سزا کے بغیر جرم

1866ء میں لکھا گیا '' جرم اور سزا ‘‘ فیوڈور دوستوفسکی کے عظیم ناولوں میں سے ایک ہے ۔یہ ایک غریب روسی طالب علم کی ذہنی کشمکش کی کہانی ہے جو ایک بے ایمان سود خور بوڑھی عورت کو لوٹنے اور قتل کرنے کا منصوبہ بناتا ہے۔ اس کا جواز یہ تھا کہ وہ اس رقم کو عظیم کاموں کے لیے استعمال کرے گا‘ لیکن قتل کے بعد اس کے جرم اور ہولناکی نے اسے داخلی اور خارجی نتائج کے سامنے لا کھڑا کیا۔ ایک عام شخص اور معاشرے کو یہی توقع ہوتی ہے کہ جرم ہوگا تو سزا بھی ملے گی لیکن جب جرم کا انعام ملے تو کیا ہوگا؟ اور پھر جب جرائم کرنے والے ہی کسی ملک کے ''نام نہاد‘‘ لیڈر ہوں تو کیاہوگا؟ جب مجرموں کا ٹولہ خود قانون ساز ہوتو کیا ہوگا؟ قانون کی زد میں آنے والے ہی قانون ساز ہوں !
یہ وہ سوالات ہیں جن کا اندرونی گہرائی تک جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔یہ وہ سوالات ہیں جو کسی معاشرے کی بنیاد کے علاوہ مستقبل کاتعین کرتے ہیں۔ پاکستان اس کی بہترین مثال ہے کہ کس طرح مجرموں کو نوازا گیا اور انہیں اعلیٰ عہدے دیے گئے۔ پچھلی چار دہائیوں میں بارہا ایسا ہوا ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ غلط کاری معمول بن گئی۔ اس پر سوال اٹھانا بھی جرم بن جاتا ہے۔ اسے احمقانہ مثالیت پسندی قرار دیا جاتا ہے۔ آمروں اور نام نہاد جمہوریت پسندوں کے زیر اقتدار پاکستان میں ہمیشہ اعلیٰ سطح پر دیانتداری کا قحط رہا ہے۔ زیادہ تر حکومتوں کو بدعنوانی اور قانون کی حکمرانی کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہٹا دیا گیا ۔ دو اہم جماعتوں یعنی پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ایک دوسرے پر بدعنوانی کے الزامات عائد کیے‘ مقدمات درج کیے اور پھر مقدمات کو بند کرکے سمجھوتا کر لیا۔ ان کا احتساب کرنے کے دعوے دار‘ پرویز مشرف نے بھی این آر او دیا اور مذکورہ جماعتوں پر تقریباً 5000 کیسز بند کروادیے۔ پاکستان تحریک انصاف حکومت کا دور شارٹ سرکٹ تھا کیونکہ احتساب کا ہدف موجودہ وزیر اعظم سمیت سرکردہ مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنا تھا۔ کابینہ کے 34 میں سے 24 ارکان کو یا تو ضمانت پر یا کرپشن کے الزامات کی زد میں دیکھنا خوفناک ہے۔ ہم انحطاط کی اس سطح پر کیوں پہنچے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے:
1 ۔ قانون سازہی قانون شکن ہیں: خرابی اوپر کی سطح سے نمودار ہوتی ہے ۔ جب حکمرانی‘احتساب اور شفافیت کے لیے قانون بنانے والے خود ہی قانون شکن بن جائیں تو ملک میں ہر طرف خرابیوں کی فصل اُگ پڑتی ہے۔ سب سے واضح مثال بدعنوانی پر قابو پانے والے قوانین ہیں۔ اس حکومت سے پہلے کا قومی احتساب بیورو تقریباً ناکارہ ہو چکا تھا۔ اس کے قوانین نے بدعنوانوں کے لیے اتنے راستے کھول رکھے تھے کہ شاید ہی کوئی پکڑا جائے۔ تحریک انصاف اور باقی جماعتوں کے درمیان اصل جھگڑا اُس وقت پیدا ہوا جب پی ٹی آئی حکومت نیب قوانین میں ترمیم کر رہی تھی۔ اس خوف سے کہ قوانین سخت ہو جائیں گے‘ فریقین اکٹھے ہو گئے اور پھرغیر ملکی مفادات کی مداخلت نے موجودہ حکومت کا خاتمہ کر دیا ۔ یہاں تک کہ جب طاقتور پکڑے جاتے ہیں تو انہیں اپنے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق ''ایگزیکٹو میڈیکل جیل‘‘ یعنی ان کے گھر میں قید یا بہتر کلاس کی جیلوںکا فائدہ ملتا ہے۔
2۔ بڑے کھیل میں پیادوں کا کردار ادا کرنے والے: ترقی یافتہ دنیا میں قانون کی حکمرانی مضبوط اداروں کے ذریعے عمل میں آتی ہے مگر پاکستان میں بعض ادارے طاقتوروں کے اشارے پر چلتے ہیں۔ تاثر عام ہے کہ قانون اور انصاف کے ادارے بھی حکومتوں یا آمروں کے خدمت گار رہے ہیں۔ موجودہ وزیراعظم اور سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کی جسٹس عبدالقیوم کو مشہور آڈیو کال اس کی وضاحت کرتی ہے۔ موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی ایف آئی اے اور پولیس کے اعلیٰ افسران کا بغیر کسی منطق کے تبادلہ کیا جا رہا تھا۔ ریاستی اداروں میں اس مداخلت سے میرٹ‘ شفافیت اور انصاف کا بول بالا ایک خواب بن کر رہ جاتا ہے۔اس صورتحال نے انصاف کے نظام کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔
3 ۔ قومی مفادات پر سمجھوتا: سمجھوتا کرنے والے رہنما مفادات پر ملک و قوم کو دائو پر لگا دیتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان جیسے ممالک ‘ جو بڑی طاقتوں کے لیے میدانِ جنگ ہیں‘میںدیانت دار اور آزاد سوچ رکھنے والے لیڈروں کا وجود گوارا نہیں۔ امریکہ تاریخی طور پر ایسے لیڈروں کی سرپرستی کرتا ہے جو بدعنوان اور اس کی طرف جھکائو رکھنے والے ہیں۔ پاکستان میں امریکی امداد کا حکومتوں کی طرف سے غلط استعمال کیا گیا لیکن اس کی وجہ سے امریکہ کو خطے میں مداخلت کا موقع ملا۔ افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے پاکستان کے اڈے اور راستے استعمال کرنے پر امریکہ کا اصرار کوئی راز نہیں ۔ ماضی کی حکومتوں نے امداد اور مراعات کے بدلے تعمیل کی پالیسی اپنائی۔ پی ٹی آئی حکومت کا ایسا کرنے سے انکار یقینی طور پر اس عجیب اور بے مثال حکومت کی تبدیلی سے جڑا ہوا ہے۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان اسی چکر سے گزرتا رہے گا جس طرح ایک حکومت کو بدعنوانی پر ہٹایا گیا تو اس کے بعد بننے والی دوسری حکومت بھی بدعنوانی کے الزام کی لپیٹ میں آجائے گی۔ ایسا نہیں ہے ۔ تحریک انصاف کی حکومت اور پچھلی حکومتوں کو ہٹائے جانے میں بہت فرق ہے۔ ان کے درمیان کوئی مناسبت نہیں :
1۔ حکومت کی تبدیلی کا عجیب وغریب طریقہ کار: جس انداز میں یہ حکومت گئی اور نئی آئی یہ عمل نہ صرف انتہائی تعجب خیزتھا بلکہ اس کی وجہ سے ہنگامہ بھی کھڑا ہوگیا ۔ اراکین ِپارلیمنٹ کی کھلے عام خریدو فروخت کی گئی۔ سندھ ہاؤس اور ہوٹلوں میں انہیں قید کرکے رکھا گیا۔ اتحادی اچانک اپوزیشن کیمپ میں چلے گئے۔ چودہ اپوزیشن جماعتوں کا صرف ایک پارٹی کو ہٹانے کے لیے ہاتھ ملانا آسانی سے ہضم نہیں ہورہا۔ مراسلے میں امریکی غصے سے بچنے کی پیشگی شرط کے طور پر عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عمران خان کو ہٹانے کا ذکر کیا گیا ۔ اس سے عوامی غم و غصے کی ایسی لہر ابھری جس کے اترنے کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔
2۔ کھلے میڈیا کی دنیا: سوشل میڈیا کی دنیا ایک کلک کی دوری پر ہے۔ کووڈ پابندیوں کے دوران بورس جانسن کے پارٹی گیٹ سکینڈل نے انہیں اپنے عہدے سے تقریباً ہٹا دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں گزشتہ دو ہفتوں سے ہونے والے دھماکہ خیز واقعات ہر پاکستانی تک پہنچ چکے ہیں‘ چاہے وہ ملک میں تھا یا بیرونِ ملک۔ شدید مباحثوں‘ زبردست ویڈیوز اور ماہرین کے مسلسل وی لاگز نے اسے صدی کی اہم ترین جنگ بنا دیا ہے ۔ اس کشمکش میں سوشل میڈیا جنگجو بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے سیاسی مخالفین۔
3۔ قوم چونک کر جاگ اُٹھی ہے: غیر معمولی واقعات پیش آرہے ہیں۔ پاکستان کے زیادہ تر شہریوں کے دل کی دھڑکن سوشل میڈیا سے سنائی دیتی ہے۔ اس سے پہلے ہم نے عوام کی اتنی فطری بے قراری کبھی نہیں دیکھی تھی۔ لوگ پریشان لیکن پرعزم ہیں۔ وہ تاریخ کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ جذبات کا یہ عروج کلیدی فیصلہ ساز ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین نے ان سے کہا ہے کہ وہ اسلام آباد میں ان کی کال کے لیے تیار رہیں اور یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ ان ملک گیر جذبات کا ارتکاز دارالحکومت میں کس شکل میں ہوگا۔
یہ حقیقت کو تسلیم کرنے کا لمحہ ہے۔ یہ قوم کی آزمائش ہے۔ کیا یہ جذبات ایک مرتبہ پھر جھاگ بن کر بیٹھ جائیں گے اور آنے والے برسوں میں ہم پاکستانی عوام میں ایسی ہی بے حسی دیکھیں گے؟ یا یہ جذبہ اتنا مضبوط‘ گہرا اور اثر انگیز ہو گا کہ وہ ایسی تاریخ رقم کر سکے جہاں جرم اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانا فطری امر بن جاتا ہے۔ یہ تاریخ ساز لمحہ ہے۔ ہر پاکستانیوں کے لیے تاریخ رقم کرنے اور تاریخ کا حصہ بننے کا موقع ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں