شرمناک

''جب بڑا مقصد درپیش ہوتو نہ مجھے کسی شرم ہوتی ہے اور نہ حیا‘‘۔ یہ کہنا ہے اے جے جیکبز کا۔ تاہم پچھتاوا، شرم اور ندامت انسان اور حیوان کے درمیان تمیز کرنے والی حدود ہیں۔ جب ہم اس امتیاز کو کھو دیتے ہیں تو گویا اپنی انسانیت کھو دیتے ہیں۔ جب ہم سیالکوٹ کے ظلم پر شرم کے بجائے فخر محسوس کرتے ہیں تو ہم خدا کی پست مخلوق سے بھی بدتر ہوجاتے ہیں۔ سیالکوٹ میں جو کچھ ہوا‘ وہ بیان سے باہر ہے۔ یہ بیمار ذہنوں، غلط فہمی پر مبنی نام نہاد مذہبی عصبیت اور بھٹکی ہوئی وفاداری کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے سفاکیت، جنونیت، حیوانیت اور درندگی کا ننگا مظاہرہ تھا۔ اگر ہم اس پر خاموش رہے تو درحقیقت ہم اس ہولناک اور المناک جرم کے معاون قرار پائیں گے۔
ہمارا سر شرم سے زیادہ جھک گیا۔ شرم آتی ہے کہ ہمارے ہم وطنوں نے ایسے شخص کوبہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کرقتل کردیا اور پھر اس کی لاش کو آگ لگادی جو صرف اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھا رہا تھا۔ ایک آدمی‘ جو اردو نہیں پڑھ سکتا تھا اور اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ مذکورہ سٹیکر یا پوسٹر پر کیا لکھا ہے‘ جسے اس نے ہٹانے کو کہا۔ ایک آدمی‘ جس نے انہیں ان کی نوکری دی اور کمانے کا موقع فراہم کیا تھا۔ جو انہیں بہتر کارکن بننے کی تربیت دے رہا تھا‘ان میں نظم و ضبط اور کام کی اخلاقیات جیسی اقدار کو ابھار رہا تھا۔ جو پاکستان کو اس شعبے میں بڑا برآمد کنندہ بننے میں مدد دے رہا تھا۔ جس کے اپنے ساتھی اس کی دیانتداری کی ضمانت دیتے ہیں۔ جو دو جوان بیٹوں کا باپ تھا۔ ایک ایسے ملک سے تعلق رکھنے والا شخص جو ہمارے نابینا افراد کو آنکھوں کا سب سے بڑا عطیہ دینے والا ملک ہے۔ ہم دیوانگی، بے حسی اور سنگ دلی کے اس نہج تک کیونکرپہنچے ؟
1۔ فکری تاریکی کی دہائیاں: بیکار، ناخواندہ اور بند ذہن شیطان کا کارخانہ ہے۔ پاکستان کی کہانی تعلیم سے محرومی کی کہانی ہے۔ مارشل لا ادوار ہوں یا جمہوری حکومتیں‘ سب نے عوام کو لاعلم رکھا۔ عوام انسان ہونے کے معنی سے ناواقف رہے۔ انسانی حقوق سے لاعلمی کا چلن عام رہا۔ قانون کی حکمرانی سے نابلد رہے بلکہ فکری ترقی کی سے ناواقفیت پر نازاں رہے۔ خالی دماغوں کو ایجنڈے پر مبنی سکرپٹ کے مطابق ڈھالنا اور پلانٹ کرنا آسان ہوتا ہے۔ ایک بے خبر ذہن عام طور پر سوال نہیں کرتا۔ مذہب پر بالخصوص سوال نہیں اٹھاتا۔ اس لیے دوسرے ذہنوں پر قابو پانے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ اس پر اسی کی مہر لگائی جائے۔ خام ذہنوں میں یہ تصور سرایت کردیا جاتا ہے کہ اس مذہبی عمل پر کبھی سوال نہ اٹھائیں۔اندھی عقیدت کی فصل کاشت کی جاتی ہے جو فہم و فراست اور تحقیق اور تلاش کی صلاحیتوں کو کچل دیتی ہے۔ جہالت لوگوں کو مسخر کرنے اور دور بیٹھ کر کنٹرول کرنے کا بہترین ہتھیار ہے۔ یہ ذہنوں کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے کا بہترین آلہ ہے۔ صحیح اور غلط میں تمیز کرنے کی انسانی صلاحیت کو بوجوہ تبدیل کردیا جاتا ہے۔ مذہب، زبان، نسل کی بنیاد پر فرقہ وارانہ گروہوں کے عروج نے ملک میں بہت بڑی تقسیم پیدا کر رکھی ہے۔ اس نے قطبیت کو جنم دیا جو کسی بھی وقت تنازعات، جذباتی رد عمل اورتباہ کن ذہنیت کا آتش فشاں بھڑکا سکتی ہے۔
2۔ مذہب کا سیاسی استعمال: سیاست دانوں نے اپنی مہموں اور حکومتوں کو آگے بڑھانے کے لیے مذہب کا استعمال کیا۔ بھٹو دور کا خاتمہ اس کے ساتھ ہوا کہ وہ اپنی حکومت کو بچانے اور اپوزیشن کو روکنے کے لیے ملک کو اسلامی بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ضیاء الحق ایک آمر حکمران تھے۔ انہوں نے اپنی حکمرانی کے جواز کیلئے مذہب کو استعمال کیا۔ مذہبی گروہ بنانے اور انہیں سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے ان کے انداز نے پاکستانی سیاست اور ہماری بین الاقوامی حیثیت کو شدید نقصان پہنچایا۔ ایم کیو ایم (لندن)کی دہشت گردی پر جنرل مشرف کے نرم موقف نے پاکستان میں نسلی تقسیم کو جنم دیا۔ ہر جمہوری حکمران نے اپنی حکومت بچانے کے لیے ان گروہوں کی غیر قانونی سرگرمیوں پر سمجھوتا کیا۔ وہ ان گروہوں کے پاس موجود ہجوم کی طاقت سے خوفزدہ رہے ہیں۔ بے قابو اور بپھراہواہجوم قانون کو اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے۔اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں شہری ہلاکتیں ہو سکتی ہیں جو حکومتیں برداشت نہیں کر سکتیں۔ یہ گروہ اپنی بے رحم دہشت گردی کی دھمکی کی بنیاد پر حکومتوں کو اپنے مطالبات ماننے کیلئے بلیک میل کرتے ہیں۔
3۔ غربت اور ناانصافی: فوری طور پر آپے سے باہر ہوکر تشددکی راہ اختیار کرنے کا سبب گھٹن زدہ زندگی ہے۔ لاکھوں نوجوان ٹِک ٹِک دیکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔ وڈیو تقریریں سنتے ہیں اور خالی پیٹ اور خالی دماغ انہیں مایوس اورشدت پسند بنادیتا ہے۔ وہ کسی بھی موقع پر کود پڑنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ اسلام آباد میں دو سال قبل جے یو آئی ایف کے دھرنے کے مناظر اس بڑی محرومی کی عکاسی کرتے تھے۔ اس دھرنے میں زیادہ تر نوجوان سخت موسم کے باوجود اپنے قیام سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ مفت کھانا حاصل کرنا، پارکوں میں جھولے لینا اور کھیل کھیلنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ زندگی کی ان سرگرمیوں میں ان حصہ کتنا کم رہا ہے۔مسرت سے محروم محض تین وقت کے کھانے پر قانع زندگی ایسے ہنگاموں کی منتظر رہتی ہے۔
وقتاً فوقتاً کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے جو معاشرے کو ہلا کر رکھ دیتا ہے اور حکومتوں کو جھنجوڑ دیتا ہے۔ ہجوم کا تشدد، دہشت گرد حملے، بچوں کی عصمت دری، نور مقدم کا قتل‘ سبھی کچھ ہفتوں تک سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بنتے ہیں۔ پھر عدالتی، قانونی اور دیگر سماجی رکاوٹیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ زخم پر مرہم رکھنے والے جزوقتی ہنگامی اقدامات کیے جاتے ہیں، اور انہی کو کافی سمجھاجاتا ہے۔ اس دوران ملک بے حس سکون کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ ان مسائل کا تدارک کرنے کے لیے طویل المدت اور گہرائی تک سرائیت کرنے والے اقدامات درکار ہیں۔
1۔ کھلا ذہن: ذہن صرف وہی دیکھتے ہیں جو ان کے سامنے باربار پیش کیا جائے۔ دیگر کسی معلومات کی اجازت نہ ہو۔ ضروری ہے کہ متنوع معلومات تک رسائی ممکن بنائی جائے۔ اس کے لیے معلومات کے بہائو اور تعلیم میں بہت بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ واحد قومی نصاب جس کی میڈیا کے ایک حصے میں مذمت کی گئی ہے‘ اس کی ایک مثال ہے کہ یہ کام کتنا مشکل ہے۔ جس کی ہمیں توقع تھی کہ مدرسہ کے سربراہان کی طرف سے زبردست مخالفت کی جائے گی لیکن حیرت انگیز طور پر سب سے زیادہ مخالفت ہماری اشرافیہ کی طرف سے ہو رہی ہے۔ اعتراضات حقیقی ہوسکتے ہیں لیکن صرف دو انتہاؤں کے درمیان توازن پیدا کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اگرچہ اشرافیہ اردو زبان کو ذریعۂ تعلیم، تصویروں میں مقامی لباس پہننے، لازمی مذہبی مواد سے بدکتی ہے، لیکن وہ اس بات کی پروا نہیں کرتی کہ وہ ایک اقلیت ہے جس نے اکثریت پر مسلط ہونے کی کوشش کی ہے۔
2۔ قانون میں موجود سقم دور کرنا: ہمارے ہاں دوسوسال پرانا نظامِ عدل کام کررہا ہے جس نے انصاف کے عمل کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ مقدمات کا فیصلہ ہونے میں کئی عشرے لگ جاتے ہیں‘ اکثر فیصلہ اثر و رسوخ پر ہوتا ہے‘ بعض مواقع پر مقدمات کو جان بوجھ کر زیر التوا رکھا جاتا ہے‘ کیس کا ثبوت من گھڑت ہوتا ہے‘ کیس کے گواہ کسی کے ایما پر پیش ہوتے یا غائب ہو جاتے ہیں۔ قانونی خامیوں کو ختم کرنا اور عدالتی نظام کو صاف کرنا وہ کام ہے جو کسی نے نہیں کیا۔ یہ حکومت بھی جدوجہد میں ہے لیکن اس ضمن میں بہت کم کام کیا جاسکا ہے۔ قانون ساز خود قانون کی راہ سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں۔ جب آرڈیننس پاس ہوتے ہیں تو جمہوریت کا رونا روتے ہیں۔ اگر یہ حکومت فوری انصاف کیلئے کوئی قانون بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اس سے دیگر اصلاحات کی منزلیں طے ہوں گی۔
3۔ سماجی آگاہی پیدا کرنا: سیالکوٹ واقعہ کا مثبت پہلو یہ تھا کہ ہر طبقے نے اس کی مذمت کی۔ یہ اتنا چونکا دینے والا تھا کہ اس کے حامی بھی خاموش ہیں۔ اس فضا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مذہب کی آڑ میں قتل کو برداشت نہ کرنے کی سماجی سوچ کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ سری لنکن منیجر کو بچانے کی کوشش کرنے والے کو ایوارڈ دینے کا وزیر اعظم کا اشارہ اس خوفناک دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک بہترین حوصلہ افزائی ہے۔ تاجر برادری کا متاثرہ خاندان کو تنخواہ جاری رکھنے کے ساتھ ایک لاکھ ڈالر ادا کرنے کا فیصلہ بہت اچھا قدم ہے۔ اب جس چیز کی ضرورت ہے وہ ایک سماجی بیداری کے پروگرام کی ہے کہ کس طرح یہ حرکتیں ہم سب کی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں۔
یہ اپنی روح کے اندر جھانکنے اور خود احتسابی کا مرحلہ ہے۔ مقامِ فکر ہے کہ رد عمل کے خوف کی وجہ سے کس طرح ہم ننگی سفاکیت کو دیکھ کر بھی منہ پھیر لیتے ہیں۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہم دن دہاڑے ہونے والے تشدد کے تماشائی بن جاتے ہیں۔ یہ قومی بے حسی ایک بہت بڑے خطرے کی نشان دہی کرتی ہے۔ ہمارے سامنے سچائی کا سامنے کرنے کا موقع ہے۔ کیا ہم حیوانی طرزِعمل کا مظاہرہ کرتے اور اسے برداشت کرتے رہیں گے یا ہم اس شرمناک سفاکیت کا ہاتھ روکنے کے لیے کھڑے ہوں گے جس نے انسانیت کے ساتھ ساتھ ہمارے مذہب کا دامن بھی داغ دار کردیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں