ظالم اور سفاک

بمباری ‘ تباہی ‘ دھماکے ‘ شعلے اور گرتی ہوئی عمارتوں کے ڈھانچوں کے اندر دفن ہوتے ہوئے مرد‘ خواتین اور بچے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ہم نے غزہ میں یہی مناظر دیکھے جوباقاعدگی سے ہر چند سالوں بعد دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ اسرائیلی فوج کی غزہ اور مغربی کنارے پر بمباری اور گولہ باری ۔ اسرائیلیوں کا دعویٰ کہ وہ حماس کے خود ساختہ راکٹوں اور گرینیڈحملوں کے جواب میں یہ کارروائی کرتے ہیں ۔اسرائیلی جارحیت جاری ہے ۔ فلسطین کے مرد‘ عورتیں ‘ بچے اور جوان گلیوں ‘ سڑکوں‘ گھروں اور کام کرنے کی جگہوں پر شہید ہورہے ہیں۔ کام کرتے ہوئے ‘ کھیلتے یا سوتے ہوئے ‘ اُنہیں آسمان سے برسنے والی موت کا سامنا ہے ۔ فضائی حملوں کی زد میں آنے والے کچھ تو فوراً جاں بحق ہوجاتے ہیں ‘ کچھ عمارتوں کے ملبے تلے زندہ دفن ہوجاتے ہیں ‘ کچھ بری طرح زخمی ہوجاتے ہیں ۔ غزہ میں غصے اور مایوسی کادوردورہ ہے ‘ مغربی کنارے پر موت نے پر پھیلائے ہوئے ہیں۔ اس کے جواب میں مزید راکٹ پھینکے جاتے ہیں ۔ پھر مزید بمباری عمارتوں اور مواصلات کو تباہ کرتی اور انسانوں کی جان لیتی ہے ۔ فلسطین میں انسانی لہو پانی کی طرح ہوچکا ہے ۔ اس پر دنیا کی طرف سے ردعمل آتا ہے ‘ بلکہ یوں کہیں کہ اس کے جواب میں دنیا سکوت کی چارد تان لیتی ہے ۔ کہیں کچھ ملاقاتیں ‘ کچھ قراردادیں اور یوں ایک اور دن گزر جاتا ہے ۔ ظلم وجبر کا سلسلہ جاری ہے ۔ کچھ ممالک تو محض خانہ پری کیلئے بیانات دیتے ہیں اور پھر مڑ کر اپنی اپنی سیاسی ترجیحات کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں ۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ۔ عالمی ادارے امن اور جنگ بندی کی بات کرتے ہیں اور ٹوئٹر ہیش ٹیگ سے حساب برابر سمجھا جاتا ہے ۔ اُدھر زندگی اور موت کا کھیل جاری ہے ۔ دنیا میں کمزور ہونا ایک جرم ہے۔ نہتے ہونا حملے کی دعوت دینے کے مترادف ہے ۔اگر آپ آواز بلند نہیں کرسکتے تو آپ خطرے میں ہیں ۔ کوئی کووڈ ‘ کوئی معاشی خسار ہ انسان کی بربریت کو لگام نہیں دے سکا۔ بچوں کے پھول جیسے جسموں کواُڑانے والی سفاکیت ‘ کوئی احتجاج یا مذمت اس وحشت اور درندگی کا جواب نہیں ہوسکتی ۔ کثیر منزلہ عمارتوں کو مختصر نوٹس پر دھماکے سے تباہ کردیا گیا ۔ مشرقِ وسطیٰ میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان تصادم ویسا ہی ہے جیسے کشمیر پر پاکستان اور بھارت کی کشمکش ۔
1۔ برطانوی پس منظر : سلطنتِ عثمانیہ کی پہلی عالمی جنگ میں شکست کے بعد برطانیہ نے اس علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا ۔ اس سرزمین پر یہودی اقلیت اور عرب اکثریت میں تھے ۔ بر صغیر کی طرح یہاں بھی برطانیہ نے1947ء تک حکومت کی تھی ۔ اقوام ِ متحدہ نے فلسطین کو دوحصوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے کی تجویز پیش کی ‘ ایک آزاد یہودی ریاست اور ایک آزاد عرب ریاست۔ 1967 ء میں چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے اپنی سرحدوں پر عرب جارحیت کا جواز بتا کر مصر کا علاقہ صحرائے سینا ‘ شام کی گولان کی پہاڑیاں اور اردن سے مغربی کنارہ اور مشرقی یروشلم کا علاقہ چھین لیا ۔اسرائیل نے چھینے گئے علاقوں پر قبضہ برقرار رکھا اور اب تک فلسطینی تشدد اور ظلم کے پنجوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
2۔ عالمی طاقت کے مشرق ِوسطیٰ میں ایجنٹ: اسرائیل امریکا کا مشرق وسطیٰ میں فعال بازو ہے ۔ عالمی طاقت کا نسخہ بہت سادہ ہے کہ دنیا کے تمام اہم خطوں میں اپنے فعال بازو یا ایجنٹ رکھے جائیں اور ان کی مدد سے مقامی توسیع پسندی کے مقاصد حاصل کیے جائیں ۔ یورپ میں امریکا کا فعال بازو برطانیہ کو سمجھا جاتا ہے ۔ مشرقِ بعید میں عالمی طاقت ایسا کرنے میں اس لیے ناکام ہوگئی کیونکہ ملائیشیا ‘ چین اور کوریا معاشی آزادی حاصل کرچکے تھے ۔ لاطینی امریکا میں بھی وینزویلا جیسے ممالک میں امریکا اپنی مرضی کے راہ نمامسلط کرنے کی کوشش کرتا رہاہے ۔ مشرق ِوسطیٰ میں اسرائیل امریکی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین اور کچھ افریقی ممالک کا اسرائیل کو تسلیم کرنا اسی پالیسی کے دبائو کا نتیجہ ہے ۔ اسرائیل کی مخالفت اور حمایت رکھنے والی خارجہ پالیسی اہم علاقائی تنظیموں جیسا کہ او آئی سی‘ میں اختلافات کی لکیر کھینچ رہی ہے ۔
3۔ کاروباری مفاد : دولت کی کشش کبھی ماند نہیں پڑتی ۔ اسرائیل ٹیکنالوجی کا گڑھ ہے ۔ اسرائیل میں دنیا میں امریکا کے بعد سب سے زیادہ کمپنیوں کے صدر مقام ہیں ۔ NASDAQ کی فہرست میں امریکا اورچین کے بعد تیسرا نمبر اسرائیل کی کمپنیوں کا ہے ۔امریکی کمپنیوں جیسا کہ انٹل‘ مائیکروسافٹ اور ایپل نے امریکا کے بعد اپنے پہلے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ مراکز اسرائیل میں قائم کیے ۔ ہائی ٹیک کثیر ملکی کارپوریشنزجیسا کہ آئی بی ایم ‘ گوگل‘ ایچ پی‘ سسکو سسٹمز ‘ فیس بک اورمیٹرولا نے اپنے آر این ڈی مراکز اسرائیل میں قائم کیے۔ اسرائیل کے اہم معاشی شعبے آئی ٹی اور صنعتی مصنوعات ہیں ۔اس کی ہیرے کی صنعت دنیا میں ہیروں کی کٹائی ‘پالش اور فروخت میں پہلے نمبر پر ہے ۔ ہیرے کی عالمی تجارت میں اس کاحصہ 23.2 فیصد ہے ۔ اسرائیل کے مغرب کے ساتھ اتحاد کے مقابلے میں اسلامی دنیا تضادات کا شکار اور بکھری ہونے کی وجہ سے فلسطینیوں کو ان کے حقوق دلانے سے قاصر ہے۔ اسرائیل کی بے لگام جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے میڈیا پر مربوط اور مشترکہ کوشش اور مل کر کاروباری دبائو قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔
1۔ اقوام متحدہ پر دبائو ڈالنے کیلئے امت کا اتحاد: برطانوی استعمار ہو یا امریکی تسلط‘ ہر جگہ قابض قوتوں کی حکمت عملی ایک ہی رہی ہے یعنی تقسیم کرو‘ کشمکش کے زون قائم کرو‘ مقامی قوتوں کو باہم محاذ آرائی میں الجھائے رکھوتاکہ وہ کمزور اور پسماندہ رہیں۔ امریکا نے خطوں پر اپنا تسلط قائم کرنے کیلئے فوجی اڈے قائم کیے ہیں ۔ پاکستان کو افغانستان میں استعمال کیا گیا ۔ وقت آگیا ہے کہ مسلم دنیا کے ترقی پسند ممالک اکٹھے ہوکر اپنی عالمی اہمیت کا احساس دلائیں ۔ اس وقت مودی اور نیتن یاہو کی مقبولیت اپنے اپنے ممالک میں گررہی ہے ۔یہ جارحیت ان کی رہی سہی مقبولیت کو فنا کرسکتی ہے۔اچھا ہوا کہ چار ممالک کے وزرائے خارجہ نے مل کر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں آواز بلند کی ۔ ان کی تعداد میں اضافے کی ضرورت ہے ۔ جنگ بندی کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کی ذاتی سفارت کاری مزید جارحانہ ہونی چاہیے تاکہ فلسطین کو آزاد کرایا جاسکے ۔
2۔ سوشل میڈیا تحریک : غزہ ٹاور پر بمباری نے اسرائیل کو عالمی رائے عامہ میں نقصان پہنچایا ہے ۔تباہی کے متاثر کن مناظر پوری دنیا میں دیکھے گئے ۔ ہیش ٹیک #PalestinianLivesMatter پہلے ہی وائرل ہے‘ اسے ایک تحریک کی صورت دیتے ہوئے اس کا مومینٹم بڑھایا جانا چاہیے یہاں تک کہ اسرائیل کو فلسطین کے مقبوضہ علاقوں سے قدم پیچھے ہٹانے پڑیں ۔ اس لیے سوشل میڈیا پر منظم مہم چلانے کی ضرورت ہے جسے الجزیرہ اور دیگر اہم میڈیا ہائوسز کا تعاو ن حاصل ہو ۔
3۔ سول سوسائٹی گلوبل فورم : فوری چوٹ لگانے کیلئے انسٹا گرا م اور دوسرے میڈیا پر نوجوانوں کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ انسٹاگرام پر توجہ حاصل کرنے کیلئے آپ کو اہم شخصیات کی حمایت درکار ہوگی ۔ فلسطین نژاد امریکی ماڈل بیلا حدید کی اٹھائی ہوئی آواز پوری دنیا میں سنی گئی ۔ اگر امل کلونے جیسے وکیل اور یو ٹو کے بونو جیسے گلوکار اس میں شامل کیے جاسکیں تو یہ آواز طاقت کی راہداریوں میں سنی جاسکتی ہے ۔
اس میں دو رائے نہیں کہ کشمیریوں اور فلسطینیوں کی ابتلا میں مماثلت ہے۔ یہ عالمی نوعیت کی کشمکش کے محاذ ہیں اور انہیں اقوام متحدہ کے حقِ خود ارادیت کے چارٹر کے ذریعے ہی حل کرنا ہوگا۔ ان دونوں خطوں پر دوسرے ملک نے زبردستی قبضہ کررکھا ہے ۔ ان کے حقوق پامال کیے جارہے ہیں ۔ یہ دونوں ایسے قابضین کے جبر کا شکار ہیں جن کی سفاکیت کی کوئی حد نہیں۔ بدقسمتی سے دونوں خطوں کو ان کے اپنے برادر ممالک کی حمایت بھی حاصل نہیں ۔ مسلم دنیا میں قیادت کا وسیع خلا موجود ہے ۔ پاکستان کے لیے قدم آگے بڑھانے کا موقع ہے کہ وہ دیگر ممالک کوآگے بڑھنے کی تحریک دے ۔ اس حوالے سے ابھی چار ممالک اس کے ساتھ شریک ہوئے ہیں ‘ ممکن ہے کہ کچھ کہیں کہ یہ تعداد بہت کم اور کمزور ہے لیکن پھر‘ جیسا کہ مارگریٹ میڈ نے کہا تھا کہ اس پر کبھی شک نہ کرنا کہ پرعزم اور سوچ سمجھ رکھنے والے شہریوں کا چھوٹا سا گروہ دنیا کو کیسے تبدیل کرسکتا ہے ۔ درحقیقت ہمیشہ ایسے لوگوں نے ہی دنیا کو تبدیل کیا ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں