یہی بیانیہ ہے !

دنیا ایک سٹیج ہے
اور مردو زن تو فقط اس کے فنکار ہیں
سٹیج پر آکر ‘ کھیل دکھاکر رخصت ہوجاتے ہیں
اک انسان کوکتنے ہی کردار ادا کرنے ہیں
عمر بھر میں ( ولیم شیکسپیئر)
یہ شیکسپیئر کے ایک مشہور ڈرامے ''As You Like It‘‘ سے لیے گئے لافانی اشعار ہیں۔ دنیا کے شہری ان الفاظ کی حقیقت سے آشنا ہیں ۔ ان کی نظروں کے سامنے ایک غیر معمولی کہانی کے صفحات پلٹے جارہے ہیں ۔ اس کہانی کے پس پردہ اور بھی بہت سی کہانیاں مچل رہی ہوتی ہیں ۔ دنیا بہت سے ڈراموں کاتھیٹر ہے ۔ ڈرامے کی ہر قسط میں کردار کئی اداکاروں کی صورت دکھائی دیتے ہیں ‘ کبھی اداکاروں کا کردار عنقا ہوتا ہے۔ سکرپٹ سامنے آتا ہے ‘ اس پر نظر ثانی ہوتی ہے‘ اصل کرداروں کی تحسین کی جاتی ہے ‘ گاہے اُنہیں منظر سے غائب بھی کردیا جاتا ہے۔ کبھی وہ بے چہرہ ہوتے ہیں۔ کبھی ایک چہرے پر کئی روپ چڑھا لیتے ہیں ۔ مکالمے خود بولتے ہیں ‘ ابلاغ سنائی دیتا ہے ‘ الفاظ وجد میں آتے ہیں ۔ تھیٹر پر دکھائی دینے والی اداکاری مرکزی موضوع کے گرد گھومتی ہے۔ یہ انتقام‘ محبت اور نفرت کے جذبات کو تحریک دیتا ہے ۔ جذبات سے مغلوب ہوکر ناظرین کبھی اشک بار ہوتے ہیں تو کبھی قہقہے لگانے لگتے ہیں ۔ لوگ قتل بھی ہوتے ہیں اور مرتے بھی ہیں۔ یہ کھیل جاری رہتا ہے ۔
عالمی تھیٹر پرآج کل افغانستان مرکزی سٹیج ہے ۔ بلند دفاتر میں لکھے گئے سکرپٹ نے اس ملک کو لہو لہان کردیا ۔ حقیقت سے دور مکالموں نے اسے بربادکرڈالا ۔ اس ملک کے ساتھ مؤقر دکھائی دینے والے دانشوروں اور پست سوچ رکھنے والے راہ نمائوں نے دائو کھیلا ہے ۔ ہر ڈرامہ اپنے نقطہ عروج کی طرف بڑھتا ہے اور پھر یہ پلٹا بھی کھاتا ہے ۔ دراصل سٹیج پر پیش کیے جانے والے کھیل کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ زیادہ تر اداکاروں کو علم ہی نہیں ہوتا کہ وہ سکرپٹ کے کس ''صفحے ‘‘ پر ہیں ۔ 1980 ء کی دہائی میں روسیوں کی آمد ہوئی اور اب 2021ء میں امریکی رخصت ہوئے ہیں ۔ افغانستان میں سیاست دانوں کی جانچ ہوتی ہے ۔ حملے ‘ قومی ترقی‘ دہشت گردی کی جنگ‘ انسانی بنیادوں پر امداد اور آخر میں سیاسی جغرافیائی نیٹ فلیکس پر ''سیزنل سیریل ‘‘ کا پرامن اختتام۔ ہر سیزن کا اپنا ایک موضوع ہوتا ہے ۔ ہر موضوع اپنا سکرپٹ رکھتا ہے ۔ یہ سکرپٹ دور دراز کے اعلیٰ دفاتر میں ماہرین پر مبنی تھنک ٹینک کی ٹیم لکھتی ہے ۔اداکاروں کا انتخاب البتہ مقامی منظر نامے سے کیا جاتا ہے ۔ مکالموں کا مطلب واضح لیکن مفہوم مخفی ہوتا ہے ۔ لیکن ہر کھیل کا کوئی نہ کوئی اختتام ہوتا ہے۔ ہر تھیٹر ہیجان خیز ہے ۔ افغانستان کے لیے لکھا گیا سکرپٹ خراب ہوگیا ‘ مکالمے خاموش ہوگئے‘الفاظ پر سکتہ طاری ہوگیا۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے بیانیے کی طاقتور مشین کو چیختی ہوئی خاموشی میں کس نے تبدیل کردیا؟
1۔ نجات دہندہ‘ بچانے والا‘ معاون : امریکا کا خود کا سپرمین ہونے کا زعم ایک دیومالائی افسانہ ہے ۔ صدام حسین اور اسامہ جیسے کرداروں سے ممالک کو بچانے کے لیے امریکی طیارے آتے ہیں اور پھر وہ واپسی کی راہ لیتے ہیں ۔ درحقیقت جہاں جہاں اُن کی آمد ہوئی‘ اُن ممالک کا حال پہلے سے بھی زیادہ خراب ہوگیا ۔ اتنا خراب کہ چھپانا مشکل ہے ۔ بیس سال پر محیط افغان جنگ میں ایک اندازے کے مطابق 241,000افراد جاں بحق ہوئے جبکہ ساٹھ لاکھ سے زیادہ بے گھر اور دربدرہیں۔ اُن کے پاس خوراک اور صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ افغانستان کے حوالے سے امریکا او ر اس کے حواریوں کا گھڑا گیا سب سے بڑا جھوٹ شاید ''انسانی بنیادوں پر فراہم کی گئی امداد‘‘ تھا ۔ آج اس ملک میں غربت کا راج ہے ۔ 54.4فیصد افغان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں۔ بیس سال پہلے یہ شرح 33.7فیصد تھی ۔ اس کی وجہ سے کس صنعت میں اضافہ ہورہا ہے ؟ جی ہاں‘ افیون کی کاشت جو 2002ء میں 76,000 ہیکٹرپرہوتی تھی‘ آج 163,000 ہیکٹر پر ہورہی ہے ۔ اس کے باوجود غریب اور مفلوک الحال افغانوں کے لیے امریکی امداد کی کہانیاں کئی عشروں سے بک رہی تھیں۔
2۔ دلایا گیا یقین اور دکھائی دینے والی صورتحال: ایک تصویر ایک ہزار الفاظ سے زیادہ مفہوم رکھتی ہے ۔ امریکا‘ بھارت اور افغان راہ نمائوں ‘ جیسا کہ اشرف غنی پر مشتمل سہ فریقی مثلث کا تھنک ٹینک کی رپورٹوں‘ تصاویر اور ویڈیو زکے ذریعے ابھارا گیا تاثر بہت طاقتور لیکن حقیقت سے دور تھا۔ چند سال قبل امریکی کمانڈوز کا افغانستان میں اتر کر اپنی فتح کا اعلان کرنا ہالی ووڈ کی کسی فلم کا منظر تھا ۔ امریکی کمانڈوکے ہاتھوں اسامہ بن لادن کی ہلاکت بھی وائٹ ہائوس میں صدر اوباما اور ہیلری کلنٹن کی ایک شاہکار''تخلیق ‘‘ تھی ۔
3۔ غاصب‘ فسادی اور لالچی : امریکی آمد کے ساتھ ہی افغانستان میں بمباری‘ ڈرون حملے شروع ہوگئے تو اس کے اتحادی‘ انڈیا اور اسرائیل بھی اس غاصبانہ کھیل میں اس کے شریک ہوگئے ۔ انڈیا کو بڑی تعداد میں بھاری بھرکم ٹھیکے دیے گئے ۔ انڈیا ہی افغان فوج کو تربیت دے رہا تھا ۔ بندوبست کیا تھا‘ بس بدعنوانی کا راج تھا ۔ زیر تربیت اور تربیت یافتہ دستوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر بیان کی گئی ۔ جنہیں فوجی قرار دے کر تربیت دی گئی تھی اُنہوں نے لڑنا نہیں بلکہ بیچنا سیکھا تھا۔ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ''افغانستان پیپرز‘‘ کے مطابق جب شاہ محمو د میا خیل نے قبائلی عمائدین سے پوچھا کہ یہ کس طرح ممکن تھا کہ سکیورٹی فورسز طالبان کو شکست نہ دے سکیں جبکہ فورسز کی تعداد اُن سے چھ گنا زیادہ تھی تو عمائدین کا کہنا تھا کہ سرکاری دستے عوام کی حفاظت کرنے کی بجائے اپنے ہتھیار اور ایندھن فروخت کررہے تھے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اُن کی قیادت اشرف غنی جیسے بدعنوان راہ نمائوں کے ہاتھ میں تھی جو امریکا کے کٹھ پتلی تھنک ٹینک میں تیار کردہ نام نہاد دانشور ہیں ۔ بظاہر سلجھے ہوئے‘ انگریزی بولنے والے لکھار ی اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک کتاب ‘ ''Fixing Failed States‘‘ کے مصنف‘ اشرف غنی جیسے افراد کا اپنا ایجنڈا ہوتا ہے اور جب وہ امریکا کے لیے فائدہ مند نہیں رہتے تو وہ ہیلی کاپٹر میں ڈالر بھر کر غائب ہوجاتے ہیں ۔
یہ کہانی بے نقاب ہوچکی‘ لیکن بیانیہ ابھی ظاہرہونا باقی ہے ۔ افغان کھیل کے کھلاڑی ممکن ہے کہ شکست خوردہ دکھائی دے رہے ہوں لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ دیگر کھلاڑی جیت گئے ہیں ۔ درحقیقت پاکستان نے گزشتہ بیس سال سے اچھا کھیل نہیں کھیلا تھا‘ اب دانائی سے اور اپنے بیانیے کو ذہن میں رکھ کر کھیلنا ہے ۔
1۔ باخبر اور متوجہ رہیں: طالبان کے کنٹرول کے پہلے دو ہفتے پرامن اور پرسکون رہے ہیں لیکن یہ کسی آنے والے طوفان کی خاموشی بھی ہوسکتی ہے ۔ پاکستان کو اس کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ اپنے اتحادیوں ‘ جیسا کہ چین‘ روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو اکٹھا کریں اور اس دوران جنوب مشرقی ایشیا کو بھی نہ بھولیں۔ فرسٹ لائن پر لابی اور دوسری لائن پر بااثر شخصیات کو رکھیں۔ اس سے بیانیے میں جان پیدا ہوگی ۔ مشترکہ آواز نہ صرف بلند آہنگ ہوگی بلکہ اس کا اثر بھی دور رس ہوگا۔ اس کی وجہ سے پاکستان توجہ کا مرکز بن جائے گا۔
2۔ اپنا سکرپٹ خود لکھیں: پاکستان کا سکرپٹ ایک کھلی دستاویز ہونی چاہیے ۔اس میں نئے واقعات کے ظہور کے ساتھ تبدیلی اور ترمیم کی گنجائش ہو۔ وزیر اعظم ستمبر میں اقوا م متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرنے جارہے ہیں ۔ دورے سے پہلے سکرپٹ کی تیاری کی مشق درکار ہوگی ۔ دورے کے دوران اُن کا خطاب ‘ انداز‘ سائیڈ لائنز پر ملاقاتیں اور ان کی رپورٹنگ کے لیے ریسرچ ورک اور بہت عمدہ مارکیٹنگ کی ضرورت ہے ۔
3۔ تیاری کریں‘ کارکردگی دکھائی اور چھا جائیں: نئی افغان حکومت کی تیاری کے ہر مرحلے پر سہولت ‘ روابط ‘ فعالیت اور تجارت کے مواقع سامنے آسکتے ہیں ۔ اس کے لیے ہوم ورک کرنے کی ضرورت ہے ۔ اتحادیوں کے ساتھ مشاورت‘ کنسورشیم کی سروسز کی پیش کش اور دیگر امور میں پاکستان کو مرکزی کردار ادا کرنا چاہیے ‘ لیکن پاکستان تمام عمل کو کنٹرول کرتا دکھائی نہ دے ۔
اصول شکنی اوراقدار کی پامالی سے سبق سیکھا جاتا ہے ۔ پیہم جھوٹ انفرادی لغزش نہیں ‘بدعنوانی کا براہ راست نتیجہ ہوتے ہیں۔ مالیاتی بدعنوانی اس منظم بدعنوانی کا آخری درجے کا اظہار ہے ۔ سب سے پہلا درجہ فکری بدعنوانی کا ہوتا ہے ۔ یہ ارادے اور اس کے لیے استعمال کردہ مقاصد‘ محرکات اور عمل ‘ ایجنڈا اور رویے کے درمیان فرق کا نام ہے۔ جب قابض قوت کا ارادہ حملہ کرنا اور مقبوضہ قوم کا استحصال کرنا ہو تو وہ ظاہر ہے کہ اپنے ارادوں کو پنہاں رکھے گی لیکن جب ارادے مخفی رہیں تو بدعنوانی فروغ پاتی ہے۔ یہ بدعنوانی اوپری سطح سے انفرادی سطح تک سرایت کرتی ہے ۔ کابل پر قبضہ ہونے تک ہر کوئی ہر کسی سے جھوٹ بول رہا تھا ۔ دوٹریلین ڈالر بھی جھوٹے بیانیے کو حقیقت کا سامنا ہونے پر نہ بچا سکے ‘ جیسا کہ افغانستان پیپرز کاتجزیہ کار کہتا ہے ''ماہرین کا کہنا ہے کہ مسئلہ یہ نہیں کہ افسران نے اس ثبوت کو چھپایا کہ یہ جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ مسئلہ یہ تھا کہ افسران کو یقین تھا کہ یہ جنگ جیتی جاسکتی ہے ۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں