ویڈیو لیک

بریکنگ نیوز‘ ویڈیو‘ حلف نامہ‘ تصدیق‘ ٹیکسٹ پیغام‘ آڈیوکال‘ سرکاری رپورٹ آجکل مواصلات اس طرح کی بہت سی جہتیں رکھتا ہے۔ کھیلوں سے لے کر کارباری دنیا تک‘ افسروں سے لے کر سیاست دانوں تک‘ زندگی کے ہر شعبے میں سکینڈل‘سقم اور انکشافات کا دور دورہ ہے ۔ خبریں‘ سوشل میڈیا‘ ٹویٹر فیڈز‘ واٹس ایپ ہر چیز کو ایک کلک میں وائرل کرنے کے لیے مؤثر فورم ہیں۔ جتنا بڑا نام‘ اتنی ہی زیادہ رسائی۔ جتنی فحش کہانی اتنی ہی زیادہ پذیرائی ‘ یعنی ریویو اور ری ٹویٹس۔ ویڈیوز جتنی دلکش ہوں گی اس کے ناظرین اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ برائی اپنی طرف کھینچتی ہے‘ سیاہ کاری کشش رکھتی ہے۔ ظلم سے نفرت کی جاتی ہے۔ یہ تمام عناصر مل کر ایک بلاک بسٹر بناتے ہیں جو ریکارڈ توڑ فروخت رکھتا ہے ۔
نیٹ فلیکس صارفین کو مشغول رکھنے والے فکشن سے وجود میں آیا ہے ۔ اس کے پیچھے کارفرماتصور یہ ہے کہ لوگوں کو تفریح اور راحت پہنچانے والی کہانیوں کے ذریعے حقیقت سے دور کر دیا جائے ۔ سیریل کے ناظرین بہت دیر تک اس کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔ افسانوی دنیا کی آزادی کی وجہ سے بہت سی کہانیوں میں احمقانہ صورت حال پیش کی جاتی ہے۔ یہ حقیقت سے بہت دور دکھائی دیتی ہیں۔ سوشل میڈیا کی ویڈیو گرافی اور مواد وائرل ہونے کی وجہ سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے تاہم بعض مقامات پر فکشن اور حقیقت باہم گلے ملتے دکھائی دیتے ہیں۔''ہاؤس آف کارڈز‘‘ جیسے سیاسی سیریل اس وقت تک مبالغہ آرائی لگتے ہیں جب تک کہ آپ ان کا پاکستان کی سیاست سے موازنہ نہ کریں۔ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک مضحکہ خیز سیاسی تھرلر دکھائی دیتاہے‘ فرق یہ ہے کہ امریکہ میں یہ سیریل فکشن ہو سکتا ہے جبکہ پاکستان میں یہ ایک ایسا رئیلٹی شو ہے جو فکشن سے بڑا ہے۔ یہ اس نہج تک کیوں پہنچ گیا جہاں اس نے پستی اور گھٹیا پن کی نئی حدوں کو چھو لیا؟اس کی کئی وجوہات ہیں ‘جیسا کہ:
1۔ کئی دہائیوں کی سیاسی بلیک میلنگ: سیاست زمانۂ قدیم سے گندی رہی ہے۔سوشل میڈیا نے اسے تاریک دنیا میں دھکیل دیا ہے ۔ ویڈیوز اور پیغامات اس رفتار سے گردش کرتے ہیں کہ جب تک سچ سامنے آتا ہے‘ جھوٹ سچ بن چکا ہوتاہے۔ ایک وقت تھا کہ یہ انٹیلی جنس ایجنسیاں پیشہ ورانہ فرض کے طور پر کچھ کالوں کو ٹیپ کرتی تھیں اور سکیورٹی کے مقاصد کے لیے خفیہ کیمرے رکھتی تھیں۔ پھر یہ ملٹری بمقابلہ سویلین گیم بن گیا۔ بدعنوان لیڈراپنے غیر قانونی لین دین کی وجہ سے استعمال ہوئے۔ شہباز شریف کی جسٹس عبدالقیوم سے اپنی مرضی کا فیصلے کی خواہش کا اظہار کرنے کی مشہور آڈیو لیک ایک اہم معاملہ تھا۔ اس کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ جیسے ہی اس طرح کے آڈیوز‘ویڈیوز عام ہوئے تو اس میں شامل لوگ پیچھے ہٹ گئے۔ انہیں ڈر تھا کہ سیاسی جماعتیں ان لوگوں کو شرمناک الزامات میں پھنسا دیں گی اور غیر اخلاقی حرکتوں کی خفیہ ویڈیوز بنائی جائیں گی اور من مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے ان کا استعمال کیا جائے گا۔احتساب جج ارشد ملک کی ویڈیو اور جسٹس (ر) ثاقب نثارکی آڈیو لیکس مثال ہیں کہ کس طرح برسوں بعد اس مواد کوسیاسی اثر و رسوخ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔
2۔ فکری بدعنوانی کی نئی پستی: ویڈیو لیکس کی حقیقت تک پہنچنا ضروری ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ مصنفین‘ اینکرز‘ ماہرین اور سوشل میڈیا ٹرولز کی ایک لابی ہے جو ویڈیو پر ایسا شور مچاتی ہے‘ چیختی چلاتی ہے‘ ری ٹویٹ کرتی چلی جاتی ہے کہ اصلیت کھلنے سے پہلے ہی ویڈیو ٹاک شوز‘ ٹویٹر اور واٹس ایپ گروپس پر تنقید کا ہدف بن جاتی ہے۔ اس مافیا کی ایک تازہ مثال یہ تھی کہ جب پاکستان سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے ایک کارکن نے چین کی سیاسی معیشت کی مصنف یوئن یوین اینگ کو اپنی کتاب ''چائناز گلڈڈ ایج‘‘ سے یہ کہتے ہوئے غلط حوالہ نقل کیا کہ مصنفہ نے کہا ہے کہ کسی حد تک مالیاتی بدعنوانی نے چین اور امریکا میں معاشی شرح نمو بڑھا نے میں کردار ادا کیا تو مصنفہ نے فوراً ہی اس کا جواب دیا کیونکہ وہ کسی قیمت پر بدعنوانی کی حمایت کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھیں ۔ یہ بہت ہی شرمناک صورت حال تھی لیکن افسوسناک بات یہ تھی کہ معروف ادیبوں اور دانشوروں نے کس طرح مذکورہ کارکن کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ گروہ غلطیوں کے دفاع اور اسے جائز قرار دینے کے لیے ہر حد تک جاتا ہے۔ یہ پاکستان میں فکری بدعنوانی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
3۔ ہائبرڈ جنگ کے پیادے: پاکستان بین الاقوامی طاقتوں کے لیے جیو سٹریٹجک ہدف ہے اور ممکن ہے کہ یہ رہے گا جبکہ ایم کیو ایم کے بانی کو جس طرح بیرون ملک پناہ دی گئی اس سے پتہ چلتا ہے کہ اداروں کے لیے مفرور سیاسی مجرموں کا احتساب کتنا مشکل ہے۔ بیوروکریسی اور اس کی دانستہ نااہلی کے بارے میں شکایت کا پس منظر یہی ہے۔ وہ منصوبوں اور پروگراموں کو روکنے‘ تاخیر اور خراب کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کو بین الاقوامی ایجنسیوں نے تمام اخراجات کی مد میں سکالرشپ‘ منافع بخش مشاورتی اسائنمنٹس اور بیرونی ممالک میں جگہ کی پیش کش کی ہوتی ہے۔ بدلے میں وہ پالیسی کے بگاڑ‘ نفاذ کی تباہی اور حکمرانی کی ناکامیوں کے کھیل کے مہرے بن جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس قدر فطری اور منطقی طور پر کیا جاتا ہے کہ وہ ہر حکومت کے خاتمے پر بچ نکلتے ہیں جبکہ ملک ناکامی کی ایک اور سیڑھی اتر چکا ہوتا ہے۔
کیا تمام کھیل ہاتھ سے نکل چکا؟ کیا ہر کوشش بے کار ہے؟ کیا صورت حال جوں کی توں ہے؟ قنوطیت پسند ناامیدی کی تصویر کشی کرنے میں مصروف ہے‘ لیکن مصائب میں ہی مواقع نکلتے ہیں۔ ملک کو ان عوامل پر غور کرنے کی ضرورت ہے :
1۔ حقیقت واضح ہے: سوشل میڈیا جہاں جھوٹ پھیلانے میں مدد کرتا ہے تو اسے سچ پھیلانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ رکاوٹ یہ ہے کہ ہمارے جیسے معاشرے میں جہاں کئی دہائیوں سے اخلاقی تنزلی ہوئی‘ جھوٹ پھیلتا گیا اور اس کے حامی سچ سے زیادہ ہوگئے۔ اس لیے ویڈیو کا لیک ہونا اہم ہے۔ ایک سابق چیف جسٹس کے بیان نے دراصل لانچ کرنے والی لابی کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ یہ کٹ اینڈ پیسٹ کا کام ہے۔ اب اسے اسلام آباد ہائی کورٹ نے اٹھایا ہے اور اسے شائع کرنے والے اخبار کو اس کی صداقت کا جواز پیش کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ اس کیس کو مجرموں کو بے نقاب کرنے اور جعلی خبریں پھیلانے والوں کو سزا دینے کی مثال بنانے کی ضرورت ہے۔
2۔ مدت کے آخری مرحلے میں جرأت مندانہ راستہ اختیار کریں۔حکومت کو اپنے اصلاحاتی ایجنڈے پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی مدت دوسال سے بھی کم رہ گئی ہے ‘ اس لیے کچھ مؤثر اقدامات درکار ہیں۔ معیشت بنیادی مسئلہ ہے اور افراط زر بنیادی رکاوٹ ہے۔ ہر وزارت کے پاس کم از کم دو پرکشش عوامی منصوبے ہونے چاہئیں جو لوگوں کی زندگی کو آسان بنائیں۔ منصوبوں کی بروقت تکمیل کو یقینی بنانے کے لیے فاسٹ ٹریک اپروچ اپنانے کی ضرورت ہے۔
3۔ مافیا کو بے نقاب کرنا: ملک کے ہر شعبے میں مافیاز موجود ہیں۔ صنعتوں میں کارٹلز‘ اداروں میں لابیاں‘ میڈیا میں گروہ بندی‘ بیوروکریسی میں دھڑے بازی۔ قانونی نظام کے لچک دار ہونے کی وجہ سے انہیں بے نقاب ہونے اور سزا دینے میں وقت لگے گا۔ دریں اثنا‘ معاشرے میں انہیں شرمندہ کرنے کے لیے ویڈیو مہم چلائی جائے تاکہ وہ معاشرے کے لیے ناقابل قبول ہوتے جائیں ۔
ہمیں بنیادی امور پر واپس آنا ہوگا۔ قابل قبول اور ناقابل قبول رویے میں فرق پیدا کرنا ہوگا۔ خوفناک بلیک میلنگ کے خلاف نفرت پیدا کرنا ہوگی۔ باوقار طرز عمل کی ان اقدار کو واپس لانا ہوگا جو ایک مہذب معاشرے کو وحشی معاشرے سے ممتاز کرتی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں