ضبط ِنفس اور ماہ ِ رمضان

رمضان نظم و ضبط کا مہینہ ہے ۔ روزے کی اصل روح نفسانی اور فطری خواہشات پر قابو پانا ہے ‘ کھانے پینے سے گریز علامتی پابندی ہے لیکن بوجوہ ہم نے اسی کوحتمی مقصد سمجھ لیا ہے ۔ کم و بیش پندرہ گھنٹوں کے لیے کھانا پینا موقوف کردیا جاتا ہے اور روزہ افطار کرتے ہی کھانے پر گویا حملہ کردیتے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ رمضان المبارک کوعمل اور کردار کی بجائے محض تبلیغ‘ خطبے اور خطاب کا مہینہ سمجھ لیا گیاہے ‘ جبکہ اس ماہ مقدس کی حقیقی اقدار اور تعلیمات ہماری سطحی روایات تلے دب جاتی ہیں اور دکھاوا بن کر رہ جاتی ہیں ۔ ان میں روحانی پاکیزگی باقی نہیں رہتی۔ اسی لیے کچھ تشکیک پسند دھڑے یہ بھی سوچنا شروع ہو جاتے ہیں کہ مذہب صرف کچھ لوگوں کو ذاتی مقاصد حاصل کرنے کی چھوٹ دیتا ہے۔ممکن ہے کہ بعض صورتوں میں ایسا ہوتا دکھائی دے رہا ہو ‘ لیکن یہاں مذہب کی بجائے ہمیں اُن لوگوں کو موردِ الزام ٹھہرانا چاہیے جو مذہب کی حقیقی روح کو سمجھنے سے قاصر رہے اور جن کی وجہ سے یہ غلط فہمیاں پھیلتی گئیں ۔
رمضان المبارک کا حقیقی سبق ضبطِ نفس ہے ۔ ضبطِ نفس کا تعلق صرف مذہب سے نہیں بلکہ صحت‘ پیداوار اور زندگی میں اعتدال اور توازن سے بھی ہے ۔پاکستان ان دنوں کوووڈ کی تیسری سخت لہر سے گزررہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ عوام میں ضبطِ نفس کا فقدان بھی ہے کہ ہمیں ماسک پہننے اور اجتماعات سے گریز جیسی سادہ اور آسان ذمہ داریاں بھی گراںگزرتی ہیں ۔ ذرا تصور کریں کہ ضبطِ نفس کے فقدان کی وجہ سے خاندانوں سے لے کر عالمی معیشت تک کو کیسے نقصان کا سامنا کرناپڑرہا ہے ۔ دنیا ایس اوپیز اور لاک ڈائونز کے خلاف بغاوت دیکھ رہی ہے ‘ پاکستان کو بھی استثنیٰ حاصل نہیں ۔ لوگوں کو اُن کی اپنی حفاظت کے لیے ماسک پہننے کا پابندبنانے کے لیے فوج کو طلب کرنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے جیسے معاشرے میں ضبطِ نفس‘ اعتدال ‘ توازن اور امن کی تبلیغ کہیں زیادہ ضروری ہو جاتی ہے۔ معاشرے کی سماجی اورسیاسی تقسیم پر قابو پانے کے لیے کچھ طویل مدتی اور کچھ مختصر مدتی اقدامات درکار ہیں ۔
1۔ غربت اور ناخواندگی: خالی پیٹ اور خالی دماغ بے چینی اور بغاوت کا گڑھ ہے ۔ پاکستان میں دہشت گردی اُن علاقوں میں آسانی سے پھیلی جن میں ترقی کا گراف بہت پست تھا ۔ سابق فاٹا میں طالبان نے قدم جمائے‘ اُنہوںنے علاقے کی پسماندگی اور جہالت کا فائدہ اٹھایا کیونکہ علاقے میں نہ ترقی ہوئی تھی اور نہ ہی کسی نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی ۔ نیشنل ایکشن پلان کی ہر رپورٹ ذکر کرتی ہے کہ سوچ اور بیانیے کو تبدیل کرنا ضروری ہے ۔ اس کے باوجود کسی حکومت نے اس پر کام نہیں کیا ؛چنانچہ پہلی مرتبہ کسی حکومت کو یکساں نصاب کے ذریعے مدرسوں کے طلبا کو جدید تعلیم کے مرکزی دھارے میں لانے اور بیانیہ تبدیل کرنے کی کوشش کرتے دیکھنا خوش آئند ہے۔ اب چونکہ فاٹا خیبر پختونخوا میں ضم ہوچکا ‘اس میں ہونے والی ترقی اسے تبدیل کردے گی لیکن اس میں وقت لگے گا۔
2۔ سیاسی استحصال : ماضی کی ہر حکومت‘چا ہے فوجی ہویا جمہوری‘ نے مذہبی کارڈ استعمال کیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے مذہبی رواداری کو رواج دینے کی کوشش کی تو جنرل ضیاالحق نے اپنی تشریح کے مطابق اسلام نافذ کرنے کی کوشش کی ۔ بہت سے لوگ سیاسی طاقت کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے مذہب کو آخری سہارے کے طور پر استعمال کرتے ہیں ؛ چنانچہ مذہبی جماعتیں زیادہ ووٹ بینک نہ رکھنے( جو آٹھ سے نو فیصد سے زیادہ نہیں ہوتا) کے باوجود اپنی شرائط منوانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں ۔ مذہبی جماعتوں کے ساتھ ووٹ بینک کے لیے سیاسی اتحاد تشکیل دینے کی بجائے انہیں زیادہ روادار اور منظم بنانے کے لیے ایک جامع منصوبے کی ضرورت ہے ۔
3۔ ریاست کا تذبذب : ریاست اور حکومت کو اپنے مقصد میں بہت واضح ہونا چاہیے ۔ یہ مقصد معاشرے کی متنوع آراء کو اعتدال کے ساتھ مربوط رکھنا ہے ۔ یہ تاثر کہ دونوں ایک صفحے پر نہیں ‘ بیرونی قوتوں کے لیے استحصال کا موقع دیتا ہے ۔ وہ پاکستان کے بارے میں بداعتمادی پیدا کرکے اسے دنیا کے سامنے ایک انتہا پسند ملک کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ ریاست شورش اور فساد کو دبانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کارروائی کرتی ہے لیکن یہ دیر پا حل نہیں ۔ پائیدار حل کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو حقیقی مسئلے سے آشنا کیا جائے ۔ نبی آخر الزماں ﷺ کی تعلیمات اور سیرت وکردار عام کرنے کی ضرورت ہے ۔ پیغمبر ِرحمتﷺ کی محبت بھری تعلیمات کو ملکی اور عالمی سطح پر ہونے والی گفتگو کا حصہ بنایا جائے تاکہ پاکستان میں اور پاکستان کے متعلق سوچ تبدیل ہوسکے ۔ اندازِ فکر تبدیل کرنے کے لیے طویل المدت اقدامات مندرجہ ذیل ہوسکتے ہیں:
i۔ مساجد کی شمولیت : عام ذہن پر سب سے گہرا اثر مسجد کا ہوتا ہے ۔چونکہ جمعے کے خطبے میں عوام کی ایک بڑی تعداد شریک ہوتے ہیں ‘ اس لیے ضروری ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل جیسے فورمز کے ذریعے مساجد کے ائمہ کی رہنمائی کی جائے ۔ اُنہیں ہدایت کی جائے کہ وہ آنحضرت ﷺ کی تعلیم کردہ رواداری‘ تحمل ‘ ہمدردی‘ باہمی احترام اور ضبطِ نفس کو اپنے خطبات کا حصہ بنائیںاور مقدس کتب سے ان کے حوالے شامل کریں۔ یہ دین کو سماج کے لیے قابلِ قبول بنانے کا بہترین طریقہ ہے ۔
ii۔ تعلیمی نظام کی اصلاح: سرکاری سکولوں میں اسلامیات پڑھانے کا طریقہ مکمل تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ضروری ہے کہ انگریزی جیسی غیر ملکی زبان میں ان اسباق کو یاد کرنے کی بجائے انہیں سمجھا جائے اور انہیں اپنے کردار کا حصہ بنایا جائے ۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ سکول اساتذہ کرام کی ٹریننگ میں سرمایہ کاری کی جائے تاکہ طریقۂ تدریس بدلا جاسکے ۔مواد پر تاریخی حوالوں اور استدلال کے ساتھ مکالمے کی تربیت دی جائے ‘بجائے اس کے کہ مواد کو یاد کرکے لکھ دینے کو ہی تعلیم سمجھا جائے ۔
iii۔ سوشل میڈیا کا استعمال : عوام الناس کے لیے ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کو مثبت طریقے سے استعمال کرتے ہوئے معاشرے کو درست پیغام دیا جائے ۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ بھارت نے کس فعال طریقے سے پاکستان کو ایک دہشت گرد ریاست کے طور پر پیش کیا ۔ سوشل میڈیا پر درست پلیٹ فورمز کی شناخت کی جائے اور اُن پر مقبول مذہبی رہنمائوں کی تصدیق شدہ ویڈیوز اپ لوڈ کی جائیں تا کہ دنیا کے سامنے درست پیغام جائے ۔
iv۔ عالمی آگاہی : نائن الیون کے بعد سے اسلامو فوبیا عروج پر رہا ۔ اسلام کو منفی طور پر پیش کرنے کی وجہ سے پاکستان نے اندرونی اور بیرونی طور پر بہت تکلیف اٹھائی ۔ وقت آگیا ہے کہ مسلمان اسلام کی حقیقی روح کو اجاگر کریں ۔ ایسا صرف اسی صورت ممکن ہے جب اسلامی ممالک ایک باضابطہ فورم قائم کرکے دنیا میں سیاسی سطح پر آواز بلند کریں ۔ حضور پاک ﷺ نے صرف اسلام کی تبلیغ ہی نہیں کی بلکہ اسلامی اقدار کے مطابق عملی طور پر بہترین زندگی کا نمونہ پیش کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ اسوۂ حسنہ اور سیرت نبیﷺ کی پیروی کا تصور پیش کیا جاتا ہے ۔ اگر آپ ﷺ نے صبر و تحمل‘ بردباری اور انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کیا تو ہمیں بھی انہی خوبیوںکو اپنانے کی ضرورت ہے ۔ سیرتِ طیبہ کی عملی پیروی کرنا ہی آپ ﷺ سے عقیدت اور محبت کے اظہار کا بہترین طریقہ ہے اور اسی طرح ہم دوسروں کو اپنے مذہبی جذبات اور اقدار سے آگاہ کرسکتے ہیں او ر ان کا احترام پیدا کرسکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں