سیاسی اہمیت سے معاشی اہمیت تک

کم وبیش ہر کوئی طالبان سے بات چیت کرنا چاہتا ہے ۔ ہر کسی کا خیال ہے کہ پاکستان کے ذریعے بات چیت ہوسکتی ہے۔ ہر کوئی سوچ رہا ہے کہ امریکا کی افغانستان میں آنے اور اب انخلا کرنے کی پالیسی غلط تھی۔ سو چ اور سیاست میں یہ تبدیلی حالیہ دنوں واقع ہوئی ۔ گزشتہ دو عشروں سے ان ممالک کا بیانیہ اور موقف اس کے برعکس تھا ۔یہ موجودہ وزیر اعظم پاکستان کی کئی عشروں سے تنہا آواز تھی جس نے افغانستان میں امریکی خارجہ پالیسی کی حماقت کی پیش گوئی کردی تھی ۔ وہ حماقت جس کے نتیجے میں دوٹریلین ڈالر‘ لاکھوں جانوں اورپوری ایک نسل کا نقصان ہوگیا۔ قدرے تذبذب کے ساتھ دنیا نے تسلیم کرلیا کہ اب پاکستان کو نہ تو نظر انداز کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی غیر ملکی طاقتیں اسے کنٹرول کرسکتی ہیں ۔ پاکستان اپنا فوکس تبدیل کرچکا ۔ محض اپنی سیاسی اہمیت پر انحصار کرنے کی بجائے اب یہ خود کو معاشی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کے لیے کوشاں ہے ۔
جغرافیہ ‘ معیشت اور سیاست باہم متصل ہیں ۔ اقتدار کی سیاست دولت جمع کرتے ہوئے طاقت اور تسلط کی سیاست ہے ۔ دولت کے استعمال سے سلطنتوں‘خطوں ‘ صنعتوں اورمعیشتوں کا پھیلائو ایک تزویراتی حقیقت ہے لیکن قبضہ کرنے کے روایتی طریقے آج بھی مقبول ہیں ۔ طاقتور ممالک نے جنگوں اور فوجی طاقت سے نوآبادیاتی نظام اور استعماریت قائم کی اور اہم وسائل پر قبضہ کیا ۔ ساٹھ اور ستر کی دہائیوں کی سرد جنگ اپنے پیچھے ایک وراثت چھوڑ گئی تاہم اس کے بعد سے کچھ تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں ۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک میں تیل کی خاطر جنگوں کی جگہ اب امریکا کی ''قومی تعمیر ‘‘ کی حکمت عملی نے لے لی ہے ۔ قومی تعمیر کی پالیسی جنگ کا منظر نامہ ہے۔ یعنی ترقی کے لیے پہلے تباہی کے عمل سے گزریں ۔ عراق اور افغانستان اس کی سلگتی ہوئی مثالیں ہیں ۔
عسکری طاقت‘ معاشی جنگ اور ٹیکنالوجی کی جدت توسیع پسندی کے بنیادی اور فعال عناصر تھے۔ امریکی سپر پاور کا تصور سوویت یونین کو شکست دینا‘ مشرق وسطیٰ کو تقسیم کرنااور جی سیون جیسے ممالک کا فورم تشکیل دینا تھا۔ اس فورم سے دنیا کے سات امیر ترین ممالک دیگر 193 ممالک کے متعلق فیصلے کرتے ہیں ۔دوسرے ممالک یا تو ان کے ہم خیال بن جاتے ہیں یا تنہا رہ جاتے ہیں ۔ عالمی جنگوں کے بعد یہ ماڈل کم و بیش نصف صدی تک کامیابی سے چلا لیکن پھر ڈریگن نے انگڑائی لی ۔ چار دہائیاں پہلے چین نے نرم پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا ۔ وہ ان چالیس برسوں کو اصلاحات کا زمانہ کہتے ہیں ۔ اُن کے بلند نگاہ لیڈر ڈنگ زیائوپنگ نے فیصلہ کیا کہ چین کو کاروباری سرگرمیاں بڑھانے پر توجہ دینی چاہیے ۔صنعت اور تجارت کے لیے امن اور سکیورٹی لازمی تھے یہی وجہ ہے کہ چین نے کسی بھی کشمکش اور جنگ میں خود کو الجھانے سے گریز کیا ۔ 1990 ء کی دہائی اور 21 ویں صدی میں جس دوران امریکا نے خود کو ایشیا اور مشرق ِوسطیٰ کی جنگوں میں الجھائے رکھا‘ چین نے تجارتی سرگرمیاں بڑھاتے ہوئے علاقائی روابط کو بڑھایا۔ یہ عالمی سطح پر سیاسی تنازعات سے گریز کرتے ہوئے معاشی سرگرمیوں کی طرف تبدیلی کار استہ تھا ۔
پاکستان بھی ایک پرامن اور خوش حال ملک بننا چاہتا ہے تو اسے تزویراتی سوچ بدلنی ہوگی ۔ عالمی معیشت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے پاکستان کی خارجہ پالیسی ‘ تجارتی پالیسی‘ سرمایہ کاری‘ معاشی نموکو اس نئے سیاسی رویے کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ اس کی شروعات بہت حوصلہ افزا ہے اور دنیا اسے نوٹ کررہی ہے ۔اس کی پالیسی میں تبدیلی اس کی حیثیت اور سکت کا تعین کرے گی :
1۔ جنگ کے شراکت دار سے امن کے شراکت دار تک: پاکستان نے روایتی طور پر سیاسی جغرافیائی کھیل کھیلے ہیں ۔دونوں افغان جنگوں میں امریکا کا شراکت دار بننا بہت بڑی غلطی تھی ۔ افغانستان میں جنگ لڑنے کی امدادی رقم بمشکل بیس بلین ڈالر تھی جبکہ اس کی وجہ سے ہمارا 150 بلین ڈالر کا معاشی نقصان ہوگیا ۔ 70 ہزار شہری جاںبحق ہوئے ۔ہم دوسری اقوام کا گندصاف کرنے والے سستے مزدور بن گئے ۔سیاسی طور پر ہمیں دہشت گردی پھیلانے والا کہا گیا ۔ اس عالم میں روایتی راہوں سے گریز اورتبدیلی کا واشگاف اعلان ''ہرگز نہیں‘‘سے شروع ہوا ۔ وزیر اعظم پاکستان نے امریکا کو اڈے فراہم کرنے سے انکار کردیا ۔ یہ دو الفاظ اور حکم ماننے سے انکار پر وقتی طور پر تکلیف اٹھانی پڑے گی لیکن اس کی وجہ سے اب خطہ اور دنیا پاکستان کو مختلف نظروں سے دیکھنا شروع ہوگیا ہے ۔ یہ حیرت بھری نظریں ہیں ۔ دنیا کو یقین نہیں آرہا ۔ وہ احترام آمیز تجسس نظروں سے پاکستان کو دیکھ رہی ہے ۔
2۔ تعلقات میں تواز ن پیدا کرنا : پاکستان کے لیے دوسرے ممالک کے ساتھ سیاسی جغرافیائی توازن پیدا کرناضروری ہے ۔ چین بلاشبہ ہمارا اچھے برے وقت کا دوست ہے لیکن ہمیں اس کے علاوہ بھی تعلقات بنانے ہیں ‘ چاہے وہ ''موسمی ‘‘ ہی کیوں نہ ہوں ۔ روس اور بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات کی بحالی شان دار حکمت عملی ہے ۔امریکا کے پاکستان کے ساتھ ہاتھ کرنے کے باوجود ضروری ہے کہ اس کے ساتھ معاشی تعلقات استوار رکھے جائیں ۔ روس میں مقیم امریکی تجزیہ کارانڈریو کوریبکو(Andrew Korybko) نے 23 جولائی 2021 ء کو اپنے مضمون میں تسلیم کیا ہے کہ ''بھارتی ماہرین حیرت سے سوچ رہے ہیں کہ دہلی افغانستان میں بے وقعت کیوں ہوگیا؟ یہ وجہ ہے ۔‘‘وہ ضاحت کرتے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان شراکت داری کانیا میدان قائم ہوا ہے جس کے دوسرے کونوں میں ازبکستان اور امریکہ بھی ہیں۔ اسلام آباد میں مارچ میں ہونے والے نئے سکیورٹی ڈائیلاگ کی وجہ سے یہ پیش رفت سامنے آئی۔ وہ مزید وضاحت کرتے ہیں کہ ان چاروں ممالک کے درمیان ریل کے ذریعے رابطہ تین سو ملین صارفین کی ایک توانا مارکیٹ قائم کرے گا۔ امریکا اور بہت سے دیگر ممالک ان اعدادوشمار کو نظر انداز نہیں کرسکتے ۔
3۔ علاقائی الائنس میں تنوع: پاکستان بہت دیر سے جنوبی ایشیا آزاد تجارتی ایریا (ایس اے ایف ٹی اے)‘ معاشی تعاون کی تنظیم(ای سی او)‘ علاقائی ترقیاتی تعاون (آرسی ڈی)کے فعال ہونے کا منتظر تھا ۔ ممکن ہے کہ ایسا ہوجائے لیکن پاکستان کو دیگر شراکت داروں اور الائنس کی طرف دیکھنے کی بھی ضرورت ہے ۔پاک چین اقتصادی راہداری اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ معاہدے سرمایہ کاری کرنے والے ممالک کو اپنی طرف متوجہ کرسکتے ہیں کیونکہ اس وقت دونوں عالمی طاقتیں(چین اور امریکا) اس کی تجارتی شراکت دار ہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ چھوٹے کھلاڑی جیسا کہ ایران اوربنگلہ دیش بھی سامنے آنے والا موقع کھونا نہیں چاہیں گے ۔ اس کا مطلب ہے کہ انڈیا خود کو اس اقتصادی چوکور سے باہر پائے گا۔ اسی طرح مشرق ِوسطیٰ کے ممالک کے ساتھ بحری راستوں سے تجارتی الائنس قائم کیے جانے ہیں ۔ عمان ‘ کویت‘ قطر ‘ بحرین ‘ برونائی بڑی مارکیٹوں کے ساتھ تجارتی راستوں کی تلاش میں ہیں ۔
عالمی طاقت کو تجارتی جنگ میں زیر کرنے کا چینی ماڈل امریکا کے جنگوں کے ذریعے قبضہ کرنے کے ماڈل سے بہت بہتر اور پائیدار ہے ۔ یقینا پاکستان اتنی بڑی مارکیٹ نہیں جتنا بھارت‘لیکن پاکستان جنوبی ‘ مغربی اور وسطی ایشیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے درمیان ایک گزرگاہ‘ شراکت دار‘ رابطہ کار اورپل کا کردار ادا کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت خطے کے استحکام میں دلچسپی رکھتا ہے ۔اس کے لیے پریشانی یہ ہے کہ اپنی جیت اورپاکستان کی ہار پر مبنی تصور ایک ایسی کشمکش ابھارتاہے جس میں وہ ہر قیمت پر اپنی بالادستی دیکھنا چاہتا ہے۔لیکن نئے عالمی نظام میں اس کے امکانات اب سکڑتے جارہے ہیں۔ پاکستان کو اب وہ امکانات تلاش کرنے ہیں جن کی طرف اس نے اب تک پیش قدمی نہیں کی تھی ۔ اس کا مطلب اُن مارکیٹوں تک رسائی اور رابطے ہیں جنہیں پہلے اس نے چھوڑ دیا تھا ۔ یہ ایک مشکل‘ پرخطر اور کٹھن کام ہے ‘ لیکن جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ نئی منزلوں کی تلاش میں نئی راہوں پر چلنے کا خطرہ مول لینا پڑتا ہے ۔ یہ جغرافیائی معیشت کی راہ ہے جس کی منزل خوش حالی ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں