پنڈورا باکس کا کھلنا

پنڈورا کی کہانی ایک افسانوی حقیقت ہے۔ یونانی اساطیر میں لیڈی پنڈورا نے تجسس کے مارے وہ ڈبا کھول دیا جو کسی نے اس کے شوہر کے حوالے کیا تھا۔ اس کے کھلنے سے انسانیت جسمانی اور جذباتی مصائب کا شکار ہو گئی۔ پنڈورا پیپرز انٹر نیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹوجرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کے تجسس کا نتیجہ ہیں۔ وہ عالمی اشرافیہ کے چھپائے ہوئے کالے دھن کا کھرا تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں ۔ابھی دیکھا جانا ہے کہ کیا اس کے نتیجے میں دنیا مسائل کا شکار ہونے جارہی ہے ؟ پاناما لیکس اور پیراڈائزپیپرز کی طرح پنڈورا لیکس بھی دولت مند اور طاقتور افراد کے بارے میں ارب ہا خفیہ معلومات پر مشتمل ہے ۔ اس کا حجم ظاہر کرتا ہے کہ اس متمول طبقے کے پاس دولت کی کس قدر فراوانی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے سمندر پار اکائونٹس میں چھپانے کی ضرورت پیش آئی ۔ ان لیکس نے رازداری اور چھپانے کے مقصد کوبھی بے نقاب کردیا۔ اس بندوبست میں پائے جانے والے قانونی سقم کا پتہ چلتا ہے جسے بند کرنے کی ضرورت ہے ۔
پنڈورا لیکس کا حجم پاناما سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ ان کا پھیلائو بھی بہت زیادہ ہے ۔ دنیا کی اڑتیس ریاستوں میں فعال چودہ مختلف سروس فراہم کرنے والوں کا تین ٹیرابائٹس یعنی تین ہزار جی بی ڈیٹا سامنے آیا ہے ۔ کچھ ریکارڈ 1970ء کی دہائی کا بھی ملا لیکن زیادہ تر فائلوں کا تعلق 1996ء سے لے کر 2020ء تک کے عرصے سے ہے۔ اگرچہ پاناما لیکس کہیں زیادہ سنسنی خیز تھیں کیونکہ اُن میں برطانیہ‘ روس‘ مالٹا اور پاکستان کے طاقتور راہ نمائوں کا براہ راست نام آیا تھا۔ وہ راہ نما جنہوںنے اربوں ڈالربیرونی دنیا میں چھپائے تھے۔اس کے نتیجے میں کچھ سربراہان مستعفی ہوگئے ‘ کچھ کو عدالتوں نے عہدوں سے ہٹا دیا۔
پنڈورا لیکس دوسرے درجے کے طاقتور افراد اور ان کے معاونین کے بارے میں ہیں۔ا گرچہ اردن کے بادشاہ کا نام بھی ان میں ملتا ہے ۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ معاونین نے شاہ عبداللہ دوم کو 1995ء سے لے کر 2017ء تک کم از کم تین درجن آف شور کمپنیاں قائم کرنے میں مدددی۔ ا ن کمپنیوں کے ذریعے بادشاہ نے امریکا اور پھر برطانیہ میں 106 ملین ڈالر مالیت کے چودہ گھر خریدے ۔ لیکن پھر بادشاہوں کا فرمان ہی حکم کا درجہ رکھتاہے ۔ بدنامی کے علاوہ فہرست میں موجود افراد کے ساتھ عملی طور پر کچھ نہیں ہوا ہے ‘ کیونکہ :
1: آف شور کمپنی میں ہمیشہ چوری کا مال ہی نہیں ہوتا: آف شور کمپنیاں مالیاتی دنیا کی کالی بھیڑیں کہلاتی ہیں‘ لیکن ضروری نہیں کہ سب میں جرم ملوث ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایسا وسیع مواد سامنے آتا ہے اور تحقیقات کرنے والے اس کا کھوج لگاتے ہیں تو وہ ان کے ناموں اور پتوں کی فہرست مرتب کرتے جاتے ہیں ۔ یہ فہرست میڈیا کی زینت بن جاتی ہے ۔ کوئی بھی اس کی اصلیت جاننے کی زحمت نہیں کرتا۔نادانستگی میں وہ قانونی طور پر کاروبار کرنے والوں کو بھی نقصان پہنچا دیتے ہیں حالانکہ یہ لوگ غیر ملکی سرمایہ کاری کو سہولت ‘ راز داری اور ٹیکس میں آسانی فراہم کرکے کاروبار کرنے کا موقع دیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کاروباری افراد انہیں ترجیح دیتے ہیں ۔ تاہم مسئلہ یہ ہے کہ انہی عوامل کا غلط استعمال کرتے ہوئے ناجائز دولت اور اثاثے چھپائے جاتے ہیں ۔ آف شور کمپنیوں کے اسی غلط استعمال نے ان کے ناجائز ہونے کے تاثر کو تقویت دی ہے ۔
2۔ پرانا اور نامکمل مواد: ایک اور وجہ کہ ان لیکس پر ہمیشہ قانونی کارروائی کیوں نہیں ہوتی ‘ یہ ہے کہ ان کے ذریعے افشا ہونے والا مواد ناکافی ہوتا ہے ۔ زیادہ تر مواد میں ان کمپنیوں کے مالک کا محض نام ہی سامنے آتا ہے ۔ اور جیسا کہ پنڈورا لیکس میں دیکھنے میں آیا‘ ممکن ہے کہ مواد دو عشرے پرانا ہو۔ اس دوران ممکن ہے کہ یہ کمپنیاں بند یا غیر فعال ہوچکی ہوں‘ ایڈریس بدل گیا ہو‘ ملکیت مشکوک ہو‘ ان میں رکھی گئی رقم نکلوا لی گئی ہو‘ وغیرہ۔ ایسے نامکمل شواہد کی وجہ سے ان لیکس کو ٹھوس اور ثابت شدہ حقائق میں تبدیل کرنا مشکل ہوتا ہے ۔
3۔ تحقیقات اور الزام میں سقم : وائٹ کالریعنی مالیاتی جرائم کو ثابت کرنا آسان نہیں ہوتا۔ سمندر پارکمپنیوں کے قیام کے لیے ٹیکس مشیران اور مالیاتی امور کے ماہرین کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں تاکہ اُنہیں قانون کی گرفت سے ہر ممکن حد تک محفوظ بنا لیا جائے۔ سمندرپار اکائونٹس کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک عالمی اتفاقِ رائے درکار ہے جوموجودہ انتشار زدہ عالمی ماحول میں ممکن نہیں۔
قومی دولت لوٹنے والوں اور لوٹی ہوئی دولت محفوظ بنانے والوں کومختلف طریقے اپنا کر کچلا جاسکتا ہے ۔ مشکوک رقم کو ٹھکانے لگانے کے لیے ہی آف شور کمپنیوں کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ جب لوگوں کے پاس بہت سی دولت ہوجو ناجائز ذرائع سے آئی ہو‘ تو اسے چھپانا لازمی ہوجاتا ہے ۔ ہر چند سال بعد ایسی دولت کا سیلاب کسی نہ کسی پنڈورا باکس سے باہر چھلک جاتا ہے۔ میڈیا میں شور مچ جاتا ہے ‘ چند ایک ممالک کوئی نہ کوئی کارروائی کرتے ہیں لیکن جلد ہی یہ لیکس محض میڈیا شہ سرخیوں تک محدود ہوکر نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں ۔ اگر ٹیکس چوروں      کے محفوظ ٹھکانوں کے خلاف سخت کارروائی ہو تو وہ کالے دھن سے آباد نہ ہونے پائیں ۔ کالے دھن کے اس سفر کو روکنے کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات درکار ہیں :
1۔ حقیقی مجرم کو شناخت کریں : پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں پالیسی ساز ہی مرکزی مجرم ہوتے ہیں ۔ کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے قوانین اور پالیسیاں بنائی جاتی ہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے معیشت کو تحفظ دینے کے لیے ریفارمز ایکٹ 1992بنایا تھا جو بیرونی ممالک سے بلاروک ٹوک دولت کی ترسیل کی اجازت دیتا تھا۔ یہ قانون کالے دھن کی مارکیٹ کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ۔ سابق وزیر اعظم کے سوا‘ پاناما لیکس میں شامل دیگر ناموں کو ایف بی آر نے محض معمول کے خطوط لکھنے پر ہی اکتفا کیا ۔ اس پس منظر میں پنڈورا لیکس حکومت کو ایک سنہری موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ ان مجرموں کی شناخت کرکے اُنہیں قرار واقعی سزا دے ۔
2۔ عوامی عہدوں سے ناجائزفائدہ اٹھانے والے خمیازہ بھگتیں : اگر عوامی عہدے رکھنے والوں پر ایسے جرائم ثابت ہوجائیں تو ضروری ہے کہ اُنہیں نہ صرف مالی بلکہ جسمانی سزا بھی ملے ۔ انہیں پکڑنے اور جیلوں میں ڈالنے کے لیے قوانین میں ترامیم ہونی چاہئیں ۔ انہیں قانون سے بچ نکل کر بیرون ملک پناہ لینے کا موقع نہ دیا جائے۔ ایسے اقدامات ضروری ہیں جو ''ڈالروں سے بیگ بھریں اور قانون کو چکما دے کر باہر چلے جائیں ‘‘ کے رجحان کا خاتمہ کردیں۔
3۔ عالمی تعاون سے ٹیکس چوروں کے محفوظ ٹھکانے ختم کیے جائیں: ناجائز دولت کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی درکار ہے ۔ ایمسٹرڈیم کے ایک ریسرچ گروپ CORPNET نے 2017ء میں''سائنٹیفک رپورٹس‘‘ میں ایک جائزہ شائع کیا تھاجس میں چوبیس آف شور مالیاتی مراکز کی نشاندہی کی گئی تھی ‘ ان میں سے زیادہ تر مالٹا‘ برٹش ورجن آئی لینڈ اور ماریشس جیسے علاقوں میں ہیں ۔ ان اکائونٹس میں رکھی گئی دولت ان علاقوں کی معیشت سے بھی کئی گنازیادہ ہوتی ہے ۔اقوام متحدہ کی تجارتی اور ترقیاتی کانفرنس (UNCTAD) کے مطابق 2019ء میں برٹش ورجن آئی لینڈز نے تقریباً 57 ارب999 کروڑ اور 70 لاکھ امریکی ڈالر کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کی۔رسمی طور پر سرمایہ کاری انہیں کینیڈا‘ جرمنی اور فرانس جیسی ترقی یافتہ معیشتوں سے بہتر بنا دیتی ہے‘تاہم ان جزائر میں یہ سرمایہ کاری محض کاغذات میں ہوتی ہے اس لیے اس ملک پر اس سرمایہ کاری کے حقیقی اثرات نہ ہونے کے برابر نظر آتے ہیں۔
ضروری ہے کہ عالمی برداری کالے دھن کی پناہ گاہوں کو بند کرے۔ اس ضمن میں عالمی سطح پر وزیر اعظم عمران خان کی واحد آواز سنائی دیتی ہے ۔ وہ ان ممالک کی لابی قائم کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں جو ایسے مالیاتی سقم کے ہاتھوں نقصان اٹھا رہے ہیں ۔ FACTI ‘جو مالیاتی دیانت اور پائیدار ترقی کا فورم ہے ‘ احتساب اور مالی شفافیت کی ضرورت پر زور دیتا ہے ۔ اس کے لیے طاقتور لابی کی ضرورت ہے تاکہ مالیاتی شفافیت کو بھرپور طریقے سے رائج کیا جائے ۔ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران منقسم دنیا نے بیماری اور انسانی ابتلا کے نتائج کا سامنا کیا ہے ۔ اگر اس سے کوئی سبق سیکھا جاسکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ جب تک ہرکوئی محفوظ نہیں ہوگا‘ کوئی بھی محفوظ نہیں ہوگا۔ بایں ہمہ عالمی ترازو عدم مساوات کے پیمانے رکھتا ہے ۔ دولت مند ممالک کالے دھن کو خوش آمدید کہتے ہیں کیونکہ دولت ان کی طرف آرہی ہوتی ہے‘ لیکن آخرکار یہ اُن کی مالیاتی شفافیت کو بھی دھندلا دیتی ہے ۔ برٹش ورجن آئی لینڈ میں غریب ممالک کے سیاست دانوں کے لوٹے گئے ڈالر چھپائے گئے ہیں لیکن وہیں ہمیں سابق برطانوی وزیر اعظم ‘ ٹونی بلیئر کی دولت بھی دکھائی دیتی ہے ۔ کالادھن وائرس کی طرح ہے ۔ یہ ایک نظام میں سرایت کرکے پورے نظام کو آلودہ کردیتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ صرف لیکس کو افشا ہی نہ کیا جائے بلکہ ہر ایسے سقم ‘ گزرگاہ اورمحفوظ ٹھکانوں کو بھی ختم کیا جائے جو کالے دھن کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں