اقوام متحدہ میں اتحاد

ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے ۔ عالمی راہنماخطاب کرتے ہیں‘ سفارت کاروں کی ملاقاتیں ہوتی ہیں ‘ عالمی ایجنڈا طے پاتاہے ‘ مسائل کو اجاگر کیا جاتا ہے ‘ ان کے حل تجویز کئے جاتے ہیں ‘ اور یوں دنیا کی سمت واضح ہوجاتی ہے۔ رواں سال اقوام متحدہ کا جنرل اسمبلی کا اجلاس بہت خاص تھا۔ یہ تبدیلی کا وقت تھا ۔ کووڈ کی وجہ سے بند دنیا کھل رہی تھی۔ گزشتہ ایک ڈیڑھ سال میں ہونے والا تجربہ اس صدی کا سب سے بڑا تجربہ تھا ۔ کم و بیش سات ارب افراد کی بیرونی سرگرمیاں معطل ہوگئیں ۔ نادیدہ وائرس نے پوری دنیا میں لاک ڈائون کروادیا۔ دفاتر کی عمارتیں خالی ‘ شاپنگ مالز مقفل‘ گلیاں سنسان ‘ ہوٹل بند اورریستوران ویران ہوگئے جبکہ ہسپتالوں ‘ فٹ پاتھوں اور دریائوں کے کناروں پر دم توڑتے انسان اور بکھری لاشیں دکھائی دینے لگیں۔ ویکسین کی وجہ سے موت کے سناٹے سے زندگی کی مسکراہٹ کی طرف سفرناقابلِ یقین پیش رفت ہے ۔ ڈیڑھ برس بیت گیا۔ حالیہ نسلوں نے ایسا دور پہلے کبھی دیکھا تھا نہ سناتھا۔ مگریک لخت معمول کی دنیا کی طرف واپسی سردست ممکن نہیں ۔
کورونا نے بہت کچھ بے نقاب کردیا۔ پتہ چلا کہ تحقیق کا دامن کتنا تنگ ہے ۔ صحت کی سہولیات کتنی ناکافی ہیں۔ انسان قدرتی آفات کے مقابلے میں کتنا بے بس ہے ۔ مادیت پرستی کی دوڑ کتنی سفاک ہے ‘ لیکن انسانیت ہی انسانوں کا دارو ہے ۔ ماحول کس قدر بگڑ چکا ہے لیکن سب سے بڑھ کر‘ عالمی قیادت کس قدر کوتاہ بیں ہے ۔ سپر ٹیکنالوجی ‘بلند عمارتیں‘ وائٹ ہائوس‘ کابل کے محلات‘سب ناکام ہوگئے ۔دشمنی اور کشمکش کا خاتمہ ‘ ذاتی مفاد سے بلند ہونا اور ماضی کے افعال اور کردار کو بھلا کر آگے بڑھنا وقت کی ضرورت ہے۔ جو اقوام ‘ راہنما اور عوام مستقبل میں اس صدا پرلبیک کہیں گے ‘ وہ تبدیلی کے محرکات اور عامل بن جائیں گے ‘ جبکہ اسے نظر انداز کرنے والے پریشان کن یادوں کی دھند میں غائب ہوتے جائیں گے ۔ بھول جانے اور دوبارہ سیکھنے کا وقت آچکا۔ نسلِ انسانی کے لیے جن چیزوں کو ذہن سے نکال پھینکنے کی ضرورت ہے ‘ وہ یہ ہیں :
1۔ زیادہ سے زیادہ مال سمیٹنے کی دوڑ: کورونا نے لالچ اور طمع کو بے نقاب کردیا ۔ بڑے ممالک ویکسین پر اپنا اجارہ قائم کرتے ہوئے کورونا سے نجات چاہتے ہیں ۔ انڈیا‘ امریکا اور یورپی یونین کے ممالک ''ویکسین سب کے لیے‘‘ کے عزم سے پیچھے ہٹتے ہوئے صرف اپنی آبادیوں کو ویکسین فراہم کرنے پرتوجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں ۔ ان میں سے زیادہ تر ممالک اپنی آبادیوں کو ویکسین کی تیسری یا چوتھی خوراک دینے کی کوشش میں ہیں جبکہ دنیا کی 80 فیصد آبادی کو بمشکل ایک خوراک لگی ہے۔ طبقاتی تقسیم کی یہ لکیر محض ایک خوش فہمی ہے۔وائرس ان مصنوعی حد بندیوں کو نہیں مانتا۔ اقوام متحدہ کا 76واں اجلاس اس وقت منعقد ہورہا ہے جب عالمی برادری ایک اہم موڑ پر ہے ۔ صرف دنیا ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ خود بھی دوراہے پر کھڑی ہے ۔ اقوام متحدہ کو اقوام عالم کے اتحاد کے فقدان کا سامنا ہے ۔ دنیا میں یک طرفہ طور پر کارروائی کرگزرنے کا رجحان غالب ہے ۔ ایک طرف انڈیا کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی کا مرتکب ہے تو دوسری طرف اسرائیل کی فلسطینیوں پر بمباری تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ اس طرح کووڈ کا سال عالمی ابتلا کا سال بن گیا ۔
2۔ چکما دینا اور آنکھوں میں دھول جھو نکنا : جھوٹ بولنا قانونی طور پر جائزہوچکا ۔ زیادہ تر جنگیں ‘ چاہے یہ عراق کی جنگ ہو یا افغانستان کی‘ مسخ شدہ رپورٹوں کو بنیاد بنا کر لڑی گئیں ۔من گھڑت حقائق نے دنیا میں اعتماد کے آئینے میں بال ہی نہیں ڈالا‘ اسے چکنا چور کردیا ہے ۔ مصنوعی طور پر تخلیق کردہ خوش نماالتباس نے مستند تصورات ‘ درست رپورٹوں اور عوام کے حقائق کو پیچھے دھکیل دیا ۔ ضروری ہے کہ جس طرح جعلی کرنسی پر سزا ہے ‘ اسی طرح جعلی اور غلط معلومات پر بھی سزا ہو۔
3۔ فروخت کریں اور خرچ کریں : اگر کسی کا خیال تھا کہ اس عالمی وبا کے بعد دنیا میں دولت کا لالچ تبدیل ہوجائے گا تو وہ درست ہیں ۔ اس میں واقعی ایک تبدیلی رونما ہوئی ہے ۔ یہ لالچ بڑھ کر دولت کی غلامی تک پہنچ گیا ہے ۔ معاشی سرگرمیاں شروع ہوتے ہی قوموں اور تنظیموں نے اندھا دھند خریدوفروخت شروع کردی ہے۔ معاشی گراف میں یک لخت اُتارچڑھائوکی وجہ سے رسد میں طلب کے مقابلے میں قلت بڑھ رہی ہے ۔ بڑھتے ہوئے افراط زر کی وجہ سے رقم کی طلب میں مزید اضافہ ہورہا ہے ۔ ''جیب خالی ہونے تک خرچ کیے جائیں‘‘ کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے ۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس کا بہت شدت سے انتظار کیا جارہا تھا۔ اس سے پہلے 75 واں اجلاس ورچوئل تھا یعنی راہنمائوں نے آن لائن خطاب کیا تھا لیکن رواں برس اسمبلی میں ملی جلی کارروائی دیکھنے میں آئی ۔ بڑے ممالک‘ جیسا کہ امریکا‘برطانیہ وغیرہ کے قائدین نے وہاں جا کر خطاب کیا ۔ اُن کا موضوع زیادہ تر عالمی وبا کے بعد کے مسائل تھے ۔ پاکستان نے اپنے وزیر خارجہ کو جنرل اسمبلی میں بھیجا لیکن وزیر اعظم نے آن لائن خطاب کیا ۔ اگرچہ زیادہ تر افراد کو توقع تھی کہ جو راہنمااجلاس میں ذاتی حیثیت سے موجود ہیں ان کی تقاریر زیادہ موثر اور جان دار ہوں گی لیکن وزیر اعظم عمران خان کے خطاب نے ایک مرتبہ پھر میلہ لوٹ لیا ۔ اُن کی تقریر نے نئے تصورات کا راستہ ہموار کیا کہ اس عالمی وباکے ہاتھوں انسانوں اور انسانیت کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کس طرح کی جاسکتی ہے :
1۔ دوسری سچائی : وزیراعظم عمران خان کی تقریر اگرچہ پہلے سے ریکارڈ کرکے پیش کی گئی تھی لیکن اس نے ناظرین کی تعداد کے حوالے سے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ۔ تین دنوں کے اندر اندر اسے دیکھنے والوں کی تعداد 326,000تک پہنچ گئی ۔ دوسری طرف وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر کو صرف 177,000افراد نے دیکھا ۔ امریکہ‘ چین اور برطانیہ کے راہنمائوں کو دیکھنے والوں کی تعداد اس سے کہیں کم تھی ۔ عمران خان کی تقریر کو اتنی پذیرائی کیوں ملی‘ حالانکہ وہ ذاتی حیثیت میں اجلاس میں موجود نہیں تھے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دوسروں سے مختلف موقف پیش کررہے تھے ۔ اُنہوں نے جنگ کی بجائے امن کی بات کی ۔ افغان مسئلے کا منطقی حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔ اُنہوں نے اختیار کے حوالے سے ''صرف ایک ہے ‘‘ کی بجائے ''سب ایک ہیں‘‘ کی بات کی تھی ۔ زندگی اور موت‘ دونوں حوالوں سے انسانی وقار کو مقدم رکھنے کا کہا تھا ۔ یہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ اقدار ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا تباہی اور غلبہ پانے کی راہ سے گریز کرتے ہوئے سب کو شریک کرتے ہوئے وہ راہ اختیار کرے جس پر سب کا فائدہ ہو۔
2۔ حقیقی فرق پیدا کریں : آج دنیا پہلے سے کہیں زیادہ تقسیم شدہ‘ غیر مساوی اور کشیدہ امتیازی رویوں کی حامل ہے ۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موجودہ صدر ‘ ترکی کے ولکان بوزکر (Volkan Bozkir) کی جگہ مالدیپ کے عبداللہ شاہد عہدہ سنبھال رہے ہیں۔ اُن کے پاس تاریخ کے اس اہم مرحلے پر تبدیلی کی راہ ہموار کرنے کا موقع ہے ۔مسٹر شاہد نے اس اجلاس کی سکیم تجویز کرتے ہوئے : ''امید کے ذریعے بحالی کی طرف قدم اٹھانے‘ کووڈ19سے چھٹکارا پانے‘ اس دنیا کی ضروریات کا خیال رکھنے ‘ عوام کے حقوق کا احترام کرنے ا ور اقوام متحدہ کو دوبارہ توانا بنانے ‘‘ کا ذکر کیا ۔ اس موضوع کا آخری حصہ‘ اقوام متحدہ کو توانا بنانا‘ اہم ہے ۔ اگر یہ ادارہ بھی بڑی طاقتوں کے مفاد کو دیکھتے ہوئے مادیت پرستی کو فروغ دے اور انسانی حقوق کی بحالی سے عاجز ہو تو پھر یہ دوسروں کی اصلاح کس طرح کرسکتا ہے ؟
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے منا ظر بہت دور رس ہیں ۔ وائٹ ہائوس میں مودی کے خیر مقدم کو بھارت امریکا اتحاد کے نئے دور کے آغاز سے تعبیر کیا گیا ۔ یہ نیا نہیں ۔ نہ ہی اسے از سرِ نو نیا بنایاگیا تھا ۔ اس کے نتیجے میں جانی پہچانی کشمکش‘ تقسیم ‘ جنگ‘ قتل وغارت گری کی دنیا وجود میں آئے گی ۔ وہ دنیا جہاں رقم تعلیم اور وبائی امراض کی روک تھام کے لیے تحقیق کی بجائے کی بجائے اسلحے کی دوڑ اور نت نئے ہتھیاروں کی خریداری پر خرچ ہوتی ہے۔ ان حالات میں جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو ایک مرتبہ پھر انسانی ہمدردی اور اقدار کے لیے شمع روشن ہے جس کی روشنی اُس وقت جگمگانا شروع ہوئی جب بھارت کے جارحانہ اور تیز و تند رویے کے مقابلے میں اقوام متحدہ میں پاکستان کی افسرصائمہ سلیم نے بڑے پرسکون انداز سے منطقی اور مدلل جواب دیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں