یہ غیرمعمولی ہی ہونا تھا

19دسمبر 2021ء کو افغانستان میں انسانی ہمدردی کی صورتحال پر او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا غیر معمولی اجلاس کئی لحاظ سے غیر معمولی تھا۔ یہ غیر معمولی تھا کیونکہ یہ 40 سال بعد پاکستان میں منعقد ہو رہا تھا۔ یہ اس لحاظ سے بھی غیر معمولی تھا کیونکہ اس میں 57 ممالک نے حصہ لیا اور اس لحاظ سے بھی یہ اجلاس غیر معمولی تھا کیونکہ اس میں 82 وفود نے حصہ لیا۔ یہ غیر معمولی بات تھی کہ افغانستان کے بحران اور اس کے حل پر یکجہتی دیکھنے میں آئی۔ یہ غیرمعمولی بات تھی کہ اعلامیے میں افغانستان میں انسانی تباہی سے بچنے کے لیے فوری مدد کے پختہ عزم اور ایکشن پلان کا اظہار کیاگیا اور امریکا نے بھی اجلاس کے مثبت نتائج کی حمایت کی حالانکہ حمایت نہ کرنے کی وجہ سے اسے باہر رکھا گیا تھا۔ افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ نے ٹویٹ کیا : آج او آئی سی کا ایک نتیجہ خیز اجلاس ہوا۔ امریکہ او آئی سی کے کردار اور شراکت کا پرتپاک خیرمقدم کرتا ہے۔‘‘
اس اجلاس کی فوری ضرورت تھی۔ افغانستان کو تباہ کن کشمکش کا سامنا رہا ہے۔ اس کی سر زمین پر قبضہ کیا گیا‘ اس پرجنگ مسلط کی گئی‘ اسے دہشت گردی نے لہو لہان کیا‘ قبائلی جنگوں نے اس کے وجود پر زخم لگائے ‘ بڑھتی ہوئی بدعنوانی اور امیر اور غریب کے درمیان فرق کے عذاب کو جھیلا۔ دہشت گردی کے خاتمے کی 20 سال کی ناکام حکمت عملی اور طاقت‘ قبضے اور جنگ نے افغان عوام کو مزید تنازعات اور تباہی کے نہ ختم ہونے والے طوفان کی نذر کردیا۔ یہ بات تقریباً ناقابلِ یقین ہے کہ انتہائی معتبر تھنک ٹینکس کی جاری کردہ تحقیق کہہ رہی تھی کہ امریکا افغانستان سے آنکھیں پھیر کر نہ نکل جائے‘ لیکن امریکا نے بالکل یہی کیا۔جلد بازی میں یہاں سے نکل گیا۔ اس کے نتیجے میں افغانستان افراتفری‘ بھوک‘ غربت اور بیماری کا شکار ہوگیا ۔ بچوں اور عورتوں کی حالت قابلِ رحم ہے۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق افغانستان بھوک کے بدترین بحران کا سامنا کر رہا ہے اور اس موسم سرما میں تقریباً ایک کروڑ 40 لاکھ بچوں کے غذائی قلت سے شدید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ملک بھر میں بھوک کے شکار افراد کا علاج کرنے والے ہسپتال تباہی کے دہانے پر ہیں اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے والے تقریباً 2300 مراکز پہلے ہی بند ہیں۔ اس صورتحال کی وجہ مندرجہ ذیل عوامل ہیں :
1۔ ناکامی کا ردعمل : افغانستان میں امریکہ کی ناکامی حیران کن رہی۔ 20 سال کے دوران دوٹریلین ڈالر جھونک دیے گئے۔ ہزاروں امریکی جانوں اور لاکھوں شہریوں کی جانیں ضائع ہوئیں لیکن یہ تمام کاوش لاحاصل رہیں۔ یہ ناکامی امریکیوں کے لیے ایک ایسا ڈنگ ہے جس کی تکلیف طویل عرصے تک رہے گی۔ طالبان دشمن تھے جن کے ساتھ انہیں آخرکار مذاکرات کرنا پڑے۔ اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ افغان فوج اس توہین آمیز طریقے سے ہتھیارڈال دے گی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مکمل رابطہ منقطع کردیا گیا۔ گویا امریکہ طالبان کو سبق سکھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ حکومت میں ناکام ہو جائیں۔ گویا وہ افغان فوج کو سزا دینے کی کوشش کر رہا ہے جس نے طالبان کو تسلیم کیا تھا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے افغانستان کے لوگوں کو یہ کہہ کر طعنہ دیا جائے کہ یہی تمہاری خواہش تھی‘ تم اسی کے مستحق ہو ۔ رد عمل ناپختہ‘ غیر انسانی اور منفی ہے۔ غصے اور انتقامی کارروائی پر مبنی ردعمل منفی نتائج کے علاوہ کچھ نہیں لا سکتا۔
2۔ سفاکانہ انسانی حقوق: افغانستان تقریباً دیوالیہ ہو چکا۔ معیشت منجمد اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری برائے انسانی امور اور ہنگامی امداد کے کوآرڈینیٹر مارٹن گریفتھس نے خبردار کیا ہے کہ افغان معیشت ایک خستہ حال کشتی کی طرح طوفان کی زد میں ہے۔ نیز افغانستان کے ستانوے فیصد لوگ غربت کا شکار ہوسکتے ہیں ۔ اُنہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ایک سال کے اندر افغانستان اپنے جی ڈی پی کا 30 فیصد کھو سکتا ہے۔ مردوں میں بے روزگاری کی شرح دوگنا ہو کر 29 فیصد ہو سکتی ہے۔اس کا مطلب یہ تھا کہ تقریباً 38 ملین لوگ ہمارے دور کی بدترین انسانی تباہی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس سے خواتین کے حقوق وغیرہ کے لیے انسانی حقوق کا مطالبہ ایک پیشگی شرط کے طور پر غیر منطقی نظر آتا ہے کیونکہ کم از کم 20 ملین خواتین بھوک‘ بیماری اور موت کے خطرے میں ہیں۔ یہ مغرب کا قبضہ کرنے اور افراتفری پھیلانے کا کلاسیک فارمولا ہے۔ افغانستان کی معیشت کا 60 فیصد انحصار بیرونی امداد پر تھا۔ مالیاتی لائف لائن بند کر کے وہ انسانی سانسیں بند کررہے ہیں۔ وہ انسانی حقوق کی کیا بات کریں گے؟
3۔ جیوپولیٹکل خدشات: تزویراتی حالات خطے کے سیاسی معروضات پر اثر انداز ہوں گے۔بھارت‘ امریکا‘اسرائیل گٹھ جوڑ کے لیے اس ملک پر کنٹرول ختم ہونا خوف کو جنم دے رہا ہے۔ بھارت نے اس ملک کو بالواسطہ طور پر پاکستان میں دہشت گردی اور تنازعات کی سرپرستی کے لیے استعمال کیا ہے۔ ایک پرامن افغانستان اور وسطی ایشیا کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط کی وجہ سے پاکستان کو سیاسی اور اقتصادی طور پر فائدہ ہوتا ہے۔ چین نے پہلے ہی اس خطے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ چین کی اقتصادی گرفت کے مزید طاقتور ہونے کے امریکی خدشات حقیقی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی اور پھر انسانی حقوق کی آڑ میں اس ملک کو کٹھ پتلی حکومتوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے تاکہ وہ ''ڈو مور‘‘ کی مشہور امریکی گردان کرتے رہیں۔
او آئی سی کی وزرائے خارجہ کونسل کے غیر معمولی اجلاس نے بیانیہ ترتیب دیا اور عمل شروع کر دیا۔ امریکہ اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغان عوام کو بچانے کے لیے انسانی امداد کی فراہمی کے لیے پابندیوں میں نرمی کی ہے۔ کچھ دیگر اہم اقدامات کی ضرورت ہے:
1۔ انتہائی غیر معمولی لائحہ عمل: اوآئی سی کی31 تجاویز میں سے کچھ بہت غیر معمولی اور ایک اہم روڈ میپ پیش کرتی ہیں۔ سب سے اہم تجویز نمبر 13 ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسلامک ڈویلپمنٹ بینک کے زیراہتمام ایک ہیومنٹیرین ٹرسٹ فنڈ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘ جو کہ دیگر بین الاقوامی اداروں کے ساتھ شراکت سمیت افغانستان میں انسانی امداد پہنچانے کے لیے ایک فعال عامل کے طور پر کام کرے گا۔ اس اجلاس نے اس فنڈ کے قیام کی تاریخ مقرر کر دی ہے۔ اس کی قیادت کے لیے ایک خصوصی ایلچی بھی مقرر کیا ہے۔ ان ڈیڈ لائنز پر سختی سے عمل کیا جائے۔
2۔ عملی نفاذ پر غیر معمولی توجہ: کسی اجلاس کو سنجیدگی سے نہ لینے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں پیش کیے گئے اعلامیے اور قرار دادوں پر عمل نہیں کیا جاتا۔ اصل امتحان یہ ہے کہ طے شدہ اقدامات پر عمل ہوتا ہے یا نہیں۔ ان امور کو انجام دینے کے لیے مقرر کردہ خصوصی ایلچی کو اوآئی سی کی خصوصی معاونت حاصل ہونی چاہیے۔ اہم وزرائے خارجہ جو او آئی سی میں مختلف گروپوں کی نمائندگی کر رہے تھے ‘ کو ایک اعلیٰ کمیٹی بنانے کی ضرورت ہے جس کا ہر ماہ اجلاس ہونا چاہیے تاکہ عملی طور پر اس کی نگرانی اور پیشرفت کو تیز کیا جائے۔
3۔ غیر معمولی قیادت کا موقع: یہ اجلاس پاکستان کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان نے افغانستان پر وسطی ایشیا کے ساتھ روابط بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس اجلاس نے پاکستان کو او آئی سی میں بھی سرفہرست ملک بنا دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی قیادت مسلم اُمہ کی حقیقی آواز بننے کے لیے مرکزی حیثیت اختیار کررہی ہے۔ ضروری ہے کہ پاکستان فنڈز اور امداد کے لیے مغرب کے ساتھ رابطے میں کردار ادا کرے۔ اس فنڈ پر مسلسل سوشل میڈیا سٹیٹس اپ ڈیٹ کیا جائے تاکہ دوسرے ممالک کو اپنا حصہ ڈالنے کی ترغیب دی جا سکے۔
بہت سے ماہرین کا خیال تھا کہ افتتاحی اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کی تقریر میں امریکا کے ذکر سے گریز بہتر تھا۔ ایک حقیقی رہنما جرأت مند ہوتا ہے اور وہ جچا تلا خطرہ مول لیتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکہ کے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ اور امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے بھی پاکستان کے تعاون کا اعتراف کیا ہے اور اسے سراہا ہے‘ یہ بذات خود وزیر اعظم عمران خان کی قیادت کی جرأت اور اس مقصد کے لیے عزم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آخر کار تاریخ میں غیر معمولی واقعات کے لیے غیر معمولی قیادت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے: ''اگر آپ کو وہ نتائج حاصل کرنے ہیں جو آپ کو پہلے کبھی نہیں ملے تھے تو آپ کو وہ کو شش کرنی ہے جو پہلے کبھی نہیں کی تھی ۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں