انہونی ہو گئی؟

پانچ کے مقابلے میں پندرہ کا سکور ہے۔ پنجاب میں ضمنی انتخابات سے پہلے ہر کوئی اسی سکورکی پیش گوئی کر رہا تھا‘ اور ایسا ہی ہوا۔ نہیں‘ ایسا نہیں ہے۔ سکور تو یہی بیان کیا جا رہا تھا لیکن فتح مند پارٹی کا نام کچھ اور لیا جا رہا تھا۔ سیاسی پنڈتوں کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) پندرہ نشستوں پر کامیاب ہوگی‘ باقی تحریک انصاف کو ملیں گے۔ لیکن جب نتائج آئے تو صورت حال اس کے برعکس تھی۔ عام طور پر پیش گوئیاں اُلٹ جائیں تو الزامات کی پٹاری کھل جاتی ہے۔ دھاندلی کی دہائی دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انتخابات کو انجینئرڈ کیا گیا‘ نتائج تبدیل کیے گئے‘ پس پردہ ضرور کوئی ڈوریں ہلا رہا تھا‘ بس میچ ہی فکس تھا‘ وغیرہ۔ تعجب ہے کہ اس مرتبہ ایسا کچھ نہ ہوا۔ حزبِ اختلاف نے شکست تسلیم کر لی۔ تشکیک پسندوں کو کوئی قربانی کا بکرا نہیں مل رہا‘ خاص طور پر وہ مقتدرہ کی ملی بھگت کو مورد الزام ٹھہرانے کے قابل نہیں رہے۔ تجزیہ کار مبہوت‘ سیاسی مبصرین متحیر‘ درحقیقت کسی کو بھی یقین نہیں آرہا کہ یہ ہو کیا گیا؟ ان کے لیے یہ تسلیم کرنا مشکل ہورہا ہے کہ جو کچھ ہوا ہے‘ کسی حقیقی جمہوریت میں یہی کچھ ہونا چاہیے۔ عوام کی آواز اور ان کے ووٹ اربابِ اختیار سے زیادہ طاقتور ہوں۔ عوام کی آواز ہی غالب ہو۔
ملک کی آزادی کے بعد زیادہ تر عرصہ یا تو آمروں نے براہِ راست حکومت کی یا اُن کی پشت پناہی سے اکثر حکومتیں قائم ہوئیں۔ جمہوری حکومت نے اس حقیقت کے سامنے سرنگوں رکھا کہ مقتدرہ حکومت کا حصہ ہے۔ اسے کئی ایک شعبہ جات کا کنٹرول دے دیا گیا۔ اس طرح پاکستان پر طاقت اور دباؤ سے حکومت کی جاتی رہی۔ درحقیقت پاکستان کے کئی ایک جمہوری رہنما آمریت کی نرسری کے ہی پروردہ تھے۔ وہ آمرانہ حکومتوں کی خدمت بجا لاتے۔ اسی چھتری تلے اُنہوں نے اپنا محدود سیاسی سفر شروع کیا تھا۔ گویا طاقت‘ جبر‘ دھاندلی اور دھونس جمانے کا چلن شروع سے ہی ان کی سیاسی گھٹی میں پڑا ہوا تھا۔ عوام کی رائے اور مطالبہ اُن کے لیے بس اتنی ہی اہمیت رکھتا تھا کہ بس نام نہاد‘ دکھاوے کا جمہوری بندوبست کر لیتے۔ مرکزی دھارے کی دونوں جماعتوں نے عوام کو موروثی سیاست کا عادی بنا دیا۔ وہ انہی کے بارِ دِگر تسلط کو تبدیلی سمجھتے رہے۔ یہ مان لیا گیا کہ ان کے بھائی‘ بیٹے اور بیٹیاں ہی اعلیٰ عہدے سنبھالیں گے۔ بدعنوانی کا دوردورہ تھا لیکن اس کا الزام صرف بلیک میلنگ کے لیے ایک آلہ کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ مقتدرہ اس حقیقت سے آگاہ تھی لیکن اس کا تدارک کرنے کے بجائے سیاست دانوں کی اس خامی کو انہیں اپنے بس میں لانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ دکھاوے کی کارکردگی کے ذریعے اقتدار میں آنے کے لیے چکا چوند منصوبے بنائے جاتے اور دیگر جماعتوں کی بدعنوانی کے خلاف کھوکھلی نعرے بازی ان کا شعار تھا۔ اقتدار سے الگ ہونے یا کیے جانے کے بعد یا تو بیرون ملک چلے جاتے یا اپوزیشن میں رہ کر اپنی باری کا انتظار کرتے۔ لوگ جانتے تھے کہ ایسا ہی ہورہا ہے‘ لیکن وہ اس صورت حال کی کوئی زیادہ پروا نہ کرتے۔ چھے عشروں سے یہی چلن تھا‘ یہاں تک کہ عمران خان کی شکل میں ایک تیسرا متبادل سامنے آگیا۔ یہ تیسرا آپشن عمران خان‘ ناممکن کو ممکن کر دکھانے کی تاریخ رکھتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں تاریخ رقم کرنے کے لیے ناممکن کو کس طرح ممکنات کے سانچے میں ڈھالا گیا۔
1۔ مقتدرہ کی حیرانی: مقتدرہ اب حالات کے مطابق خود کو ڈھالنے کی کوشش کررہی ہے۔ اُس پر حکومت کی تبدیلی‘ اہم عہدوں پر اپنے لوگوں کی تعیناتی اور پالیسی سازی میں مداخلت کے الزامات لگتے رہے ہیں کیونکہ حکومتیں اپنی کرپشن کے داغدار ریکارڈ کی وجہ سے اُس سے سمجھوتا کر لیتی تھیں۔ کوئی بولتا تک نہیں تھا۔ کوئی بولنے والا جب گھٹنے ٹیک دیتا تو اُسے فرار ہونے کے لیے این آر او مل جاتا۔ انتخابات اور حکومتوں کا توڑ جوڑ بھی کنٹرولڈ تھا۔ اس بار مگر کیا ہوا؟ اس بار حیرت اُن کی منتظر تھی۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات نے واقعی انہیں بھی حیران کر دیا۔ اس بار عوام جارحانہ حد تک چوکس اور تیار تھے۔ عوام کی بے پناہ حمایت نے تحریک انصاف کا جھنڈا بلند رکھا۔ روایتی ہتھکنڈوں کے ردعمل میں اس بار عوام کی طرف سے غصے اور اشتعال کی لہر مزید ابھری۔ تاریخ میں پہلی بار طاقت کے استعمال سے من پسند نتائج حاصل نہ کیے جا سکے۔
2۔ الیکشن کمیشن کی سراسیمگی: سوشل میڈیا پرالیکشن کمیشن کے حوالے سے ایسی آوازیں اُٹھ رہی ہیں جن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ انتخابی معرکے میں تحریک انصاف کو مات دینے کا منصوبہ بنایا گیا تھا جس کے تحت تاخیری حربوں اور فعالیت سے گریز کی پالیسی اپنائی گئی۔ تحریک انصاف کی طرف سے دائر درخواستوں پر کارروائی نہ کرنے کی پاداش میں اب اسے عدالتی حکم کا سامنا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف‘ دونوں کے خلاف کارروائی سے خائف ہیں۔ بارش کے باعث سندھ میں بلدیاتی اور ضمنی انتخابات ملتوی کر دیے گئے ہیں۔ غیرملکی فنڈنگ کیس کا فیصلہ بھی نہیں سنایا جا رہا۔ یہ ایک بار پھر بے نظیر پیش رفت ہے کہ طاقتور پہلے سے تیار کردہ منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے سے عوامی ردعمل کی وجہ سے خوفزدہ ہیں۔
3۔ میڈیا کی الجھن: ایک اور پاور ہاؤس الیکٹرانک میڈیا ہے۔ اینکرز کو خبروں کے ساتھ ساتھ مبینہ طور پر لیڈر بنانے یا بگاڑنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ ناظرین کی طاقت اور حکومت کی پشت پناہی رکھنے والے بعض میڈیا ہائوس کنگ میکر تھے۔ جس لیڈر سے ناراض ہوتے‘ اس کی پارٹی کو منفی رنگوں میں پیش کرتے۔ حکم کے برخلاف لائن اختیار کرنے والوں کی چھٹی ہو جاتی۔ اب ایسا نہیں ہے۔ میڈیا بھی اب پھیل چکا ہے‘ متبادل میڈیا کا پھیلائو خاصا عام ہے۔ صحافیوں نے اپنے یو ٹیوب چینل شروع کر رکھے ہیں۔ اس طرح ایک متبادل میڈیا سامنے آیا ہے۔ لوگ خود ہی ان چینلوں سے دور ہوجاتے ہیں جنہیں وہ دیکھنا نہیں چاہتے۔ میڈیا کے کئی نام اپنے ٹویٹر اور فیس بک فالورز کی تعداد میں کمی بھی دیکھ رہے ہیں۔ جنہوں نے عوام کے دل کی بات کی‘ ان کے یوٹیوب چینل پر ناظرین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ اور یقینا جب تعداد بڑھے گی تو پیسہ آئے گا۔ اینکرز اپنے ناظرین کے رجحانات کی پیروی کرکے زیادہ رقم حاصل کر رہے ہیں۔ جن اینکرز نے جرأت مندانہ مؤقف اختیار کیا ہے دوسرے ان کی پیروی کر رہے ہیں‘ صرف سٹینڈ کی وجہ سے نہیں بلکہ پیسے کی وجہ سے۔ اب اسی راہ پر مقبولیت اور پیسہ ہے۔ یہ ہے رائے عامہ کا اثر۔ چند سال پہلے تک عام آدمی کی رائے محض ثانوی حیثیت رکھتی تھی۔
5۔ سول سوسائٹی خاموش ہے: ملک کے وہ چنیدہ دانشور‘ جنہیں کسی نہ کسی غیرملکی یا مقامی ایجنڈوں نے کوئی بیانیہ پھیلانے کے لیے استعمال کیا‘ بھی خاموش ہیں۔ وہ خود کو لبرل کہتے تھے اور فکری ہنگامہ برپا کرنے کے لیے یا تو گورننس درست نہ ہونے یا مقتدرہ مخالف ہونے کا مؤقف اختیار کرتے تھے۔ فی الحال ضمنی الیکشن کے بعد وہ ان انتخابات کو نہ تو دھاندلی زدہ کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی انجینئرڈ اور نہ ہی حکومت کی اعلیٰ کارکردگی کی تعریف کر سکتے ہیں۔ وہ شاید کچھ کہنا تو چاہتے ہیں‘ لیکن الفاظ اُن کا ساتھ نہیں دے رہے۔ عجیب الجھن کا شکار یہ طبقہ پہلے سے کہیں زیادہ غیر متعلق ہوتا جا رہا ہے۔ ان کی از خود لب بندی عجیب ہے۔
5۔ عوام کا جوش و خروش: عوام اس جیت پر پُرجوش ہیں۔ انتخابات میں اس قدر بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور پھر تمام قوتوں کو شکست دینے پر خوشی سے سرشار ہیں۔ اب وہ آگے بڑھنے کے لیے تیار ہیں۔ ایسی صورتحال کبھی سننے میں نہیں آئی تھی۔ عام طور پر عوام ووٹ دیتے ہیں اور پھر سیاسی عمل سے لاتعلق ہو کر اپنی معمول کی زندگی میں واپس چلے جاتے ہیں۔ تحریک انصاف کی تحریک کا شاید یہ سب سے بڑا فائدہ ہے کہ عوام کو خود اعتمادی مل گئی ہے۔ وہ سیاسی گیم پلان کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھال رہے ہیں اور ملک کا مستقبل اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے تیار ہیں۔
بیس نشستوں پر ہونے والے یہ ضمنی انتخابات اس ملک کی تاریخ کا حقیقی موڑ ہیں۔ عوام کی آواز غیرجانبداروں‘ اداروں‘ میڈیا اور بیانیہ سازوں کی آواز سے زیادہ بلند ہو چکی ہے۔ اس بار متحدہ عوامی طاقت تمام ناقابلِ شکست قوتوں کو پیچھے ہٹنے‘ نظر ثانی کرنے اور میدان میں طاقت کے نئے توازن کو تسلیم کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ اب عوامی مرضی کے خلاف زبردستی نہیں ہو سکتی۔ چند ماہ پہلے یہ سب کچھ ناقابلِ تصور تھا۔ تو گویا انہونی ہو چکی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں