دورۂ روس: تصور اور اہمیت

''دورہ نہ کرو، کرو، ہو سکتا ہے کہ کرنا ضروری ہو، جائو، نہیں‘ منسوخ کر دو، ملتوی کر دو، کیوں، کیوں نہیں، کس لیے، کس لیے نہیں؟‘‘۔
وزیراعظم پاکستان کے حالیہ دورۂ روس پر یہ کچھ تبصرے اور سوالات ہیں جو مختلف حلقوں سے اٹھے یا اٹھائے گئے۔ بہت سوں کا خیال تھا کہ یہ دورہ غیر ضروری ہو گا۔ کچھ نے اسے تباہی کا پیش خیمہ قرار دیا، کچھ نے خوف و خدشات کا اظہار کیا، کچھ نے مخالفت برائے مخالفت کی‘ لیکن تمام تر بلاجواز تنقید اور بے بنیاد شور شرابے کے باوجود‘ یہ دورہ اپنے طے شدہ شیڈول اور پاکستان کی خارجہ پالیسی کی توقعات کے عین مطابق ہوا۔ درحقیقت دورے کے دوران روس کے یوکرین پر حملے کی وجہ سے حالات کا تلاطم بڑھ گیا۔ اس عالم میں بھی وزیراعظم صاحب اپنے وعدے سے پیچھے نہ ہٹے۔ اس پرکچھ حلقوں کی طرف سے تنقید بھی کی گئی۔ ان تمام قیاس آرائیوں کے باوجود دورے کے کچھ نتائج ایسے بھی برآمد ہوئے جو روایتی سفارت کاری کے دائرے سے بھی آگے تھے۔
یہ خوف کہ روسی حملہ کر دیں گے‘ کچھ عرصے سے موجود رہا ہے۔ درحقیقت سرد جنگ کا دور اس خدشے سے لبریز تھا۔ یہاں تک کہ 1966ء میں ہالی وڈ کی ایک مشہور فلم بنی جس کا نام تھا ''The Russians are coming, the Russians are coming‘‘۔ یہ فلم سوویت یونین کے حملے کے خوف کو ختم کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس فلم میں دکھایا گیا تھا کہ ایک سوویت آبدوز نیو انگلینڈ کے جزیرے کے ساحل پر ایک ریت کی پٹی میں پھنس جاتی ہے‘ اس کا کمانڈر اپنے سیکنڈ اِن کمانڈ، لیفٹیننٹ روزانوف کو حکم دیتا ہے کہ کوئی بین الاقوامی واقعہ پیش آنے سے پہلے اسے دوبارہ حرکت میں لایا جائے۔ روزانوف جزیرے کے مقامی لوگوں سے مدد لیتا ہے۔ ان لوگوں میں ایک پولیس چیف اور چھٹیاں گزارنے والا ٹیلی وژن کا ایک رائٹر بھی شامل ہوتے ہیں۔ روسی کمانڈر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ اور اس کا عملہ ناروے کے ملاح ہیں۔ وہ اُن کا اشتراکی حملے کا خوف دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ فلم بنیادی طور پر ایک کامیڈی مووی ہے لیکن اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ بے اعتمادی کتنی دور رس اور گہری ہوتی ہے۔ دو بڑی طاقتوں کے مابین اس عدم اعتماد نے سینکڑوں چھوٹے ممالک کو بری طرح متاثر کیا۔ تنازعات جنگوں کو جنم دیتے ہیں اور جنگیں مزید تنازعات کو جنم دیتی ہیں، جس سے سب کے لیے نقصان ہی برآمد ہوتا ہے۔ موجودہ تنازع کی جڑیں سہ پہلو ہیں:
1۔ سپرپاوربننے کی جدوجہد: دنیا میں توسیع اور کنٹرول کی خواہش موجود ہے اور رہے گی اور یہی حملوں، قبضوں اور جنگوں کی اصل وجہ ہے۔ یوکرین‘ سوویت یونین کی سلطنت کے زوال کے بعد علیحدہ ہونے والا آخری ملک تھا۔ مغرب کے لیے یوکرین کی حمایت اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے ایک علامتی حیثیت رکھتی ہے۔ روس کے لیے یہ بات تکلیف دہ ہے کہ اس کی ناک کے نیچے مغرب اپنا اثر و رسوخ بڑھا لے۔ 2015ء کے انتخابات میں یوکرین میں روس کے حامی صدر کی جگہ صدر زیلنسکی اقتدار میں آئے، جو روس کے برعکس مغرب کے حامی ہیں۔ یوکرین کو نیٹو کی رکنیت دینے کا لالچ دیا گیا۔ روسی خدشات وقت کے ساتھ ساتھ اس حد تک بڑھ گئے کہ جنگ ناگزیر ہو گئی۔ صدر پوتن اس بات کی گارنٹی چاہتے ہیں کہ یوکرین کو نیٹو میں شامل نہیں کیا جائے گا مگر امریکا اور مغرب یہ گارنٹی دینے کو تیار نہیں۔
2۔ جنگی معیشت: کورونا نے امریکی اور مغربی معیشتوں پر تباہ کن اثرات مرتب کیے ہیں۔ طلب غیر مستحکم ہے، سپلائی غیر یقینی ہے اور دونوں خطے وبائی امراض اور اس کے مضر اثرات سے نمٹنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ اس سے عدم تحفظ بڑھ گیا جس پر قابو پانے کے لیے انہوں نے جیو پولیٹیکل چالیں آزمائیں۔ ان کا مقصد اپنی بالادستی قائم رکھنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یوکرین کو نیٹو ایسوسی ایشن میں شامل کرنے کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہے۔ نیٹو معاہدے کا بنیادی حصہ آرٹیکل 5 ہے۔ اس کی رو سے نیٹو کے کسی بھی ملک پر حملہ پورے اتحاد پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ اگر یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کے بعد روس یوکرین پر حملہ کرتا تو یہ معاہدہ مغرب کو روس پر حملہ کرنے کا موقع فراہم کرتا۔ اس کی وجہ سے نیٹو ممالک کی دفاعی صنعت کو مزید تقویت ملتی اور روسی خطرے کا مقابلہ کرنے پر مقبولیت بھی حاصل ہو جاتی۔
3۔ گیس کی کشش: یورپ کا بہت زیادہ انحصار روسی گیس کی فراہمی پر ہے۔ روس کے بعد یوکرین کے پاس یورپ میں گیس کے دوسرے بڑے ذخائر ہیں؛ تاہم ان ذخائر میں سے صرف دو فیصد ہی استعمال ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یوکرین کے پاس ان ذخائر سے استفادہ کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔ ان بڑے ذخائر کو ترقی یافتہ گیس کی نقل و حمل اور ٹرانزٹ انفراسٹرکچر کے ساتھ جوڑیں تو یوکرین عراق اور ایران کے تیل کی طرح توانائی پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ مغرب گیس کے ذخائر پر ''قبضہ‘‘ کرنا پسند کرے گا اور روس ایسا ہونے نہیں دے گا۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک پیچیدہ موڑ پر ہے۔ افغانستان میں حالات کی تبدیلی کے بعد سے پاکستان وسطی ایشیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ اس نے بنگلہ دیش کے علاوہ ایران اور افغانستان جیسے پڑوسیوں کے ساتھ بھی بہتر تعلقات استوار کیے ہیں۔ اسی لیے پہلے چین اور پھر روس کے دورے کو گہری دلچسپی سے دیکھا گیا۔ روس کا دورہ اور بھی اہم تھا کیونکہ یہ ایک ایسے مرحلے پر ہو رہا تھا جہاں اہم سٹیک ہولڈرز کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا تھا۔ اس جرأت مندانہ اور سٹریٹیجک اقدام سے فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان کو کیا کرنے کی ضرورت ہے:
1۔ قومی مفاد پر توجہ: کیا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے؟ کیا آپ کو مجبور کیا جا رہا ہے؟ کیا آپ متاثر ہو رہے ہیں؟ سٹیک ہولڈرز کے ذریعے‘ جن کا مفاد کہیں اور ہے۔ جن کے مفادات موجودہ سٹیک سے مطابقت نہیں رکھتے۔ جو آپ کی مجبوری کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ڈومور سے نکل کر ''مزید نہیں‘‘ کے دور میں داخل ہو چکا ہے۔ یہ خارجہ پالیسی میں ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ سب سے بڑی تبدیلی اور خطرہ جنگ کے دوران روس میں داخل ہونا نہیں تھا بلکہ ان قوتوں کے خلاف مؤقف اختیار کرنا تھا جو آپ کو اپنے ایجنڈے پر عمل کرنے سے روکنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ماضی میں ایک فون کال کافی ہوتی تھی۔ اس بار کوئی کال یا طاقت دورے کو تبدیل نہیں کر سکی۔ اس نے واقعی پاکستان کے کئی دہائیوں تک بیرونی طاقتوں کے تابع رہنے کا اشارہ دیا ہے۔ اس سے مختصر مدت کے لیے کچھ سخت نتائج سامنے آ سکتے ہیں لیکن یہ ایک خودمختار پاکستان کے وژن کی طرف بہت بڑی تبدیلی ہو گی۔
2۔ سب کے ساتھ روابط: دوسری اہم بات یہ ہے کہ کسی ایک گروہ کی طرف مائل ہونے کے اس تصور کو ختم کیا جائے۔ افغانستان اور یوکرین کی صورتِ حال کی وجہ سے حالیہ دوروں کا کثرت سے ایک خطے میں ہونا ہے۔ جو بھی بلاک پاکستان کو آن بورڈ لینا چاہتا ہے‘ اسے خوش آمدید کہا جانا چاہیے لیکن نہ تو پاکستان توجہ مانگے گا اور نہ ہی کسی ایسے اقدام سے انکار کرے گا جس سے ملک کو مفادات کے تحفظ میں مدد ملے۔ دورے کے بعد کہا گیا کہ پاکستان کو جنگ پر افسوس ہے، اور یہ بات چیت کے ذریعے تنازعات کے حل پر یقین رکھتا ہے۔ نئے امریکی سفیر کی پاکستان کے ساتھ تجارت وغیرہ کے تعلقات کو مضبوط کرنے کی امید کے ساتھ تقرری ایک مثبت پیش رفت ہے۔
3۔ اقتصادی اور جغرافیائی امکانات کی تلاش: روسی صدر کے ساتھ ملاقات سب نے دیکھی۔ کس طرح روسی صدر نے وزیراعظم کو دوسرے سربراہان مملکت کے برعکس مساوی طور پر بٹھایا‘ یہ اندازِ نشست بہت کچھ کہتا ہے۔ تین گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات سب کے لیے اہم تھی۔ پاکستان کے لیے یقینا بنیادی فائدہ گیس کے ذخائر، گندم کی خریداری اور دیگر کئی صنعتی منصوبوں تک رسائی کا اقتصادی موقع تھا۔ مواقع کا میٹرکس نتیجہ خیز اور متنوع ہونا چاہیے اور اس میں دوسرے ممالک کی شمولیت کو تلاش کرنا چاہیے۔ روسی مارکیٹیں مواقع کا وہ تنوع پیدا کریں گی جس کی پاکستان کو کسی ایک بلاک پر انحصار کم کرنے کے لیے ضرورت ہے۔
تاریخ میں شاذ و نادر ہی عالمی برادری نے پاکستان کو لیڈر یا مثال کے طور پر پیش کیا ہو‘ مگر اب اسے سراہا جا رہا ہے۔ کورونا میں عالمی ادارۂ صحت نے اسے بہترین پریکٹس ماڈل قرار دیا۔ موسمیاتی تبدیلی پر برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کہا کہ ہمیں پاکستان سے سیکھنا چاہیے۔ غربت کے خاتمے کے حوالے سے عالمی بینک نے کہا کہ احساس پروگرام دنیا کے تین اہم سماجی ترقی کے پروگراموں میں شامل ہے۔ بل گیٹس NCOC سے سیکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کو سٹریٹیجک احترام حاصل ہونے کے بعد امریکا اس کے بارے میں اپنے موقف پر نظرثانی کر سکتا ہے۔ بہت سے لوگ اس پر یقین کرنا پسند نہیں کریں گے، بہت سے دوسرے اس کے برعکس منظر نامے کو پینٹ کرنے کی کوشش کریں گے لیکن جھوٹی عکاسی پاکستان کے عروج کی حقیقت کو اب نہیں چھپا سکتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں