پانی کا اشتعال

پانی آگ بگولہ ہوچکا ہے، اس کی لہروں کا اشتعال بڑھتا جارہا ہے، بپھری ہوئی موجیں ہلاکت خیز ی پرتلی ہوئی ہیں۔ یہ ہالی وُڈ کی کسی فلم یا آسمانی لٹریچر میں بیان کردہ مناظر ہو سکتے ہیں کہ منہ زور سیلابی ریلاعمارتوں اور ہوٹلوں کو ملیا میٹ کرتا گزر جائے۔ حقیقی زندگی میں یہ سب کچھ غیر حقیقی دکھائی دیتا ہے۔ اسے دیکھ کر جاگزیں احساس یہ ہے کہ کیا یہ حقیقت واقعی 'حقیقی‘ ہے ؟ کیا ان واقعات کا تسلسل بھی ہے؟ جوان اور بوڑھے بے یارو مددگار پانی کے ریلے میں بہہ گئے۔ سندھ اورسوات کے مناظرناقابلِ برداشت ہیں۔ بکریاں اور مویشی پانی کی بڑھتی چلی جانے والی دیوار میں گم ہورہے ہیں۔ مقدس کتب سے طوفانِ نوح کے حوالے گویا ہماری نظروں کے سامنے زندہ مثالوں کی طرح تیرنے لگے۔ ہوٹل تنکوں کی طرح بہہ گئے۔ چند لمحوں کی قیامت نے عشروں کی تعمیر پر پانی پھیر دیا۔ گزشتہ چند دنوں سے یہی مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ سیلاب کا رخ دور افتادہ دیہی علاقوں سے شہروںکی طرف ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم نہ ختم ہونے والے بھیانک شو کے تماشائی بلکہ کردار ہیں۔
پاکستان میں کم و بیش ہر عشرہ سیلابوں کی تباہی سے نمناک ہے۔ 2010 ء کا سیلاب بہت وسیع پیمانے پر اور بے حد تباہ کن تھا۔ لیکن اس مرتبہ پانی کی تندی اور قابو سے باہر ریلوں کے سامنے تو ہر کوئی بے بسی کی تصویر دکھائی دیا۔ حکومت بھی روایتی طور پر تاخیر سے حرکت میں آئی۔ میڈیا نے بھی خال خال مناظر ہی دکھائے۔ اولاً یہ سوشل میڈیا تھا جس نے اس تباہی کی وسعت، پھیلائو اور گہرائی کو بے نقاب کیاورنہ حکومت تو سیلاب کی تباہ کاری پر پانی پھیر چکی تھی۔ کچھ کا کہنا ہے کہ یہ سیلاب جی ڈی پی کا ایک فیصد تک تباہ کرچکا۔ کچھ کے اندازے اس سے بھی زیادہ کے ہیں۔ سامنے آنے والے مناظر سے پتا چلتا ہے کہ نہ صرف یہ آفت بہت بڑی ہے بلکہ اس کے ذیلی اثرات آنے والے طویل عرصے تک باقی رہیں گے۔ یہ سوال اپنی جگہ پر موجود ہے کہ جب پتا تھا کہ پاکستان ایسی آفات کی زد میں ہے تو ان کے تباہ کن اثرات میں حتی المقدور کمی لانے کے لیے کوئی اقدامات کیوں نہ کیے گئے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فطرت نے ہمیں سبق سکھایا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم نے صدی کے سب سے مہیب بحران سے نمٹ لیا تھا‘ ایسا بحران جو کسی کے وہم وگمان میں نہیں تھا‘ تو ہم ان سیلابوں سے بھی نمٹ سکتے تھے۔ کورونا مینجمنٹ سے سیکھا گیا سبق یہ ہے :
1۔ تیاری کے لیے کمر بستہ رہیں : اگرچہ آفت کتنی ہی ناگہانی کیوں نہ ہو، وہ آپ کو کسی قدر تیار پائے۔ اگرپاکستان کورونا جیسی عالمی وبا سے امریکہ، برطانیہ، انڈیا اور دیگر ممالک سے بہتر انداز میں نمٹ سکتا ہے تو سیلابوں سے نمٹنے کے لیے تو وقت بھی زیادہ مل گیا تھا۔ بارشوں کا طویل سلسلہ بتارہا تھا کہ سیلاب آئیں گے۔ متعلقہ محکمے اس حوالے سے پیش گوئی بھی کر چکے تھے۔ سیلاب میں کیاہوتا ہے، یہ بھی ہر کسی کے علم میں ہے۔ این ڈی ایم اے وارننگ جاری کرچکا تھا۔ یہ بھی کوئی راز نہیں کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کا تیزی سے نشانہ بن رہا ہے۔ رواں برس ملک میں درجہ حرارت بلند ترین تھا۔ یہ بھی کوئی ناگہانی آفت نہیں تھی۔ اس سے سوال اٹھتا ہے کہ قبل از وقت حفاظتی اقدامات کیوںنہ کیے گئے ؟ کورونا وبا سے سیکھا گیا سبق یہ تھا کہ تاخیر کے بجائے سب سے پہلے ایمرجنسی کا اعلان کردیا جاتا۔ یہ ایمرجنسی ہر پیشگی وارننگ سسٹم کا جائزہ لینے اور تمام صوبوں میں سیلاب سے نمٹنے کے لیے حفاظتی اقدامات کرنے کے قابل بنا دیتی۔
2۔ این سی او سی کی طرح این ایف سی او سی قائم کریں : دوسری تدبیر یہ کہ دنیا کا سب سے کامیاب ماڈل‘ جسے دیکھنے بل گیٹس بھی پاکستان آئے‘ این سی او سی (نیشنل کمانڈ اینڈآپریشنز کنٹرول) ہے۔ یہ کورونا سے نمٹنے کے لیے قائم کیا گیاتھا۔ سیلاب نے تمام صوبوں کو متاثر کیا ہے۔ وفاقی حکومت کو این ڈی ایم اے کے تحت این ایف سی او سی قائم کرنا چاہیے۔ یہ بندوبست ملنے والی اطلاعات کی بنیاد پر ریسکیو، بحالی اور تعمیرِ نو کے عمل کی نگرانی کرے۔ اسے مواد کاکھوج لگانے اور تجزیہ کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت استعمال کرنی چاہیے۔ این ایف سی او سی کا اجلاس روزانہ ہوتاکہ اعدادوشمار کا جائزہ لے کر صوبوں کے درمیان مربوط حکمت عملی وضع کی جائے جو قومی سطح پر کی جانے والی کوششوں سے ہم آہنگ ہو۔ فی الحال اعدادوشمار ایک مایوس کن تصویر دکھاتے ہیں۔ چودہ سو سے زائد افراد جان بحق ہوچکے ہیں۔ ڈھائی لاکھ مکانات تباہ ہوئے جب کہ ساڑھے چار لاکھ سے زائد مکانات کو نقصان پہنچا۔ بیس لاکھ ایکڑ پر کھڑی فصل برباد ہوگئی ہے۔ آٹھ لاکھ سے زائد مویشی پانی میں بہہ گئے ہیں۔ ان اعدادوشمار کی از سرنو جانچ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پلان کی عملی جہت کا اندازہ ہوسکے۔ نیز وسائل کی روزانہ کی بنیاد پر فراہمی پر نظر رکھی جائے۔ اس کے لیے ضرورت کا خیال رکھا جائے اور یہ تمام سرگرمیاں پیشہ ور انداز میں سرانجام دی جائیں۔
3۔ کمی کا خیال رکھیں: بحران اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ میں سب سے اہم چیز ترجیحات کا تعین کرنا ہے۔ ہنگامی صورتِ حال میں ہر چیز کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جان بچانا، پناہ گاہ فراہم کرنا، کھانا کھلانا ایک ہنگامی ضرورت ہے۔ منصفانہ نظام پر مبنی فیصلہ سازی درکارہے۔ کورونا کے زمانے میں ترغیب یہی تھی کہ جو باقی دنیا کر رہی ہے، وہی کچھ ہم بھی کریں۔ لاک ڈاؤن اور شٹ ڈاؤن معمول تھا اور اپوزیشن نے اس پر بڑی سیاست بھی کی تھی۔ اس زبردست دباؤ کے باوجود اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے انتہائی پُرسکون انداز میں ناپ تول کر فیصلہ سازی کی اور سمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کر دیا۔ اپوزیشن نے 'قاتلانہ ہتھکنڈا‘ قرار دے کر اسے تنقید، طنز اور استہزا کا نشانہ بنایا۔ درحقیقت سمارٹ لاک ڈاؤن کی حکمت عملی لوگوں کی جان اور معیشت‘ دونوں کو بچانے کا باعث بنی۔ اس وقت موجودہ وزیر اعظم کو زندگی اور معاش بچانے کے لیے کچھ کرنا ہو گا۔ شواہد اگرچہ حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے بجٹ میں 34 فیصد کمی کی گئی۔ اب ایسا کرنا مجرمانہ فعل کہلائے گا۔ اس بجٹ کو دوگنا کیا جائے۔ بجٹ کے علاوہ صلاحیت اور بحالی کے حوالے سے جو خلا پیدا ہو رہا ہے، اس کا ہر روز باریک بینی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے اختراعی طریقے اختیار کیے جائیں۔ موجودہ قدرتی آفت میں ردعمل صرف زبانی جمع خرچ اور فوٹو شوٹ تک محدود نہ رہے۔ فی الحال تو یہی کچھ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ حکومت کو ایک مربوط منصوبہ وضع کرنا چاہیے تاکہ پتا چلے کہ وسائل، صلاحیت وار سروس کی فراہمی میں خلا کہاں ہے، اور اسے کیسے پُر کیا جا سکتا ہے ؟ اس کے لیے کون سے روایتی اور غیر روایتی طریق کار درکار ہیں ؟
4۔ قومی جذبے کو ابھاریں: پاکستان کا سب سے مثبت پہلو مصیبت کی گھڑی وقت قومی جذبے کا بیدار ہونا ہے۔ زلزلے کی تباہی کے سابقہ ادوار میں اور حال ہی میں کورونا بحران نے اس جذبے کو بہترین شکلوں ابھرتے دیکھا گیا۔ وزیراعظم کو اس کوشش کی قیادت کرناہوگی۔ فنڈز اکٹھا کرنا محض ایک کٹ اینڈ پیسٹ اشتہاری مہم سے زیادہ ٹھوس بنیادوں پر ہو۔ اپوزیشن لیڈر نے اس سمت قدم بڑھایا ہے۔ ڈھائی گھنٹے کی ٹیلی تھون میں 500 کروڑ روپے جمع ہو گئے۔ یہ ٹیلی تھون نہ صرف پیسہ اکٹھا کرنے میں مدد کرتی بلکہ اس ہنگامی گھڑی میں قوم کے اکٹھے ہونے کے جذبے کو پھر سے ابھارتی ہے۔ بنیادی عنصر یقینا اعتماد ہے۔ وزیر اعظم اس کوشش کی قیادت نہیں کر رہے۔ یہ ظاہر کرے گا کہ وہ خود پر اعتماد نہیں کرتے تو ایسے میں عوام اُن پر کیا اعتماد کریں گے؟ اُنہیں حب الوطنی کی مہم شروع کرنے کے لیے سب سے پہلے قومی جذبے کو ابھارنا ہوگا۔ وزیراعظم اس کوشش میں فوج اور صوبوں کو بھی ساتھ شامل کریں۔ کورونا میں نجات دہندہ عوام تھے جو دل کھول کر عطیات دیتے رہے۔ اتنی بڑی آفات کا سامنا صرف بین الاقوامی عطیہ دہندگان کے ساتھ کبھی نہیں ہوا اور نہ ہی ہوگا۔ اس مہم میں پوری قوم جذبے کے ساتھ شریک ہو۔ اس کے لیے وزیر اعظم وہ مرکزی کردار ہیں جو آگے بڑھ کر قیادت کریں۔ اپنی صلاحیت ثابت کرنے کا اُن کے پاس ایک موقع ہے۔ اگر وہ قیادت نہیں کرسکتے تو پھر دوسرے کریں گے، ا ور ان کا بھرم چاک ہوجائے گا کہ وہ قائدانہ کردار سے محروم ہیں۔ وہ قوم کو اکٹھا کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔
جیسا کہ چرچل نے ایک بار کہا تھا کہ ''اچھے بحران کو کبھی ضائع نہ ہونے دیں‘‘۔ یہ وہ وقت ہے، جیسا کہ کورونا میں‘ ملک ایک بار پھر اکٹھا ہو سکتا ہے اور دنیا کو اپنا عزم، حوصلہ اور جذبہ دکھا سکتا ہے۔ پانی اترنے کے بعد قومی منصوبہ بندی کا مرکزی ہدف لاکھوں افراد کو غربت کے سیلاب سے بچانا ہو۔ ہم نے 2010ء کے سیلاب سے نہیں سیکھا۔ آئیے! امید کرتے ہیں کہ ہم کورونا کے انتظام کی کامیابی سے سبق سیکھیں گے اور ایک بار پھر اس منہ زور اور بپھرے ہوئے پانی کو پُرسکون کریں گے۔ اس پانی کو کنٹرول کرکے اس کو راستے سے گزرنے دینا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں