مراسلے کا معمہ

سازش ہوئی‘ دخل اندازی کی گئی‘ مداخلت ہوئی‘ یہ کیا ہے؟ کیا ایسا ہوا ہے یا نہیں؟ اگر ایسا ہوا ہے تو پھر؟ اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر؟ مراسلے کی بابت ایسے سینکڑوں سوالات اٹھے تھے۔ وہ مراسلہ جس کی شہ ملتے ہی حزبِ اختلاف نے جارحانہ رویہ اختیار کیا اورحکومت تبدیل کرڈالی۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ یہ امریکیوں کا حسبِ معمول ''ڈو مور‘‘ ہے۔ کچھ دیگر سوچتے ہیں کہ یہ ایک بڑی طاقت کا ایک چھوٹی ریاست‘ جو اس پر انحصار کرتی ہے‘ سے معمول کا سلوک نہیں۔ اس سنسی خیز سیاسی ناٹک کے حوالے سے کب‘ کیوں‘ کہاں اور کیسے کی لامتناہی بحث جاری ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بحث مدہم پڑنے کے بجائے کہیں زیادہ تیز و تند ہوتی جارہی ہے۔ اسے کچھ نے نظر انداز کردیا ہے لیکن یہ معاملہ کسی نہ کسی شکل میں زَک پہنچا رہا ہے۔ موجودہ ہنگامہ خیز سیاسی اُفق پر یہ آنکھ مچولی ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے والوں کے لیے انتہائی تناؤ اور پریشانی کا سامان کررہی ہے۔
شاید یہی وجہ ہے کہ اس پر بحث کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے‘ حالانکہ اس بابت ہر چیز زیر بحث لائی جا چکی۔ ابہام اور غیر یقینی پن کی فضا ابھی چھٹی نہیں۔ ابھی لوگوں کو بمشکل ہی پتا تھا کہ ایک سائیفر کیا ہوتا ہے جب امریکی سائیفرمشہور یا بدنام ہوگیا۔ شاید ہی کبھی کسی نے اسے بحث یا گفتگو میں استعمال کیا ہو۔ لیکن اب یہ روز مرہ کی بول چال کا عام سا لفظ بن چکا۔ ڈی سائیفر کا مطلب کسی چیز کو قابلِ فہم یا واضح کرنا ہے۔ گویا سائیفر سے مراد ایسا مراسلہ ہے جسے عام افراد نہ سمجھ پائیں۔ سائیفرخفیہ زبان میں لکھا جاتا ہے اور صرف اس زبان کی مہارت رکھنے والے افراد ہی اس کے معنی اخذ کر سکتے اور اسے سمجھ سکتے ہیں۔ سفارت کاری اور عالمی تعلقات کو خفیہ رکھنے کے لیے یہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ غیر ملکی سفارت خانے دوممالک کے سیاسی تعلقات کی حساسیت سے آگاہ ہوتے ہیں‘ اس لیے وہ پیغامات کو خفیہ زبان میں ارسال کرتے ہیں تاکہ غیر متعلقہ حلقے انہیں سمجھ نہ پائیں اور حساس راز افشا نہ ہوں۔
اس طرح پاکستانی سفارت کار کا امریکا سے بھیجا گیا سائیفر ایک معمول کی سفارتی خط وکتابت تھی۔ اگر یہ معمول کی بات تھی تو پھر اس پر اتنی چیخ و پکار کیوں؟ اس پر سازش کا شک گزرا‘ جو ابھی تک اپنی جگہ پر موجود ہے۔ اس کی وجہ مذکورہ مراسلے کی بابت کم از کم چھے ایسے سوالات ہیں جن کا جواب ابھی ملنا باقی ہے:
1۔ مقامی سفارت خانے کے افسران نے مرکزی کھلاڑیوں سے ہنگامی ملاقاتیں کیوں کیں؟
اگرچہ غیر ملکی سفارت خانے کے افسران کی حزبِ اختلاف کے رہنماؤں سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں لیکن عدم اعتماد کی تحریک سے ٹھیک پہلے اہم افراد سے ایسی پے در پے ملاقاتیں بہت سے سوالات اٹھاتی ہیں۔ 16 فروری2022 ء کو تحریک انصاف کے منحرف رکن قومی اسمبلی‘ نور عالم کی امریکی سفارت کار‘ پیٹر جوزف سے اسلام آباد میں ملاقات ہوئی۔ 24 فروری کو امریکی کونسل جنرل مارک سٹرو کراچی میں چیئرمین پیپلز پارٹی‘ بلاول بھٹو زرداری سے ملے۔ مارک سٹرو نے ایم کیو ایم کے عہدے داران سے بھی ملاقات کی۔ مزید‘ امریکی کونسل جنرل‘ ولیم کے مکانول نے لاہور میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے بہت سے سیاست دانوں سے ملاقات کی۔ اُن کی سات مارچ 2022 ء کو علیم خان سے بھی ملاقات ہوئی۔ امریکی سیاسی افسر‘ اندریا ہیلائر نے پی ڈی ایم رہنماؤں کے علاوہ منحرف رکن اسمبلی‘ راجہ ریاض سے بھی ملاقات کی۔ اس طرح کی ہونے والی دیگر ملاقاتوں میں مکانول کی تین مارچ2022 ء کو حمزہ شہباز سے ہونے والی ملاقات تھی۔ اور یہ وہی دن تھا جب ڈونلڈ لو نے امریکا میں پاکستانی سفارت کار کو دھمکی دی تھی۔ ملاقاتوں کا یہ تواتر اور تسلسل کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہنے دیتا۔
2۔ سائیفر وزیراعظم اور وزیر خارجہ سے کیوں چھپایا گیا؟
یہ شاید سب سے اہم اور قابل غور سوال ہے۔ امریکا میں پاکستان کے سفیر نے انڈر سیکرٹری آف سٹیٹ ڈونلڈ لو سے اپنی ملاقات کے حوالے سے دفتر خارجہ کو مراسلہ ارسال کیا لیکن وہ دفتر خارجہ پہنچ کر غائب ہوگیا۔ سائیفر کا مواد خارجہ پالیسی‘ پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات وغیرہ کے بارے میں تھا اور سیکرٹری خارجہ نے اسے وزیر خارجہ کے بجائے ''کسی اور‘‘ کے ساتھ شیئر کردیا۔ اس سائیفر میں پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلم کھلا مداخلت کی گواہی تھی جس کی تصدیق 31مارچ 2022ء کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کی گئی۔ اسے وزیراعظم سے کیوں چھپایا گیا جن کا نام اس سائیفر میں مرکزی کردار کے طور پر تھا؟ آپ صرف اس وقت چھپاتے ہیں جب آپ کے پاس چھپانے کے لیے کچھ ہوتا ہے۔ آپ صرف اس صورت میں چھپاتے ہیں جب کوئی ایسی معلومات ہو جسے آپ روکنا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم کے اقتدار کو دی جانے والی دھمکی کو اُن سے چھپانا کوئی مذاق نہیں‘ یہ ایک سنجیدہ اور سنگین معاملہ تھا۔ اور یہ بہت کچھ بتاتا ہے۔
3۔ اس میں یہ بات کیوں کی گئی کہ وزیراعظم کے روس جانے کا فیصلہ تمام سٹیک ہولڈرز کی رضا مندی کے بغیر کیا گیا تھا؟
ڈونلڈ لو کا وزیراعظم پر یہ الزام کہ انہوں نے روس جانے کا فیصلہ تمام سٹیک ہولڈرز کی رضامندی کے بغیر کیا‘ بذات خود ایک غلط معلومات ہے۔ اس میں رتی بھر سچائی نہیں تھی۔ درحقیقت وزیراعظم نے سابق سفارت کاروں اور متعلقہ اداروں سے مشاورت کی تھی۔ ان سب کی متفق رائے تھی کہ روس کا دورہ کیا جائے۔ تو پھر وزیراعظم پر الزام کہا ں سے آگیا ؟ وزیراعظم کو قربانی کا بکرا بنانے کی کون کوشش کررہا تھا؟ امریکا کے ساتھ دوستی جتاتے ہوئے وزیراعظم کو ولن بنانے کی کس کی تگ و دو تھی؟ یہ سب قابلِ غور سوالات ہیں جن کا جواب ضروری ہے۔
4۔ نیشنل کمیٹی کے پہلے اجلاس میں اسے پاکستان کے معاملات میں کھلی مداخلت کیوں قرار دیا گیا؟
موجودہ حکومت نے وضاحت کرتے ہوئے پہلے تو مراسلے کی موجودگی سے مکمل انکار کردیا۔ اس کے بعد اس کی موجودگی تسلیم تو کر لی لیکن کہا کہ اس میں سازش کی کوئی بات نہیں۔ اداروں کی طرف سے پہلے اسے نظر انداز کیا۔ جب پوچھا کہ اُنہوں نے کیوں کر نتیجہ نکال لیا کہ یہ سازش نہیں تو ان کی تازہ ترین وضاحت یہ ہے کہ اُن کی رائے کسی ٹھوس مواد یا شہادت پر مبنی ہے۔ تاہم اُنہوں نے کبھی یہ ٹھوس مواد کسی کے سامنے پیش نہیں کیا اور نہ ہی پریس کو اس بابت باخبر رکھا گیا ہے۔ لیکن جس بات کو جھٹلایا نہیں جا سکتا وہ یہ ہے کہ ''کھلی مداخلت‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔ اگر آپ ان دو الفاظ پر غور کریں تو یہ تمام کہانی سناتے ہیں۔ سفارتی اصطلاحات میں ان کی سنگینی عام کھیل کود یا معمول کے امور سے کہیں بڑھ جاتی ہے۔
5۔ امریکی سفارت خانے کو ڈی مارش کیوں دیا گیا؟
ایک اور سوال یہ ہے کہ اگر یہ کوئی معمول کی بات تھی تو قومی سلامتی کمیٹی کی رضا مندی سے ڈی مارش کیوں جاری کیا گیا؟ ڈی مارش ایک ایسا لفظ ہے جسے سفارتی برادری نے وضع کیا ہے اور ایک ملک کی طرف سے دوسرے ملک کو کسی ایسے عمل کے لیے جو قانونی اور سفارتی معیار سے تجاوز کرتا ہے‘ سخت الفاظ میں وارننگ دی جاتی ہے۔ اگر سائیفر معمول تھا تو یہ سخت کارروائی کیوں کی گئی؟
6۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس پر انکوائری کمیشن کے قیام پر اتنی ہچکچاہٹ کیوں؟
سابق سپیکر نے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا۔ کوئی ردعمل دیکھنے میں نہ آیا۔ صدر مملکت نے چیف جسٹس کو خط لکھا لیکن مہرسکوت نہ ٹوٹی۔ حکومت نے کہا ہے کہ انہیں انکوائری پر کوئی اعتراض نہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہ کیا۔ مقتدرہ کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی انکوائری میں تعاون کریں گے لیکن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ کوئی سازش نہیں ہوئی۔ سٹیک ہولڈر کا انکار‘ اجتناب‘ انحراف‘ رد کرنے کا رویہ‘ خود ہی سائیفر کے عجیب و غریب معاملے کو متنازع بناتا ہے۔ اگر سوالات کا جواب نہ ملے تو حیرت تو ہوگی اور مفروضے بھی گھڑے جائیں گے۔ جواب نہ ملنے والے سوالات تکلیف دہ ہوتے ہیں اور تکلیف اکثر غیر ارادی ردعمل کا باعث بنتی ہے۔ اس لیے چیف جسٹس ایک آزاد کمیشن قائم کریں تاکہ درد کو ناسور بننے سے روکا جا سکے۔ جیسا کہ روی شنکر نے کہا تھا: ''وہ سوالات جن کا جواب نہ ملے‘ وہ ذہن میں پکتے رہتے ہیں اور تشدد کا لاوہ بن کر پھوٹ پڑتے ہیں‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں