اس قدر بربریت

پھینٹی لگاؤ‘ کوڑے مارو۔ یہ ایک ایسا بڑا موضوع ہے جس پر بحث کی جائے یا چپ رہا جائے؟ یہ دراصل سیاسی تشدد اور اذیت رسانی کا ایک کھیل ہے اور ایسا کرنے والے لوگ ہمیشہ سے ہی بے نام اوربے چہرہ تھے لیکن اب عوام ان کرداروں پر نام اور چہرے چسپاں کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ سترہ سال کے نوجوان سے لے کر ستر سال کے بوڑھے تک سب کے ساتھ ایک جیسا بہیمانہ سلوک کیا گیا۔
جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ جو دوسروں کے لیے کنواں کھودتے ہیں وہ خود اس میں گرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ ایک گھسا پٹا محاورہ دکھائی دے لیکن وقت کا میزانیہ یہی ہے کہ جیسا کروگے‘ ویسا بھروگے۔ تو چلیںآج بے پردہ کرنے کا دور سہی۔ بہت سے موضوعات‘ افراداورجماعتیں اپنے چاک ہوتے ہوئے جامے تھامے رکھنے کی کوشش میں ہیں۔ ان کی حقیقت کی پردہ پوشی کرنے والا لبادہ آہستہ آہستہ ادھڑتا جا رہا ہے۔ کچھ لوگوں کوتو چھپنے کی جگہ نہیں مل رہی۔ بدصورت حقیقت کو چھپانے کے لیے عارضی ماسک کی تلاش میں ہیں۔ صورتحال یقینا ناگوار ہے لیکن یہ ایک بہت بڑا موقع ہے۔ یہ اس ملک کے لیے زندگی میں ایک بار ہاتھ آنے والا نادر موقع ہے کہ وہ ماضی کو چھوڑ کر کچھ نئی منزلوں کی جانب قدم بڑھائے۔ حکومتوں کے آنے‘ ناکام ہونے‘ انجینئرنگ کی الزام تراشی‘ سہولت کاروںکے قدم جمانے‘ جوڑ توڑ‘ ملک ڈوبنے کا ایکشن ری پلے اس کی یادداشت سے حذف ہو جانا چاہیے۔ امید کی نئی کرن یہ ہے کہ یہ کسی ایک جماعت یا فرد کے حساب کتاب کا وقت نہیں‘ ہر سٹیک ہولڈر کو بات سننا پڑے گی وگرنہ وہ اپنی راہیں مسدود پائے گا۔ اور اس مرتبہ راہ کی بندش صاحبانِ اقتدار کی طرف سے نہیں بلکہ بائیس کروڑ افراد کی طرف سے ہے۔
1۔ عوامی طاقت حیرت انگیز ہے: ہم ہر روز دیکھتے ہیں کہ زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ا پنے دل کی بات پوسٹ کرتے اور کلک کرتے ہیں۔ اس کا ثبوت روزانہ کے سوشل میڈیا ٹرینڈز سے ملتا ہے۔ سہولت کاروں پر روزانہ ہزاروں پوسٹیں کی جا رہی ہیں۔ دنیا بدل گئی ہے لیکن سرپرستی کرنے والوں کا پرنالہ وہیں گر رہا ہے لیکن پھر اس کا ردعمل بھی آرہا ہے۔ سوشل میڈیا پوسٹس دوگنا اور عوامی غم و غصہ اُس سے بھی زیادہ ہوا جاتا ہے۔ دباؤ اتنا زیادہ ہے کہ اب عوامی خدمت کے اشتہارات لگانا پڑتے ہیں تاکہ لوگوں کو اپنی بے پناہ خدمات کی یاد دلائی جائے لیکن اس کے باوجود دوسری طرف عوامی جوش و جذبہ ہے کہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ اس سے پہلے منصوبہ سازوں نے یہ وقت کبھی نہیں دیکھا تھا۔ لگتا ہے کہ اُن کا یہ عمل الٹا پڑ گیا ہے۔
2۔ حکومت بھی بے پردہ ہو چکی: 16اکتوبر کے انتخابات نے حکومت کو سیاسی طور پر مقابلہ کرنے کے قابل ہونے کے بہانے سے محروم کر دیا ہے۔ ان کا ووٹ بینک ٹوٹ گیا اور اہم حلقوں میں انہیں شکست فاش ہوئی ۔ اتحادی صوبائی اسمبلی کی دو اور قومی اسمبلی کی چھ نشستیں ہار گئے۔ ان نشستوں کا انتخاب انہوں نے بڑے حساب کتاب سے کیا تھا۔ معیار اُن ایم این اے کو نااہل قرار دینا تھا جن کی جیت کا مارجن کم سے کم تھا اور 13 پارٹیوں کا ووٹ بینک شامل کرنے کے بعد وہ بھاری مارجن سے جیت سکتے تھے۔ ہوا اس کے برعکس۔ اپنے ووٹ کی کمی کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ان کا خوفناک معاشی بندوبست بھی ظاہر ہوگیا۔ رانا ثناء اللہ نے یہ بتاتے ہوئے کہ فیصل آباد میں ان کی اپنی یوسی نے انہیں ووٹ کیوں نہیں دیا‘ کہا کہ صنعتی ناکامی‘ پاور لومز‘ فیکٹریوں کی بندش اور بے روزگاری کی وجہ سے لوگوں نے عابد شیر علی کے خلاف ووٹ دیا۔ اس بیان نے اُن سے اسحاق ڈار کی قیادت میں معیشت کے بہتر ہونے کے بیانیے کو چھین لیا۔ دوسری منہ کی یہ کھانی پڑی کہ دعویٰ کیا تھا کہ عام انتخابات میں وہ اپنے امیدوار کھڑے کریں گے۔ اس شکست کے بعد خواجہ آصف نے کہا کہ عام انتخابات میں مشترکہ امیدوار کو میدان میں اتاریں گے۔ جہاں تک انتخابی عمل کا تعلق ہے یہ ان کے اعتماد‘ رابطے اور حکمت عملی کے کھو جانے کا بہت بڑا اعتراف ہے۔ اگر کسی کو ان کے کریش ہونے والے بحران کے بارے میں کوئی شک ہے تو اس کو بلدیاتی انتخابات ملتوی کرانے‘ عدم تحفظ اور انتخابات سے بھاگتے دیکھ کر دل سے نکال دے۔
3 ۔ اتحادیوں کی اصلیت ظاہر ہو جانا: حکومت کے کچھ اتحادی ارکان بھی سیاسی طور پر بے پردہ ہو چکے۔ سندھ میں ایم کیو ایم اور کے پی میں جے یو آئی (ف) کو جھٹکے لگے ہیں۔ ایم کیو ایم ہمیشہ طاقتوروں کی پیادہ رہی ہے۔ انہیں دوسروں کے ساتھ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ ان کی یہ درخواست کہ انہیں اپنے کراچی کے ووٹروں کے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے حکومت میں رہنا تھا‘ کچھ عرصہ کام آئی لیکن اب یہ بات کوئی نہیں مان رہا۔ پی ڈی ایم حکومت پر اُن کی مسلسل تنقید اور الزام تراشی کے باوجود کامران ٹیسوری کو گورنر بنانے کے لیے ان کے ہتھیار ڈالنے اور حکومت سے مزید فوائد کی طلب دیکھتے ہوئے کورنگی کے ووٹروں نے ان کا تقریباً بائیکاٹ کر دیا۔ اسی طرح جے یو آئی ایف نے تمام جماعتوں کی حمایت سے مردان میں اپنے بہترین رہنما مولانا قاسم کو تحریک انصاف کے خلاف میدان میں اتارا۔ وہ بھی بھاری مارجن سے ہار گئے۔ اس سے اب اس دعوے کی دھجیاں بکھر گئی ہیں کہ ان جماعتوں کے پاس ممکن ہے کہ زیادہ سیٹیں نہ ہوں لیکن ان کے پاس کچھ مخصوص حلقوں میں ووٹ بینک ہے جو انہیں حکومت کے ساتھ سودے بازی کی طاقت فراہم کرتا ہے۔ بڑے ووٹ بینک کے اس زعم کے باوجود پے درپے شکستوں نے انہیں بوکھلا دیا ہے۔ وہ بے بسی سے اپنے تحلیل ہوتے ہوئے سیاسی سرمائے کو دیکھ رہے ہیں۔
4۔ میڈیا کے نئے روپ : میڈیا سے زیادہ شاید ہی کسی شعبے میں جدت آئی ہو۔ ناظرین کی تعداد اب قابلِ پیمائش ہے۔ اس کے رجحان کی جانچ ہو سکتی ہے۔سوشل میڈیا مین سٹریم میڈیا کے متبادل کے طور پر اُبھرا ہے۔ لیکن دوسری طرف طاقتوروں کے پی ڈی ایم کے ساتھ اتحاد پر‘لکھاریوں‘ تجزیہ کاروں اور دانشوروںپر چپ کیوں طاری ہے؟ ناظرین نے میڈیا اور اینکرز سے ان کے فکری نقاب اور جمہوریت کے حامی چہرے ہٹا دیے ہیں۔
5۔ حزب اختلاف کی عریانی: تحریک انصاف کے پاس بطور اپوزیشن پارٹی جشن منانے کے لیے بہت کچھ ہے لیکن اس کے لیے بھی یہ مقام فکر ہے۔ اسے بھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا ہے۔ ان انتخابات نے ان کے سامنے بہت بڑا سبق کھول کر رکھ دیا ہے۔ ان انتخابات نے ان کا یہ یقین متزلزل کر دیا ہے کہ چونکہ لوگوں کے پاس کوئی انتخاب نہیں ہے وہ تحریک انصاف کو ہی ووٹ دیں گے۔ ملتان میں شکست کھلا پیغام ہے۔ پیغام یہ ہے کہ اگر آپ بھی وہ بات کرتے ہیں جس پر آپ عمل نہیں کرتے ہیں تو ہم آپ کو مسترد کردیں گے۔ شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی کو اس حلقے سے نامزد کیے جانے کے بعد تحریک انصاف کی موروثی سیاست کی مخالفت کا بھرم چاک ہوگیا۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے لیے شرقپور میں ہونے والی شکست پارٹی کے لیے ایک بڑی یاد دہانی تھی کہ اگر وہ لوٹوں کے خلاف کھڑی ہے تو اسے ووٹرز سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ انہیں ووٹ دیں گے۔
یہ پاکستان کے لیے فیصلہ کن لمحات ہیں۔ اقتدار کی راہداریوں کی آواز‘ میڈیا کی آواز اور اداروں کی آواز سے عوام کی آواز زیادہ بلند ہے۔ حقیقی جمہوریت یہی ہے۔ سیکھنے کا سبق یہ ہے کہ اس ملک کے لوگوں نے آخرکار کھڑے ہونے اور بولنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ جو بھی ان کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرے گا‘ ان کا نقصان کرے گا‘ انہیں مجبور کرے گا، انہیں دبائے گاتو پھر قوم کی مجموعی آواز کا نشتر اس کے لیے تیار ہے۔ اس وقت سچ سننے اور تسلیم کیے بغیر کوئی راستہ باقی نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں