قیادت پر اعتماد

آپ ایک سی ای او ہو سکتے ہیں‘ چیئرمین بن سکتے ہیں‘ وزیراعظم کے منصب پر فائز ہو سکتے ہیں‘ رضا کار بن سکتے ہیں‘ کارکن بن سکتے ہیں‘ عام انسان ہو سکتے ہیں لیکن لیڈر نہیں۔ ان دونوں درجوں کی قیادت کے درمیان لکیر کھینچنے والی چیز ''اعتماد‘‘ ہے۔ آپ پر اعتماد کیا جاتا ہے تو آپ لیڈر ہیں‘ وگرنہ آپ دوسرے درجے میں آتے ہیں۔ لیڈر اس وقت بنتے ہیں جب ایک بڑی تعداد میں لوگوں کی پیروی حاصل ہوتی ہے۔ اگر یہ پیروی کسی مجبوری یا پابندی کے تحت ہو‘ جیسا کہ کسی ادارے یا تنظیم کے نظم و ضبط کی وجہ سے‘ تو پھر یہ دیر پا قیادت نہیں ہوتی۔ جیسے ہی لوگ تنظیم یا ادارے سے نکلیں گے‘ پابندی سے کرائی جانے والی پیروی کا بوجھ بھی اتار پھینکیں گے۔ ایسے لیڈر اعتماد نامی ''ایکس فیکٹر‘‘ سے محروم ہوتے ہیں۔ وہ اپنے پیروکاروں کو کام سے الگ ہونے کے بعد اپنی ذات سے وابستہ نہیں کر سکتے۔
عمران خان کا چند گھنٹوں کے دوران پانچ سو کروڑ کی خطیر رقم جمع کر لینا اس بات کی زندہ مثال ہے کہ عوام اُن پر کس قدر اعتماد کرتے ہیں۔ حکومت عوام سے سیلاب متاثر ین کی امداد کے لیے فنڈ دینے کی مسلسل اپیل کررہی ہے۔ مختلف اداروں نے بھی ریلیف فنڈ جاری کیا ہے۔ اس میں بھی رقم آرہی ہے لیکن شاید ان فنڈز میں آنے والی رقم اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کی طرف سے لازمی عطیہ کے ذیل میں ہو۔ مثال کے طور پر حکومت نے قومی اسمبلی کے ممبران کی ایک ماہ کی تنخواہ کاٹ کر فنڈ میں ڈال دی ہے۔ اسی طرح سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کا کچھ حصہ منہا کرکے فلڈ ریلیف فنڈ میں جمع کیا جائے گا۔ یقینا یہ بھی بھاری رقم بن جائے گی‘ لیکن اس کا مقابلہ چند گھنٹوں میں دنیا بھر سے پانچ سو کروڑ روپے جمع کرلینے سے نہیں کیا جا سکتا۔ ایک مرتبہ پھر ہر دو رقوم کی آمد میں فرق پابندی اور اعتماد کے رشتے کا ہے۔ عہدے پر موجود قائد اس وقت تک قائد ہے جب تک عہدہ ہے۔ کسی بھی ادارے کے سربراہ کا عہدہ اُسے اپنے ادارے کی تنخواہ لازمی ریلیف فنڈ میں ڈالنے کا اختیار دیتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عہدوں سے الگ ہونے کے بعد یہ سربراہان اپنی ذاتی حیثیت میں چند گھنٹوں میں پانچ سو کروڑ روپے جمع کر سکتے ہیں؟ آئیے عہدے اور اختیار سے الگ ہونے کے بعد بھی کسی لیڈر کو حاصل اعتماد کے عناصر کی جانچ کرتے ہیں:
1۔ ذاتی ساکھ: نیلسن منڈیلا اور قائداعظم جیسے لیڈروں کے پاس طویل عرصے تک حکومت میں عہدوں کا کوئی باضابطہ اختیار نہیں تھا لیکن ان کی ذاتی ساکھ کی غیر رسمی اتھارٹی تھی۔ اس کی وجہ سے لوگ ان کی پیروی کرتے تھے۔ قائداعظم بااصول انسان ہونے کی بے داغ شہرت رکھتے تھے۔ اس شہرت کی وجہ سے اُنہیں اپنے پیروکاروں کا اعتماد اور احترام حاصل تھا۔ قائد نے اردو میں بات کرتے ہوئے نگریزی میں تقریر کرنے کی اجازت چاہی۔ اس دوران مجمع میں ایک ناخواندہ شخص زبان کی پروا کیے بغیر تالیاں بجاتا رہا۔ جب پوچھا گیا کہ کیا وہ انگریزی سمجھتا ہے‘ تو اس نے جواب دیا ''اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘ قائد جو بھی کہہ رہے ہیں‘ درست ہے‘‘۔ یہ ہے اعتماد جو انسان کو لیڈر بناتا ہے۔ اسی طرح نیلسن منڈیلا کی ذاتی ساکھ بھی اتنی زیادہ تھی کہ جب وہ 2010ء میں صدر نہیں تھے تو فیفا ورلڈ کپ میں جنوبی افریقہ کی نمائندگی کے لیے گئے۔ جنوبی افریقہ کی اہلیت پر کئی سوالیہ نشانات ہونے کے باوجود سلیکشن بورڈ انہیں انکار نہ کر سکا۔ یہ جنوبی افریقہ کی ساکھ کے بجائے منڈیلا کی ساکھ تھی جو فیصلہ کن عنصر ثابت ہوئی۔
2۔ لیڈر کا ماضی کا ریکارڈ: اعتماد صرف شہرت پر نہیں بلکہ لیڈر کے ماضی کے ٹریک ریکارڈ پر ہوتا ہے۔ کیا ماضی کا ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ یہ شخص اپنے وعدوں کو پورا کرے گا؟ کیا ماضی کا ٹریک ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ یہ شخص اپنے حرف کا پاس کرے گا؟ ان سوالوں کے جواب سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ لیڈر پر اعتماد کرنے کے لیے کس حد تک تیار ہیں۔ عمران خان کے معاملے میں ڈیلیور کرنے کا ان کا ٹریک ریکارڈ ہے۔ شوکت خانم ایک مثال ہے ۔ ہر سال لوگ لاہور اور پشاور کے دو ہسپتالوں کو اربوں روپے کے عطیات دیتے ہیں جبکہ تیسرا کراچی میں زیرتکمیل ہے۔ اس کے برعکس شریف خاندان کا ٹریک ریکارڈ یکسر مختلف ہے۔ جب وہ 90ء کی دہائی میں آئے تو انہوں نے ''نیشنل ڈیٹ ریٹائرمنٹ فنڈ‘‘ قائم کیا جس کا مقصد ملک کا قرض اتارنا تھا۔ صرف دو فنڈ ریزنگ کے ٹریک ریکارڈ کا موازنہ کریں۔ جس دوران شوکت خانم عالمی معیار کی سہولت ہے جو اپنے 70فیصد مریضوں کو کینسر کا مفت علاج فراہم کرتی ہے‘ قرض اتارنے کی مذکورہ مہم بہت بڑا چکما ثابت ہوئی۔ 1997ء میں نواز شریف نے قرض اتارنے کے لیے ''قرض اتارو ملک سنوارو سکیم‘‘ شروع کی جو بعد میں پس پشت ڈال دی گئی اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھیجے گئے فنڈز کا کوئی احتساب نہ ہوا۔
3۔ ذاتی مفاد بمقابلہ قومی مفاد: اعتماد ساز یا اعتماد شکن عنصر لیڈر کے خلوص یا خود غرضی سے نکلتا ہے۔ تمام رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ قومی مفاد کو ذاتی مفاد سے بالاتر رکھیں گے لیکن بہت کم ایسا کرتے ہیں۔ جب آپ کے قول و فعل میں تضاد ہو تو یہ اعتماد شکن عنصر بن جاتا ہے۔ عمران خان نے مثال قائم کی۔ اپنی پرتعیش زندگی‘ اپنے خاندان اور بیرون ملک اپنے اثاثوں کو پاکستانی عوام کی خاطر کام کرنے کے لیے قربان کر دیا۔ دوسری طرف جب دیگر سیاستدان پاکستان کی خدمت کی بات کرتے ہیں تو ان کے اعمال اس کی تائید نہیں کرتے۔ ان کے اثاثے اور سرمایہ کاری بیرونی ممالک میں ہے۔ جب بھی وہ حکومت سے باہر ہوتے ہیں‘ وہ سامان لپیٹ کر پاکستان چھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسی کی اصل دلچسپی اپنے بیٹے کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنانا ہے تو کوئی اپنی بیٹی کو اگلی لائن کا لیڈر بنانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ یہ عوامل خود غرضی کو ظاہر کرتے ہیں اور لوگوں کے ان پر اعتماد کو بہت نقصان پہنچاتے ہیں۔
4۔ شفافیت اور احتساب پر مبنی نظام: اعتماد کا چوتھا عنصر صرف اچھے الفاظ اور اعمال ہی نہیں بلکہ ایک ایسا نظام ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ جمع شدہ فنڈز خورد برد نہ ہوں یا غلط مقامات پر صرف نہ کردیے جائیں۔ جمع کیے گئے 500 کروڑ صرف صوبائی حکومتوں کو نہیں دیے جائیں گے بلکہ ڈاکٹر ثانیہ نشتر کی قابل رہنمائی میں احساس پروگرام کے بہترین عملی ماڈل کے تحت رکھے جا رہے ہیں۔ اس ماڈل کو کورونا کے دوران ضرورت مندوں میں 260 ارب روپے تقسیم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ یہ انتہائی محتاط منصوبہ بندی اور ٹیکنالوجی کے ذریعے کیا گیا اور ایک روپیہ بھی ضائع نہیں ہوا۔ اس ماڈل کا مطالعہ سٹینفورڈ یونیورسٹی نے کیا اور اسے غربت میں کمی کے خلاف بہترین ماڈلز میں سے ایک تسلیم کیا۔ رپورٹ میں کھلے عام دعویٰ کیا گیا کہ ''خاص طور پر‘ ہم اچھی قیادت کی اہمیت‘ مضبوط اداروں کی تعمیر‘ ڈیٹا اور ٹیکنالوجی کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے اور احساس پروگرام کے ذریعے انسدادِ غربت کے لیے ایک مربوط‘ جامع نقطۂ نظر کے استعمال کی طرف اشارہ کرتے ہیں‘‘۔ دوسری جانب بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا ماڈل بہت سے گھپلوں کی زد میں تھا جس میں سسٹم میں تقریباً 8 لاکھ غیر مستحق افراد شامل تھے۔ درحقیقت اس کی اصل سربراہ پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے 100 کروڑ روپے غائب کرنے کاکیس نیب میں درج ہے۔
قیادت کی تعریف یا زوال کا سب سے بڑا عنصر اعتماد ہے۔ اعتماد ایک اہم عامل ہے جو فنڈز اکٹھا کرنے میں معاونت کرتا ہے۔اعتماد ہی تمام قائدانہ خواص کا مرکز ہے۔ یہ اس ایک سوال سے مزید ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان دنیا میں سب سے کم ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب کیوں رکھتا ہے لیکن دنیا میں سب سے زیادہ فی کس چیریٹی دینے والے ممالک میں سے ایک ہے؟ جواب ہے اعتماد۔ لوگ حکومت کو کچھ نہیں دیتے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ یہ سیاست دانوں کے ذاتی بینک اکاؤنٹس میں چلا جائے گا۔ جب کہ وہ اپنی پسند کے خیراتی اداروں کو عطیہ دیتے ہیں جن پر وہ اعتماد کرتے ہیں۔ زیادہ تر رہنماؤں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی قیادت کی بنیاد پوزیشن‘ عہدے‘ طاقت اوروسائل پر رکھتے ہیں۔ اس طرح کی قیادت عارضی ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اعتماد کو خریدا‘ بنایا یا کسی مل میں تیار نہیں کیا جا سکتا۔ اسے صرف حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے حصول کے لیے مضبوط کردار اور مہارت کا امتزاج چاہیے۔ جب یہ دونوں عامل ملتے ہیں تو عہدے‘ منصب‘ مقامات وغیرہ بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ حکم چلانے سے بھی اعتماد کی دولت حاصل نہیں ہوتی۔ آپ لوگوں کو پابند کر سکتے ہیں‘ ان کا دل نہیں جیت سکتے۔ مشہور مصنف‘ سٹیفن کنوئے کا کہنا ہے: ''ممکن ہے کہ آپ کسی کا ہاتھ یا جسم خرید سکتے ہوں‘ لیکن آپ اس کا دل اور ذہن نہیں خرید سکتے۔ یہ صرف مرضی سے‘ رضاکارانہ طور پر ہی ملتے ہیں‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں