جمہوریت کے ساتھ مذاق

کوئی بیاسی سالہ تھا یا بہتر سالہ‘ عمر دوسال تھی یا دو ماہ‘ بسوں میں سفر کرنے والے تھے یا پیدل چلنے والے‘ اپنے گھروں میں تھے یا گاڑیوں میں‘ گول چکر پر تھے یا ٹریفک کے اشارے پر‘ سب کے ساتھ ایک جیسا سفاکانہ سلوک کیا گیا۔ گیٹ پھلانگے گئے‘ دورازے توڑے گئے‘ آنسو گیس کے شیلوں کی بارش کی گئی‘ وحشیانہ لاٹھی چارج کیا گیا‘ کھڑکیاں توڑی گئیں‘ زخمی کیا گیا‘ خون بہایا گیا۔ یہ کوئی چند سو دہشت گردوںکے خلاف آپریشن نہیں‘ بلکہ معزز شہریوں‘ خواتین‘ جنہوں نے شیر خوار بچے بھی اٹھائے ہوئے تھے‘ اور نہتے نوجوانوں کے خلاف تشدد پر مبنی ایک کارروائی تھی۔ کیوں؟ یہ لوگ توصرف اپنے جمہوری حق کے لیے احتجاج کررہے تھے‘ لیکن 26مئی کو دنیا نے لاہور‘ اسلام آباد اور کراچی میں جو مناظر دیکھے‘ وہ دل دہلا دینے والے تھے۔
یہ سب کچھ جمہوریت‘ قانون کی حکمرانی اور ریاست کی عملداری کے نام پر کیا گیا۔ کہا گیا کہ وہ فساد یا کچھ اور روکنے کے لیے ایسا کررہے ہیں۔ جمہوریت کے تین بنیادی اصول ہیں: قانونی مساوات‘ سیاسی آزادی اور قانون کی حکمرانی۔ قانونی مساوات کا اصول قانون کی منظم حکمرانی کا متقاضی ہے۔ اس کے تحت ہر کسی کو انصاف ملتا ہے‘ ہر کسی کو مساوی بنیادوں پر قانونی تحفظ حاصل ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ کوئی فرد یا گروہ دوسروں کے مقابلے میں قانونی استحقاق نہ رکھتا ہو۔ سیاسی آزادی سے مراد چننے‘ ووٹ دینے‘ بات کرنے‘ احتجاج کرنے‘ جلوس نکالنے وغیرہ کا حق ہے۔ آمریت اور جمہوریت میںفرق یہی ہے کہ جمہوریت میں عوام کی مرضی حکومت کے حکم پر غالب ہوتی ہے‘ لیکن گزشتہ چند ایک ہفتوں کے دوران جو مناظر دیکھنے میں آئے‘ ان سے ایسا گمان ہوتا تھا جیسے لاطینی امریکا کا کوئی شب خون ہو یا کوئی فلمی منظر‘جس میںمجرموں کے منظم گروہ بستیوں کو تاراج کررہے ہوں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت کے ساتھ یہ سانحہ کیسے رونما ہوا:
1۔ قائدانہ مثال قائم کرنا: لیڈر راستہ دکھاتا ہے۔ اگرچہ جمہوریت اکثریت کو حکومت کرنے کی اجازت دیتی ہے‘ لیکن یہ اکثریت کو قانون کے بغیر حکومت کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ قوانین کے بغیر حکومت‘ یا قائدین کی خواہشات پر مبنی قوانین‘ آمریت بن جاتے ہیں۔ پاکستان شاید واحد ایسی جمہوریت ہے جہاں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ ضمانت پر ہیں اور ان پر اسی دن فرد جرم عائد کی جانی تھی جس دن انہوں نے حلف اٹھایا۔ کچھ لوگ یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ جمہوریت میں اکثریت کسی کے حق میں بھی جا سکتی ہے۔ یہ دلیل بہت سادہ ہے۔ اس میں قانون کی حکمرانی کے بنیادی اصول اور قانون سازوں کی اکثریت کی طرف سے اس کے غلط استعمال کو مدنظر نہیں رکھا جاتا ہے جو عوام کے نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کے واحد ارادے کے ساتھ آتے ہیں۔ اس معاملے میں حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم کی طرف سے منتخب کابینہ کی اکثریت بھی ضمانت پر ہے۔ اگر اکثریت جرائم میں ملوث ہے تو وہ مجرموں کے مفاد کا تحفظ کریں گے۔
2۔ اداروں کی تباہی: جمہوریت میں ادارے افراد سے زیادہ اہم ہوتے ہیں‘ اس لیے عدلیہ اور ایگزیکٹو کے اختیارات الگ کیے گئے ہیں۔ آزاد میڈیا‘ عدلیہ اور ریاستی ادارے جمہوری ڈھانچہ تشکیل دیتے ہیں۔ آمریت میں ریاستی ادارے حکومت کے ماتحت ہوتے ہیں۔ اس طرح اگر حکومت اقتدار سنبھالتے ہی ادارہ جاتی تبدیلیاں کرتی ہے‘ جس کا براہِ راست تعلق ایف آئی اے‘ نیب وغیرہ میں بدعنوانی کے مقدمات سے ہے تو یہ جمہوریت مخالف اقدام تصور ہوگا۔ نیب کو قانون کی زنجیر ڈال کر ماتحت بنایا جارہا ہے۔ نیب قانون میں کی گئی ترامیم تمام غیرقانونی اور مجرمانہ ہتھکنڈوں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے ہیں۔ صرف ایک مثال پر غور کریں‘ نیا قانون کسی بھی بدعنوانی کی تحقیقات میں قریبی خاندان کے اثاثوں کو شامل نہیں کرتا۔ اس کا مطلب ہے کہ سیاست دان خاندان کے افراد کے نام پر غیرقانونی رقم سے اثاثے آسانی سے خرید سکتے ہیں اور انہیں کوئی پکڑ نہیں سکتا۔ اس سے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور ان کے اہلِ خانہ پر موجودہ مقدمات غیرمتعلقہ ہو جائیں گے۔
3۔ جنگل کا قانون: قانون نافذ کرنے والے قانون ساز بن جاتے ہیں۔ پولیس ایک سیاسی ادارہ بن چکی ہے۔کوئی بھی جمہوری معاشرہ حکومت کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ کھڑے ہونے اور بولنے کے عوامی حق کو طاقت سے پامال کرے۔ اس حکومت نے جو کچھ کیا ہے وہ اس ذہنیت کا اظہار ہے جو اس عوامی تحریک کو کچلنا چاہتی ہے جو ان کے طرز حکمرانی پر سوال اٹھانے کی جرأت کرتی ہے۔ تصور کریں کہ ایک وزیر داخلہ اسلام آباد میں ہونے والے احتجاج تک پہنچنے کی کوشش کرنے والوں کو جیل میں ڈالنے اور ان سے نمٹنے کی دھمکی دے رہا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ وہ آنسو گیس جو دہشت گردوں پر استعمال کی جاتی ہے اور وہ جو فوراً انسان کو گرادیتی ہے‘ معمر خواتین اور بچوں پر استعمال کی گئی۔ تصور کریں کہ اُن گاڑیوں پر بھاری بھرکم لاٹھیاں برسائی جارہی تھیں جن میں شہری اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ سفر کررہے تھے۔
ذرا تصور کریں کہ دوسرے صوبے سے آنے والے وزیراعلیٰ کے گھڑ سوار دستے پر حملہ کیا گیا اور سابق وزرا کو بری طرح پیٹا گیا۔ بدقسمتی سے یہ کوئی افسانوی باتیں نہیں بلکہ آج کی مطلق العنان لیکن خوف زدہ اور گھبرائی ہوئی حکومت کی افسوس ناک حقیقت ہے۔
لیکن معرکہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ شدید جبر میں مزاحمت کا معیار تحریک کی زندگی کا تعین کرتا ہے۔ حق کے لیے لڑنے کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہے:
1۔قانونی مشورہ اور تحفظ: بہترین عدالتی نظام نہ ہونے کے باوجود ریاستی منظم جرائم کو روکنے کا واحد طریقہ قانونی چارہ جوئی ہی ہے۔ قانون کے غلط استعمال اور ابہام پر سپریم کورٹ اور ماتحت عدالتوں سے رجوع کیا جانا چاہیے۔ ریاستی کارروائی اور ردعمل کے ساتھ ساتھ جمہوری تحریکوں کے مستقبل کے بارے میں واضح عدالتی احکامات کا فیصلہ لازمی ہے۔ ورنہ یہ عوامی طاقت کو کچلنے والی طاقت کی کلاسک مثال ہوگی۔
2۔ تزویراتی طور پر مربوط حکمت عملی: سیاسی تحریکیں ہمیشہ کثیر الجہت ہوتی ہیں۔ حکومت اور احتجاج کرنے والی جماعت دونوں کو تمام سیاسی آپشنز کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ اہم ایجنڈا انتخابات کا وقت ہے۔ یہ فوری طور پر ہوں یا 2023میں‘ اس پر بات چیت ہوسکتی ہے۔ اور تصفیہ ایسا ہو جس سے کسی دھڑے کی ہزیمت مقصود نہ ہو‘ سب کی جیت کا تاثر ہو۔ معیشت کے مسائل‘ سیاسی استحکام اور جیو سٹریٹجک چیلنجوں کو مدِ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ سٹیک ہولڈرز کو لچک اور دانش مندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ تاخیری حربے عوام کی سوچ مکدر کررہے ہیں‘ جس کے نتیجے میں ایک ایسا تاثر پیدا ہو سکتا ہے جس پر کوئی بھی قابو نہیں پا سکے گا۔
3۔ عوام کو بات کرنے اور قدم اٹھانے دیں: کسی غلط فہمی میں نہ رہیں‘ اس وقت عوام سخت برہم ہیں۔ عوام کی غلط فہمی دور ہوچکی ہے۔ بہت سے سٹیک ہولڈروں کے چہرے بے نقاب ہوگئے ہیں۔ بہت سے ماہرین کا بھرم چاک ہوچکا ہے۔ عوام کے ہاتھ سے احتیاط کا دامن چھوٹ رہا ہے۔ سرگوشیاں بلند ہوتی جارہی ہیں۔ عوامی پیش قدمی نے بہت سے ''نو گو ایریاز‘‘ روند ڈالے ہیں۔ پہلا لانگ مارچ بظاہر روک لیا گیا لیکن اس نے خوف اور بے یقینی کی رکاوٹیں توڑ ڈالی ہیں۔ اس جمہوری تحریک کو جاری رکھنے کے لیے عوامی جذبات کا اظہارکرنے کے لیے کھڑے ہونے‘ بولنے‘ شمولیت‘ رد‘ جوابی کارروائی کے حق کی حمایت کی جانی چاہیے۔
یہ اب صرف حکومت کی تبدیلی کی تحریک نہیں‘ یہ ''حقیقی‘‘ جمہوریت کی تحریک ہے۔ قوم نے آئینی‘ قانونی‘ سماجی‘ ثقافتی اور سیاسی طور پر ملک کو دبانے‘ جبر کرنے‘ محکوم بنانے اور کمزور کرنے والوں کے سامنے سراٹھانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جمہوریت اکثریت کی مرضی ہے۔ پاکستان کی اکثریت اب ریاست کے جبر اور استبداد سے نہیں ڈرتی۔ ابراہام لنکن نے بہت پہلے کیا کہا تھا: ''ووٹ گولی سے زیادہ طاقت ور ہوتا ہے‘‘ اوراُنہیں بالآخر اس بات کا احساس ہوچکا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں