وزیر اعظم کا دورہ ٔ چین

کچھ دورے اہمیت رکھتے ہیں‘ کچھ دورے انتہائی اہمیت رکھتے ہیںجیسا کہ وزیر اعظم عمران خان کا حالیہ دورہ ٔ چین۔ یہ دورہ انتہائی اہم موقع اور انتہائی اہم تزویراتی موڑ پر ہوا اور یہ علاقائی اور عالمی سطح پر ایک نئی جہت کی نشاندہی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی میڈیا اس کو منفی رنگ دینے کے لیے باؤلا ہورہا تھا‘ شاید یہی وجہ ہے کہ مغرب اسے دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔ اس لیے دورے سے پہلے اور دورے کے بعد کے عمل اور ردعمل کا جائزہ لینا اہم ہے۔ درحقیقت یہ خارجہ پالیسی کی نہیں قوم کی جیت ہے۔یہ مزید مواقع پیدا کرنے کا موقع ہے؛چنانچہ اس پر مزید بحث‘ مکالمے اور گفتگو کی ضرورت ہے۔
پاکستان اور چین کی دوستی مثالی ہے اور ہر دورہ اسے مزید مضبوط کرتا ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں یہ چوتھا دورہ ہے اور ہر دورہ کامیاب رہا‘ تاہم اس دورے نے امکانات کے افق وسیع تر کردیے ۔ اسے سی پیک کا فیز ٹوکہا گیا‘لیکن درج ذیل منفرد واقعات کی وجہ سے یہ دورہ اس سے کہیں بلند ہے:
1۔ جامع ترین اعلامیہ: ملاقات کے بعد اعلامیہ جاری کرنا معمول کی بات ہے ۔ اس سے باہمی تعاون اور احترام کا اظہار ہوتا ہے ۔ اس مکالمے نے ارادے‘ تعلق کے پیمانے اور گہرائی‘ موقف اورمستقبل کے امکانات کے خدوخال بتائے۔ چینی قیادت نے کبھی اتنی تفصیل سے بات کرتے ہوئے سیاسی‘ اقتصادی اور جیو سٹریٹجک وابستگی کا اس قدر واضح خاکہ پیش نہیں کیا تھا۔ 33 نکاتی بیان انتہائی ہمہ گیر اور جامع تھا۔ ہر اہم مسئلے پر ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے سے شروع ہوکر کشمیر اور افغانستان کے بارے میں انتہائی واضح موقف پر ختم ہونے والے مشترکہ بیان نے پرانی شراکت داری کی تصویر میں نئے اور گہرے رنگ بھرے۔ اس بیان نے دونوں ممالک کے بڑھتے ہوئے تعاون کو بھی اجاگر کیا جو وسیع تر باہم مستقبل کی جھلک لیے ہوئے ہے ۔
2۔ ابھرتی ہوئی پاور پارٹنر شپ: کورونا کے دنوں میں ملاقاتیں رسمی مصافحے یا گلے ملنے سے زیادہ اس پیرائے میں دیکھی جاتی ہیں کہ ملاقات سے کیا اشارے سامنے آئے اور طرفین کی باڈی لینگوئج کیا تھی۔مذکورہ دورے میں دونوں رہنمائوں کی باڈی لینگوئج سے نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی مسائل سے نمٹنے میں ایک دوسرے پر مکمل اعتماد اور بھروسے کا اظہار ہوتا تھا ۔در حقیقت چینی صدر نے صرف دو رہنماؤں یعنی صدر پوتن اور وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی۔اس سے نئی شراکت داری تشکیل دینے والی علاقائی قیادت کی مثلث کا اظہار ہوتا ہے۔ پاکستان افغان امورکی قیادت کر رہا ہے اور پورے وسطی ایشیا کو اس میں شامل کر رہا ہے۔ جب دونوں رہنماؤں کی ملاقات ہوئی تو پاکستان بہت سے باہمی معاملات پر خطے کی نمائندگی بھی کر رہا تھا۔ اس سے دنیا کو یہ پیغام گیا کہ پاکستان اب علاقائی چیلنجز میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ امکانات سے بھرپور ایک بڑی مارکیٹ کی گزرگاہ بھی ہے۔
3۔ منصوبہ بندی کے ساتھ منتخب کردہ شعبہ جات: اس سے پہلے شکایات تھیں کہ دونوں ممالک کے درمیان بلند وبالا لیکن ناقابل ِعمل معاہدے ہوتے ہیں۔ تاخیر اور رکاوٹوں کی وجہ سے وعدے پورے نہیں ہوپاتے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ مکمل ہوم ورک کیا گیا کہ کن شعبوں میں چینی دیگر ممالک میں سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں اور ان کی پاکستان کو ضرورت بھی ہے۔ دورے سے قبل اس ہوم ورک نے ان منصوبوں پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد کی جو بنیادی ڈھانچے سے باہر تھے۔ سات شعبوں کا انتخاب کیا گیا‘ جن میں ٹیکسٹائل‘ فارماسیوٹیکل‘ آٹو‘ آئی ٹی‘ جوتا سازی‘ فرنیچراور زراعت وغیرہ شامل ہیں۔ ان منصوبوں کو سرمایہ کاروں کی دلچسپی کے مطابق بنایا گیا تھا۔ زرعی شعبے میں تعاون پاکستان کی پیداواری صلاحیت میں انقلاب برپا کرسکتا ہے ۔
4۔ ہر مسئلے کا اسی کے مطابق حل: دورے کی اہم بات وزیراعظم کی پاکستان میں 20 اہم چینی سرمایہ کار تنظیموں کے ساتھ ون ٹو ون ملاقاتیں تھیں۔ یہ ملاقاتیں بہت مصروف سرگرمی تھیں ۔ ہر سرمایہ کار کے ہر مسئلے کو وزیر اعظم نے خود نوٹ کیا اور ان کا حل بھی پیش کیا۔ منصوبے شروع کرنے کے لیے درکار 37 محکموں کی اجازت کو تعمیل کے عمل کے ذریعے آسان بنایا گیا۔ سرمایہ کار اس بات پر حیران رہ گئے کہ کس طرح ایک وزیر اعظم نے ذاتی طور پر اس خلا کو پورا کرنے کے لیے خود ذمہ داری لی ہے۔ایسا اُنہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
5۔ خصوصی اقتصادی زون: سی پیک کا تصور بنیادی طور پر تعمیرو ترقی کے منصوبے کے طور پر تھا۔ اس دورے میں اس کا رخ صنعتی ترقی کے منصوبے کی طرف موڑ دیاگیا۔ اس مقصد کے لیے پچھلی حکومت کے پاس کوئی فریم ورک نہیں تھا۔ 2018ء تک ایک بھی سپیشل اکنامک زون نہیں بنایا گیا۔ اب دو سپیشل اکنامک زون قائم کئے گئے ہیں جن میں 28 نئے صنعتی یونٹس کام کررہے ہیں۔ یہ تو ابھی شروعات ہے۔ صنعت پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ مینوفیکچرنگ اور روزگار کا ماڈل‘ جس نے چین کو ریکارڈ مدت میں غربت کم کرنے میں مدد فراہم کی‘ وہ ایک ایسا اقدام بن جائے گا جس کی تقلید کے لیے وزیر اعظم نے عہد کررکھا ہے۔
6۔ وسطی ایشیا کی قیادت اور نمائندگی: وزیر اعظم نے سائیڈ لائنز پر وسطی ایشیائی رہنماؤں سے ملاقات کی۔ اہم بات یہ تھی کہ افغانستان کے معاملے پر وسطی ایشیائی رہنماؤں کے ساتھ بہت زیادہ مصروف رہنے پر وزیراعظم پاکستان متحد کرنے والے عنصر کے طور پر ابھرے ہیں ۔ ان کا کردار تنازعات نمٹاکر امن اور تجارت کی طرف توجہ مرکوز کرنے کے لیے پورے خطے کو اکٹھا کرنے والے مدبر لیڈر کا ہے۔ چینی صدر نے وہاں موجود وسطی ایشیائی رہنماؤں سے ملاقات نہیں کی لیکن پاکستانی وزیر اعظم سے افغانستان اور دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا۔ اس سے خطے میں پاکستان کی حیثیت بلند ہوئی ہے۔
7۔ روسی دورے کی دعوت: ایک اور اہم پیش رفت یہ تھی کہ بیجنگ میں صدر پوتن کے ساتھ سائڈ لائنز ملاقات کے بجائے وزیر اعظم کو روسی صدر نے فروری کے آخری ہفتے میں ماسکو کے دورے کی دعوت دی ہے۔ یہ ایک اہم بات ہے۔ 22 سال میں کسی بھی پاکستانی رہنما کا روس کا پہلا دورہ ہوگا۔ چین کے فوراً بعدروس کا دورہ کرنے سے پاکستان کے خطے میں کلیدی کھلاڑی ہونے کے تصور کو مزید تقویت ملے گی۔ اسلامو فوبیا کے خلاف موقف اختیار کرنے پر وزیر اعظم کی جانب سے روسی سربراہ کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ اس دورے کے جغرافیائی‘ سماجی اور ثقافتی اثرات بھی ہوں گے۔
علاقائی اور عالمی سطح پر پاکستان کے عروج کے لیے فروری ایک بہترین مہینہ رہا ہے۔ دنیا کی دو بڑی طاقتوں کو اب پاکستان کی ضرورت صرف سیاسی وجوہات کی بنا پر نہیں بلکہ معاشی‘ سماجی ثقافتی اور تزویراتی وجوہات کی بنا پر ہے۔ مارچ میں او آئی سی کا سربراہی اجلاس اسلام آباد میں ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم پہلے ہی ایک غیرمعمولی کام کر چکے ہیں۔ اسلامو فوبیا پر ہر فورم پر آواز اٹھا کر انہوں نے روسی اور کینیڈین لیڈروں کو اس کے خلاف آواز اٹھانے پر آمادہ کیا۔ او آئی سی سربراہی اجلاس یقیناً اس کا اعتراف کرتے ہوئے اسے مرکزی نقطہ بنائے گا۔ چند سال پہلے الگ تھلگ رہنے کے بعد اب پاکستان خطے اور دنیا کی دلچسپی کا مرکز بن رہا ہے۔ اس سے قبل پاکستان سے صرف منفی خبریں آتی تھیں ۔ اب صورت حال تبدیل ہوچکی ہے۔ کورونا میں پاکستان کے کرائسس مینجمنٹ اور فلسطین اور افغانستان کے مسائل کے سیاسی حل کی بات نے اسے بین الاقوامی سطح پر نئی عزت دی ہے۔ اس موقع پرکچھ مزید فعال سفارت کاری‘ ذہانت اور سمارٹ کمیونی کیشن سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ وبائی مرض کے بعد کی دنیا میں پاکستان اہم ابھرتی ہوئی قوم کے طور پر سامنے آئے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں