نہیں، ہرگز نہیں!

''کیا آپ واقعی سنجیدہ ہیں؟‘‘ اینکر کا ردعمل تمام کہانی سنا رہا ہے۔ لہجہ بتا رہا ہے کہ اسے سنی ہوئی بات پر یقین نہیں آیا۔ لفظ ''سنجیدہ‘‘ معنی خیز تھا۔ گویا استفسار یہ تھا ''کیا آپ جانتے ہیں کہ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘۔ حیرانی کی وجہ یہ تھی کہ کسی پاکستانی رہنما کی زبان سے ایسی بات پہلی مرتبہ سننے میں آئی تھی۔ بے ساختہ اور غیر متوقع جواب تھا۔ یہ عشروں پر محیط ''ڈومور‘‘ کے بعد اب گزشتہ دو تین برسوں سے''مزید کچھ نہیں‘‘ کی کہانی ہے۔ ایسے پاکستان کی کہانی‘ جو اب اغیار کی جنگوں میں اتحادی بننے کا روادار نہیں۔ یہ اُس پاکستان کی کہانی ہے جو پراکسی جنگ کے بدلے امداد کا طلب گار نہیں۔ ایک ایسے پاکستان کی کہانی ہے جو تنازع کا فریق بننے کے بجائے امن کے سہولت کار کی حیثیت سے اپنے مؤقف پر سختی سے قائم ہے۔
ایچ بی او کا اینکر بھونچکاں رہ گیا۔ جس دوران عوام اس موقف کو سراہ رہے ہیں، کچھ نے اس پر سوال بھی اٹھایا ہے۔ اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ وزیر اعظم یوٹرن لے لیں گے۔ غیر ملکی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ سکرپٹڈ ہے جس کا سکرپٹ پہلے کی طرح کسی اور نے لکھا ہے۔ یہ سارے ردعمل قابلِ فہم ہیں۔ گزشتہ نصف صدی سے پاکستان نے امریکا کی فرماں برداری کی اور گزشتہ دو دہائیوں سے تو حد کر دی گئی۔ اگرچہ پاکستان کا نائن الیون کے ساتھ کوئی سروکار نہیں تھا لیکن مشرف حکومت امریکی دباؤ کا سامنا نہ کر سکی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کی حلیف بن گئی۔ اِس فیصلے کی قیمت پاکستان کو اپنی سلامتی، خودمختاری اور خوش حالی کے نقصان کی صورت میں ادا کرنا پڑی۔ امریکا نے پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود کو افغانستان پر حملے کے لیے استعمال کیا۔ جنگ کا دائرہ پھیلنے سے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں تیزی آنے لگی۔
مشرف دور کے بعدکی جمہوری حکومتوں نے دہرا کھیل کھیلنا شروع کر دیا۔ طے یہ پایا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت ڈرون حملوں پر احتجاج بھی کرے گی اور امداد کے بدلے امریکی کارروائیوں کی درپردہ حمایت بھی کرتی رہے گی۔ یہ دوغلا پن ملک کے لیے نقصان دہ تھا۔ یہ سب کچھ بعد میں وکی لیکس میں ثابت ہو گیا۔ 2010ء میں تنازعات کو ہوا دینے والی وکی لیکس نے پاکستان سے متعلق متعدد دستاویزات جاری کیں جن سے پتا چلا کہ پاکستانی حکومت ڈرون حملوں سے اغماض برتتی رہی، اگرچہ کھلے عام وہ ان کی مذمت کرتی تھی۔ اگست 2008ء میں اس وقت کے وزیراعظم سے منسوب بیان سامنے آیا: ''مجھے اس کی پروا نہیں ہے بشرطیکہ وہ صحیح ہدف کو نشانہ بنائیں۔ ہم بظاہر قومی اسمبلی میں احتجاج کریں گے اور پھر اسے نظر انداز کر دیں گے‘‘۔
پاکستان کو ان پالیسیوں کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ 70 ہزار سے زیادہ بے گناہ پاکستانی جاں بحق ہو گئے۔ ملکی معیشت کو کم و بیش 150 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ 2010ء کے اکنامسٹ کے کور پیج پر پاکستان کو دنیا کا سب سے خطرناک ملک قراردے دیا گیا تھا۔ 2008 ء سے لے کر 2018ء تک‘ یہ معاشی گراوٹ اور صنعتی زوال کی دہائی تھی۔ اس دوران زرعی پیداوار اور برآمدات میں کمی واقع ہوئی اور تجارتی خسارہ بڑھا لیکن شاید سب سے زیادہ زک ہماری عالمی ساکھ کو پہنچی۔ جب رہنما دُہرے معیار کا مظاہرہ کرتے ہیں تو ان کی اصلیت پہچاننے والی مغربی طاقتیں ان سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ نائن الیون واقعے میں ایک بھی پاکستانی حملہ آور شامل نہیں تھا اور دہشت گردی کی جنگ میں امریکا کی نسبت کہیں زیادہ پاکستانی فوجیوں اور عام شہریوں کا جانی نقصان ہوا لیکن امریکا نے پاکستان سے ہمیشہ ''ڈومور‘‘ کا مطالبہ کیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی امریکی ایئر پورٹ پر جامہ تلاشی اور وزیراعظم نواز شریف کو ورلڈ اکنامک فورم پر تقریر کرنے سے روک دینے جیسے واقعات ایسی قیادت کی عکاسی کرتے ہیں جس کی حیثیت کرائے کے افراد سے زیادہ نہیں تھی۔
اس پس منظر میں 2018ء میں نئی حکومت کو صرف پانچ سال بعد تبدیلی کے معمول کے طور پر دیکھا گیا۔ پھر سابق صدر ٹرمپ نے اپنے توہین آمیز ٹویٹس کے ذریعے پاکستان کے ساتھ اتنہائی ہتک آمیز رویہ اپنایا۔ یہی وجہ ہے کہ نومبر 2018ء کے آغاز میں جب صدر ٹرمپ نے فاکس ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں پاکستان کی امداد بند کرنے سے متعلق اپنی انتظامیہ کے فیصلے کادفاع کرتے ہوئے پاکستان کو ''ہمارے لئے ایک ناکارہ چیز‘‘ قرار دیا تو اُسے پاکستانی حکومت کی طرف سے ''پلیز امداد نہ روکیں، ہم اور زیادہ کریں گے‘‘ جیسے ردعمل کی توقع تھی لیکن یہ کیا، اُسے وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے باقاعدہ سرزنش کا سامنا کرنا پڑا۔
وزیراعظم نے ٹویٹر پر صدر کو یہ کہتے ہوئے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ انہیں تاریخی حقائق سے آگاہی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹویٹ پیغامات کی ایک سیریز میں عمران خان نے کہا کہ امریکا کی طرف سے پاکستان کو بیس ارب ڈالر کی برائے نام ا مداد ملی، جبکہ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ لڑتے ہوئے ہم نے 75 ہزار افرادکا جانی نقصان برداشت کیا جبکہ 123 ارب ڈالر سے زیادہ کے مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ وزیراعظم نے پاکستان کی طرف سے امریکی افواج کو رسد کی فراہمی کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھا کہ کیا مسٹر ٹرمپ کسی ایسے اتحادی ملک کا نام بتا سکتے ہیں جس نے اتنی قربانیاں دی ہوں؟ پورے ملک کا خیال تھا کہ اس جرأتِ رندانہ کا پاکستان کو ڈومور کی صورت مزید خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ لیکن صدر ٹرمپ نے وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف پاکستان کی شراکت کو تسلیم کر لیا بلکہ افغانستان میں قیامِ امن کے سلسلے میں وزیراعظم عمران خان کی کوششوں پر ان کی تعریف بھی شروع کر دی۔ وزیراعظم عمران خان کا دورۂ امریکا ریاست کے سابقہ سربراہان کے دوروں کے مقابلے میں بالکل مختلف تھا۔ انہیں وائٹ ہاؤس میں خصوصی اہمیت ملی۔ عمران خان کا وژن اُس وقت نکھر کر سامنے آ گیا جب صدر ٹرمپ نے وزیراعظم سے پوچھا کہ امریکا پاکستان کی کس طرح مدد کر سکتا ہے؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ اُنہیں امداد نہیں، تجارت کی ضرورت ہے۔ سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں یہ بہت بڑی تبدیلی تھی جنہیں امدادکے بدلے ڈومور کی مشقت اٹھانا پڑتی تھی۔
موجودہ صورتِ حال میں ماہرین اڈے فراہم کرنے سے وزیراعظم کے انکار کے بعد امریکا کی طرف سے منفی ردعمل کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں۔ پاکستان نے بہرحال درست اگرچہ سخت مؤقف اختیار کیا ہے اور ہمیں کسی بھی قسم کے اِرادی اور غیر اِرادی نتائج کا مقابلہ کرنے کیلئے درج ذیل تین نکاتی حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
1۔ افغانستان میں قیامِ امن میں ہمارے کردار کی اہمیت: یہ دور خطے میں پاکستان، افغانستان اور امریکا کے کردار کے حوالے سے انتہائی حساس اور پیچیدہ ہے۔ امریکیوں کو خطے سے نکلنے کی جلدی ہے۔ مختلف افغان دھڑوں کے درمیان مذاکرات ناممکن دکھائی دیتے ہیں۔ افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارت اپنی جگہ خطے میں بگاڑ پیداکرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ برسوں کے امن کے بعد لاہور بم دھماکا اس جانب اشارہ ہے کہ اگر تصفیے کا عمل تاخیر کا شکار ہوا تو کیا کچھ ہو سکتا ہے۔ ایسے میں پاکستان کو سفارتی اور سیاسی طور پر امن کے سہولت کار کی حیثیت میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے جس پر امریکا کو انحصار کرتے رہنا ہو گا۔ اگر امریکا خطے سے انتشار کا خاتمہ چاہتا ہے تو قیامِ امن میں پاکستان کی شمولیت لازمی ہے۔ پاکستان کو اس صورتِ حال کو اپنے فائدے میں ڈھالنا ہو گا۔
2۔ خودکفالت پر مبنی معاشی نمو: دو ٹوک لہجے میں''ہرگز نہیں!‘‘ کہنے سے آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف سے سہولت ملنے میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ پاکستان اسے معاشی خود انحصاری کاموقع سمجھ سکتا ہے۔ پاکستان کو اپنے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا ہو گا اور اقتصادی نمو کے لیے ''امداد نہیں تجارت‘‘ جیسی حکمتِ عملی کو ترجیحی بنیاد پر اپنانا ہو گا۔ اگر سال 2021ء میں جی ڈی پی میں محصولات کے حصول کی بنیاد پر 5 فیصد سے زائد اضافہ ممکن ہو پاتا ہے تو یہ دنیا کے لیے ایک توانا پیغام ہو گا کہ پاکستان بے دست و پا نہیں بلکہ اس میدان کا ایک اہم کھلاڑی ہے۔
3۔ عالمی اہمیت کا حصول: ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پاکستان کی کاوش کو مغرب تسلیم کرتا ہے۔اب پاکستان اس ضمن میں سعودی عرب کی مدد کرے گا۔ اسی طرح فلسطین، کشمیر اور اسلامو فوبیا جیسے اہم ترین ایشوز پر پاکستان کے اصولی مؤقف کی گونج دُنیا بھر میں سنائی دے رہی ہے۔ پاکستان کو عالمی سطح پر اپنا مقام بنانے کے لیے ان ایشوز کو مزید اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم کا حرفِ انکار عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے لگایا گیا نعرہ نہیں بلکہ یہ اس ملک کے طرزِ فکر اور طرزِ عمل میں مکمل تبدیلی کا اشارہ ہے۔ یہ گویا سیاسی آزادی کا اعلان ہے۔ یہ ارادے اور مقصدکی پختگی کا بیانیہ ہے۔ یہ ایک مؤقف اور عزم کا اظہار ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ ا س سے خوداعتمادی کی جھلک ملتی ہے، جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ اصل سپر پاور خود اعتمادی کی طاقت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں