ پہننے پر شرمندگی کی فضا قائم کی جائے : عوامی مقامات پر ماسک پہننا سماجی ذمہ داری قرار دی جائے ۔ ایک حالیہ ویڈیو سے پتہ چلتا ہے کہ ٹی وی کی ایک مشہور اداکارہ کو باری کے بغیر ویکسین لگادی گئی ۔ اُس پر سوشل میڈیا پر اتنی تنقید ہوئی کہ اُسے معذرت کرنا پڑی ۔ اسی طرح کا ماحول ماسک نہ پہننے والوں کے لیے بھی ہونا چاہیے ۔ لوگوں سے کہا جائے کہ ماسک نہ پہنے والے اہم افراد کی تصاویر کھینچ کر سوشل میڈیا پر وائرل کردیں تاکہ وہ شرمندگی محسوس کریں ۔ محض جرمانے کرنے سے خوشحال لوگ ماسک نہیں پہنیں گے ۔ شرمندگی کا اثر البتہ ہوگا۔
کورونا کی تیسری لہر بہت تیز ہی نہیں خطرناک بھی ہے ۔ یہ آفت کا نشانہ عوام کی صحت ہے ۔ اس سے نمٹنے کے لیے ہر طبقے کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے ۔ سماجی فاصلہ اور لاک ڈائون مؤثر ثابت نہیں ہورہے ۔ وائرس سے نمٹنے کے لیے ہر کسی کو مشترکہ ذمہ داری اٹھانی ہوگی ۔ جب آپ کہتے ہیں ‘ ''یہ میری زندگی ہے‘‘ تو ہر کسی کو جینے اور زندگی کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری بھی اٹھانی چاہیے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں