ممنوع حدود میں در اندازی

''ہش... خاموش، ان معاملات سے گریز ہی بہتر‘پہلو بچا کر نکل جائیں‘ بالکل ٹھیک! لہجہ دھیما رکھیں‘ ایسا ہی کرنا چاہیے تھا‘‘۔ ممنوعہ موضوعات، مباحثوں، اداروں اور افراد کے حوالے سے کچھ اس قسم کے تبصرے سننے کو ملتے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ ممنوعہ موضوعات طے شدہ امور یا قانونی پابندیوں یا سماجی دبائوکی وجہ سے ہوں۔ ذاتی معاملات سے ان کی حساسیت کے پیش نظر گریز کرنا ہی بہتر۔ قانونی معاملات بھی زیرِسماعت ہونے کی وجہ سے بحث کے دائرے سے باہر رکھے جاتے ہیں۔ سیاسی معاملات میںریاست کے ستون سمجھے جانے والے اداروں کی تقدیس خاموش رہنے کا تقاضا کرتی ہے۔ تنازعات کو ایک طرف کردیا جاتا ہے۔ تضادات فائلوں میں گم ہوجاتے ہیں۔ تنازعات کو من پسند پاس ورڈ لگا کر سرد خانے میں ڈال دیا جاتا ہے۔
فوج اور عدلیہ جیسے اداروں کی حساسیت کے سبب آئین میں ان کو یہ تحفظ دیا گیا ہے کہ ان پر بے جا تنقید نہیں کی جاسکتی۔ ان کے معاملات زیرِ بحث نہیں لائے جاسکتے ، انگشت نمائی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ توہین عدالت کے قانون کا تحفظ عدل کے ضامن ادارے کو اسی لیے حاصل ہے کہ لوگ خوامخواہ اسے بے وجہ کے معاملات میں نہ گھسیٹیں۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر لوگ ان کے معاملات میں خاموش رہتے ہیں لیکن ماضی میں دیکھا گیا کہ جب کوئی جج ریٹائر ہوتا تھا تو پھراس کا نام لے کر بھرپور تنقید کی جاتی تھی۔ آئینی تحفظ حاصل ہونے کی وجہ سے فوج کااحترام بھی زیادہ ہے اور اس ادارے سے عوام کی ایک دلی وابستگی بھی ہے۔ لیکن پھر آیا دور سوشل میڈیا کا! فیس بک اور ٹویٹر نے ''کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے ‘‘ کا بھر م چاک کر ڈالا۔ لیکن اصل فرق ٹک ٹاک کا دھماکا تھا۔ ممکن ہے کہ یہ سیاست کے لیے بہت ڈرا دینے والا وقت ہو اور بہت سے کم زور دل احباب اس کی تاب نہ رکھتے ہوں لیکن سچائی سامنے لانے ا ور آزادی کا حقیقی تصور اپنانے کا یہی لمحہ ہے۔ پانچ نئے اسالیب سے اس تبدیلی کا ثبوت ملتا ہے:
1۔ ''کوئی تبدیلی نہیں آرہی‘‘ کا سحر توڑنا : قوم نا امید،بے سمت،بے حال اور بے بس ہو جاتی ہے۔ بے بسی کی یہ کیفیت اس قوم کے لوگوں کو اپنے شکنجے میں پھنسے اور قید میں ہونے کا احساس دلاتی ہے۔ برسوں سے ہم نے پاکستان کو ایک ایسا ملک بنتے دیکھا ہے جو عظیم کارناموں سے زیادہ اپنی بداعمالیوں کے لیے جانا جاتا ہے۔ پاکستانیوں کا پسندیدہ شغل خود ملک پر تنقید ہے۔ ہر شام ملک میں زیادہ تر لوگ اس گراوٹ پر طنز کرتے ہیں جواُنہیں زندگی کے بہت سے شعبوں میں دکھائی دیتی ہے۔ بھاری ممبرشپ رکھنے والے بہت سے قنوطی کلب ہیں جو کسی بھی حقیقی تبدیلی کے امکان کو مسترد کرتے ہیں۔ اپنی کارکردگی کو بیان کرنے اور من پسند حوالے دینے کے لیے ہمسایہ ممالک کے ساتھ موازنہ دانائی کہلاتا ہے۔ جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو سوکھا ہوا نخلِ امید پھر سے ہرا ہونے لگا لیکن انتہائی مسائل کی وجہ سے قنوطی کلب کے ممبران نے توقعات سے زیادہ کا لیبل لگادیا۔ کورونا اور اکانومی مینجمنٹ جیسی کارکردگی‘ جس کا کسی کو وہم و گمان تک نہ تھا‘ نے ہمسایہ ممالک کو پاکستان کے سامنے ''نوآموز‘‘ بنا دیا لیکن اس کامیابی کو ''گورننس کی ناکامیوں‘‘ پر میڈیا حملے کے سامنے مسترد کر دیا گیا۔ اس حکومت کی بے دخلی نے بہت سی بیڑیاں توڑ دی ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے ان مسائل پر کھل کر بحث کی ہے اور اس ملک کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان کی اس وضاحت کو قبول کررہی ہے کہ کس طرح اندرونی اور بیرونی طور پر دوسروں پر انحصار کرنے والا پاکستان اس وقت تک اپنی صلاحیتوں کا اظہار نہیں کرسکتا جب تک انحصار کی بیساکھیاں جھٹک نہیں دیتا۔
2۔ نام نہاد عزت کا بھرم چاک : قوم کی ذہنیت ملک کی عقلِ کل سے تشکیل پاتی ہے۔ یہ دانشور اور پیشہ ور افراد ہیں جو اپنی اعلیٰ تعلیم، مہارت اور کردار کی وجہ سے بیانیہ ساز بنتے ہیں۔ وہ ''غیر جانبدار رائے ساز‘‘بن کرذہنیت کو متاثر کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اگرچہ ذہین دانشور موجود ہیں ان میں سے بہت سے لوگ اپنی عقل کا استعمال کرتے ہوئے اپنی رائے کو مخصوص رنگ دے لیتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کی بات پر یقین کرلیں‘ چاہے وہ صحیح ہو یا غلط۔ معاشرے کے محترم افرادہونے کی وجہ سے لوگ انہیں للکارنے سے ڈرتے ہیں لیکن سوشل میڈیا کی لاٹھی اٹھا کر عوام نے خود ہی اس فکری بدعنوانی کو چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے۔ حال ہی میں ایک باصلاحیت لکھاری ایک مثال بن کر ابھرے ہیں۔ کسی خاص پارٹی کے خلاف لکھنے، ٹویٹ کرنے اور ری ٹویٹ کرنے سے لوگوں پر اُن کے ارادے بے نقاب ہوگئے کہ وہ حکومت کے خلاف تعصب رکھتے ہیں۔ ان کے بہت سے حامی ان کے دفاع کے لیے پہنچ گئے۔ ایک شخص کی وفاقی وزیر کے عہدے کے برابر معاونِ خصوصی کے طور پر تعیناتی نے لوگوں کے لیے ان محترم رائے سازوںسے سوال کرنے اور ان کو بے نقاب کرنے کا دروازہ کھول دیا ہے۔
3۔ طے شدہ حدود میں نقب لگانا: ایک زمانہ تھا جب ان نام نہاد سیاسی مبصرین کے پاس تمام مسائل کا حل دکھائی دیتا تھا۔ یاد رکھیں کہ کس طرح ٹونی بلیئر نے عراق پر حملہ کرنے کی وجہ یہ بیان کی تھی کہ عراق میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیارہیں۔ بعد میں اُنہوں نے اعتراف کیا کہ ان کا فیصلہ ایک غلط مشورے کی بنیاد پر تھا۔ تو اس غلط مشورے کی وجہ سے کئی ملین جانیں تلف ہوئیں اور اربوں ڈالر ضائع ہوگئے۔ ایک اور قلابازی یہ تھی کہ مشرف دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ میں اتحادی بن رہے تھے کیونکہ انہوں نے بمباری کر کے پاکستان کو پتھر کے زمانے میں پہنچا دینے کی دھمکی دی تھی۔ ہم اتحادی بن گئے لیکن انہوں نے پاکستان پر کسی اورطرح سے بمباری کی اور 80 ہزار سے زائد پاکستانی لقمۂ اجل بن گئے اور 150 ارب ڈالر کا معاشی نقصان الگ سے پہنچا۔ یہ اب سچ نہیں ہے! حقیقی خطرات پر چڑھایا جانے والا نقاب جلد ہی اتر جاتا ہے۔ علم اور منطق رکھنے والے بھرم چاک کرتے رہتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے موجودہ تردید میں کہ پی ٹی آئی کی برطرفی کے پیچھے کوئی امریکی سازش نہیں تھی‘ وہ عوام کی طرف سے اٹھائے گئے بہت سے متعلقہ سوالات کا جواب دینے میں ناکام رہے ہیں۔ ایک سوال یہ ہے کہ موجودہ حکومت روس سے سستا پٹرول کیوں نہیں خرید رہی جیسا کہ بھارت نے کیا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ پچھلی حکومت روس کے ساتھ ایم او یو کرنے پر جھوٹ بول رہی ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو معاہدہ کرنے سے اب انہیں کیا چیز روک رہی ہے؟ اس سے ان کی بنائی ہوئی پوری کہانی میں بڑے سوراخ ہو جاتے ہیں۔
4۔ ان کو چیلنج کرنا جنہیں چیلنج نہیں کیا جاسکتا تھا: سب سے حیران کن تبدیلی یہ آئی ہے کہ اداروں پر کھلی اور بعض اوقات پریشان کن بحث کی رسم چل نکلی ہے یہ صرف کھلی بات ہی نہیں بلکہ لوگوں اور اداروں کے ارادے، کارکردگی اور مقاصد پر گفتگو بھی عام ہونے لگی ہے‘ جو مثبت رجحان نہیں۔ ہر روز سوشل میڈیا پر ان لوگوں اور اداروں کو ان کے مینڈیٹ، مقاصد اور وعدوں پر پورا اترنے کی تلقین کرنے، مذمت کرنے اور ان پر زور دینے کا رجحان ہے۔ ہم نے گزشتہ سات عشروں میں ایسا کچھ ہوتے نہیں دیکھا تھا۔
5۔ غیرسیاسی کو سیاسی میں تبدیل کرنا: عام طور پر سیاست پاکستان میں بہت امیر اور بہت غریب کے لیے تھی۔ بہت امیر حتمی طاقت چاہتے تھے اور بہت غریب اپنے ووٹ کے بدلے کچھ فائدہ چاہتے تھے۔ متوسط طبقے نے ابھی ایک دہائی پہلے ہی ووٹ دینا شروع کیا ہے۔ پھر وہ پیشہ ور افراد‘ جن کی تنظیمیں ان سے غیر سیاسی ہونے کا تقاضا کرتی ہیں‘ نے بھی اپنے کھانے کے وقفے کے دوران سیاست پر باتیں کرنا شروع کردیں۔ اپنی عوامی شہرت کا احساس کرتے ہوئے مشہور شخصیات ایک طویل عرصے تک غیر سیاسی رہیں۔ ابھی حال ہی کی بات ہے کہ اداکاروں، گلوکاروں، ادیبوں، موٹیویشنل سپیکروں‘ حتیٰ کہ کھلاڑیوں نے بھی کھل کر کسی سیاسی مسئلے پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے اور ریلیوں میں حصہ لیا ہے۔
ممنوعہ موضوع پر پابندیاں اور اظہار پر کڑا پہرہ ہے۔ ان سے فکری جبر کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ پہرے جذبات اور احساسات کا گلا گھونٹتے ہیں۔ جب ہم ان سے آزاد ہوتے ہیں تبھی ہمیں حقیقی آزادی کی طاقت کا پتا چلتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں