جرائم دھوڈالنے والی فیکٹریاں

دھوکا دہی سے مال ہتھیائیں اور مزے اُڑائیں، خورد برد کریں اور خوب لطف اٹھائیں، بیک جنبش قلم کروڑوں پار کرلیں۔ رقم سمیٹیں اور بھاگ نکلیں۔ ان ممالک کا المیہ یہی ہے جہاں ہر کوئی جانتا ہے کہ آپ دوسروں کا مال ہڑپ کرلیں گے لیکن کوئی آپ سے بازیاب نہیں کرا سکے گا۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ آپ غریبوں اور مظلوم طبقے کا حق چھین کر دادِ عیش دے رہے ہیں۔ ہرکوئی جانتا ہے کہ آپ مجرم ہیں، لیکن کوئی بھی آپ کو پکڑ کر ان جرائم کی پاداش میں سزا نہیں دے سکتا۔ پاکستان جیسے ملک کا یہی المیہ ہے کہ پاناما لیکس سے لے کر حالیہ پی ڈی ایم لیکس تک‘ ملک کی عالمی سطح پر بدنامی کا سلسلہ جاری ہے۔ دوسری طرف مقامی قوانین حوصلہ افزا، دوستانہ اور مشفقانہ برتائو کرتے ہوئے بار بار لوٹ مار کرنے کی سہولت فراہم کررہے ہیں۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ اس وقت ساٹھ فیصد کابینہ ضمانتوں پر ہے۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ جس دن حلف اٹھایا، اسی دن وزیر اعظم پر فردِ جرم عائد کی جانی تھی۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ جو لوگ ''پاکستان کو تباہی سے بچانے‘‘ واپس آنے کیلئے بیتاب ہورہے ہیں، وہ عدالتی مفرور ہیں۔ یہ ہے اس قوم کا المیہ جو معاشی طور پر دلوالیہ ہونے کے خطرے سے بچنے کی کوشش میں ہے۔ اس دوران اسے سیلاب اور عالمی برادری کی بداعتمادی کا بھی سامنا ہے کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ امدادی سامان غریب متاثر ین کو ملنے کے بجائے افسران کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔ طویل عرصے سے یہی صورت حال ہے۔ اس کی مذمت وہ بھی کرتے ہیں جو اس کے دراصل ذمہ دار ہیں۔ اس کے باوجود یہ حالات خود کو دہراتے رہتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ ملزمان خود اپنے تحفظ کے لیے قانون سازی کرلیتے ہیں۔ یہ قوانین جرائم کو دھوکر پاک صاف کرنے کا فارمولا بن کر نظام کو چکما دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یہ فارمولا گزشتہ کئی عشروں سے سکہ رائج الوقت ہے۔ اس میں چہار جہتی طرزِعمل شامل ہے:
1۔ انتخابات میں وسیع پیمانے پر کالے دھن کا استعمال : انتخابی عمل میں صرف ایک مخصوص طبقہ ہی حصہ لیتا ہے۔ انتخابی مہم کی بے تحاشا قیمت صرف مال دار اشرافیہ ہی برداشت کر سکتی ہے۔ انتخابی حلقے کی سڑکوں اور اہم علاقوں کی برانڈنگ کے اخراجات بہت زیادہ ہیں۔ اس میں تمام اہم ووٹنگ پوائنٹس پر دفاتر کھولنے کی لاگت کو شامل کریں۔ اس طرح کے بنیادی امور پر کروڑوں روپے کی فنڈنگ کیلئے آپ کا ارب پتی ہونا ضروری ہے۔ لیکن یہ تو اٹھنے والے اخراجات کا نصف ہے۔ بقیہ اخراجات کا پچاس فیصد تو صرف الیکشن والے دن خر چ ہوتا ہے جس میں ہزاروں پولنگ ایجنٹوں کی خدمات حاصل کرنا، ان کی ٹرانسپورٹ، تربیت، خوراک وغیرہ کا انتظام شامل ہے۔ اس طرح آپ کو سیاسی صنعت میں بنیادی طور پر دو طرح کے سرمایہ کار نظر آئیں گے۔ سب سے پہلے ریئل اسٹیٹ مافیاز۔ دوسرے اہم سرمایہ کار حکومت کے زیرِ کنٹرول صنعتوں سے وابستہ‘ جیسے چینی‘ سٹیل وغیرہ۔ تقریباً ہر پارٹی کے ٹکٹ ہولڈرز ان دوگروہوں سے تعلق رکھتے ہیں جو انتخابات میں پیسے کا استعمال کر کے نئے آنے والوں کی راہیں مسدود کرنے کے ہنر میں طاق ہوچکے ہیں۔
2۔ انتخابی سرمایہ کاری حکومت میں آنے کے بعد وصول کرلی جاتی ہے : جیسے ہی وہ پارلیمنٹ اور حکومت میں داخل ہوتے ہیں، سرمایہ کاری کی وصولی شروع ہو جاتی ہے۔ اقتدار میں آتے ہیں تو اربوں مالیت کے غیر قانونی رہائشی منصوبوں کی منظوری مل جاتی ہے۔ شوگر مافیا سکینڈل نے دکھا دیا کہ کس طرح انڈسٹری نے سیاسی ذرائع سے اربوں روپے کا خزانہ لوٹا۔ چینی کی برآمد کی اجازت دینے کی پالیسی چینی کی زائد پیداوار کے جعلی اعدادوشمار پر مبنی تھی۔ جیسے ہی چینی کی برآمدات کی اجازت دی گئی، قلت پیداہوگئی۔ سٹے بازوں، پروڈیوسروں، ڈیلروں کی ملی بھگت سے قیمتیں بڑھا دی گئیں۔ اس طرح پارلیمنٹ کے ایک ٹکٹ کے پیچھے ان لوگوں کی سپانسر شدہ رقم ہوتی ہے۔ یہی ٹولہ ہے جو ایسی پالیسیوں سے فائدہ اٹھائے گا جو مافیاز کو تحفظ دینے کے لیے بنائی جائیں گی۔
3۔ جرائم کو دھو کر پاک کرنے اور سزا سے بچنے کے لیے قانون سازی: جمہوریت کے اس مسخ شدہ نظام کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ارکانِ پارلیمنٹ کی اکثریت مبینہ طور پر مجرم ہے یا مشکوک سودوں اور مقدمات میں ملوث۔ ایک بار جب اکثریت مختلف مافیاز سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ہو جائے تو ظاہر ہے کہ ہر قسم کے جرائم کوتحفظ اور پکڑے جانے کی صورت میں معافی کیلئے قوانین بنائے جائیں گے۔ پی ڈی ایم حکومت نے اقتدار میں آتے ہی نیب قوانین کے ساتھ جو کچھ کیا اس نے سب رازوں کو بے نقاب کردیا۔ نیب کی ترامیم نے مبینہ طور پر لوٹ مارکرنے اور جرم کو دھوڈالنے کا ایک بہت بڑا لائسنس دے دیا ہے اور صرف نیب یا ملزم کے بجائے الزام لگانے والے پر آمدن سے زائد اثاثہ جات کا الزام ثابت کرنے کی ذمہ داری ڈال دی ہے۔ لہٰذا تمام پچاس فیصد ریفرنس کیسز‘ جو ایک مقررہ مدت میں آمدن میں غیر معمولی اضافہ ظاہر کرتے ہیں‘ اب ثابت کرنا نیب کی ذمہ داری ہے نہ کہ ملزم کی۔ ایک اور شاہکار کرائم واشر یہ حقیقت ہے کہ صرف ملزم کی جائیداد کی جانچ کی جائے گی نہ کہ اس کے خاندان کی۔ گویا چوری کرو، اپنے بچوں کے نام رکھو اور پھر کوئی تمہیں چھو نہیں سکے گا۔ جرائم کا دوسرا تحفظ نیب پراسیکیوشن کو بے ضرر بنانا ہے۔ اسحاق ڈار کیس میں نیب کے پراسیکیوٹر ایک بھی عدالتی سوال کا جواب نہ دے سکے اور یوں کیس خارج کر دیا گیا۔
4۔ محفوظ ٹھکانوں میں پناہ اور پھر واپسی کیلئے عالمی طاقتوں کے ساتھ لابی: جرائم پیشہ عناصر کی پہنچ بہت لمبی ہے۔ پاکستان جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے اہمیت رکھتاہے۔یہ اہمیت بیرونی اور علاقائی طاقتوں کی طرف سے سیاسی سرمایہ کاری کیلئے باعثِ کشش ہے۔ ہمارے لیڈروں کی غیر ملکی طاقتوں کی مدد سے قانون کی گرفت میں آنے کی تاریخ ہے۔ جیل سے غیر ملکی ساحلوں تک فرار کا یقینی راستہ ہے۔غیر ملکی طاقتوں کے اثاثوں کے طور پر ان کی ''افادیت‘‘ ایک علیحدہ وجہ ہے کہ ان کو محفوظ رکھا اور پروان چڑھایا جاتا ہے۔ یہ ممالک اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے ان عناصر کو تیار اور استعمال کرتے ہیں۔
ملک میں مایوسی پھیلی ہوئی ہے کیونکہ عوام قانون کی خلاف ورزی کے اس برہنہ مظاہرے کو دیکھ رہے ہیں۔ یہ جان کر وحشت ہوتی ہے کہ بڑے ملزم جیل جانے کے بجائے اعلیٰ مناصب پر فائز ہو جاتے ہیں۔ ان کی ملک کے نظام کو اپنی مرضی سے تبدیل کرنے، دوبارہ اقتدار میں آنے کی ناقابلِ یقین صلاحیت عوام کو ناامید کررہی ہے لیکن یہ جذبات‘ اگرچہ افسوسناک‘ اس صدمے کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں جس کا ملک نے پہلی بار سامنا کیا ہے۔ جن کے بارے میں وہ سوچتے تھے کہ وہ اس ویلیو چین سے باہر ہیں، وہ دراصل لانڈرنگ انڈسٹری کے تخلیق کاروں میں سے ایک ہیں۔ان کا کردار صرف پیچھے رہ کر ڈوریں ہلانے تک ہی محدود نہیں، جیسا کہ پہلے سوچا گیا تھا۔ سیاست دان حملے کی پہلی لائن تھے اور رہیں گے۔ لیکن موجودہ حکومت کی تبدیلی کے ڈرامے نے بہت سوں کی عزت و وقار کی سب سے بڑی طاقت چھین لی ہے۔ان کا نقاب اتار کے عوام کے سامنے رکھ دیا ہے۔ اس لیے جرائم کی لانڈرنگ فیکٹریوں کا صفایا بہت ضروری ہے۔ کسی قوم کی نشاۃ ثانیہ میں امید اور یقین کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اندھیرے میں روشنی کی کرن دکھائی دیتی رہے لیکن اس کا دارومدار اس پر ہے کہ وہ روشنی ہے یا تاریکی۔ یہ آخری آدمی ہے جو کھڑا ہے یا آخری آدمی ہے جو غائب ہونے جارہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں