لانگ مارچ کی نئی راہیں

جن بوتل سے باہر آچکا، بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے، پرندہ پنجرے سے نکل گیا۔ ملک میں یہی کچھ ہورہا ہے۔ عوامی جذبات بھی اسی نہج پر ہیں۔ آپ جن کو واپس بوتل میں بند کرنے، بلی کو تھیلے میں ڈالنے اور پرندے کو قید کرنے کی جتنی کوشش کریں گے‘ وہ اتنا ہی دور بھاگیں گے۔ یہ حقیقت سیاسی راہداریوں اور ان کے سہولت کار حلقوں کو کچھ سوچنے پر مجبور نہیں کررہی۔ ان کا ردعمل وہی روایتی ہے۔ تعاقب کا سلسلہ جاری ہے، جبر کی سنگ باری ہورہی ہے۔طاقتیں اپنی پوری قوت استعمال کرتے ہوئے بوتل، تھیلے اور پنجرے میں اہداف کو واپس لانے کے لیے سرگرداں ہیں لیکن نتائج کوشش کے برعکس نکل رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام کو پہلی مرتبہ اپنی طاقت کا احساس ہواہے کہ وہ جو چاہتے ہیں‘ کرسکتے ہیں۔
سیاسی جماعتیں کئی طرح کے احتجاج کرتی ہیں جن میں ریلیاں، دھرنے اور مارچ شامل ہیں۔ پاکستانی سیاست میں اپوزیشن کے لانگ مارچ کی ایک تاریخ رہی ہے۔ بے نظیر بھٹو نے دو اہم لانگ مارچ کیے۔ سب سے پہلے 1992ء میں مسلم لیگی حکومت کی مبینہ دھاندلی کے خلاف۔ 16 جولائی 1993ء کو بے نظیر بھٹو نے دوبارہ دارالحکومت کی طرف مارچ کیا۔ اس وقت نواز شریف حکومت نے اسلام آباد کو مکمل طور پر سیل کر دیا تھا۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ کی جانب سے حالات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی اور صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف‘ دونوں کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ جہاں تک نتائج کا تعلق ہے تو یہ سب سے زیادہ مؤثر لانگ مارچ تھا۔
تحریک انصاف اب اپنا چوتھا لانگ مارچ کر رہی ہے۔ پہلا مار چ اگست 2014ء میں 2013ء کے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف تھا جس کے نتیجے میں اسلام آباد میں 126 دن کا دھرنا دیا گیا۔ دوسرا 2017ء میں پاناما لیکس کے خلاف تھا جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ نے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے برطانیہ میں اثاثوں کے کیس کی سماعت کی۔ تیسرا لانگ مارچ امسال 25 مئی کو کیا گیا تھا جب مسلم لیگ نواز کی حکومت نے مارچ کرنے والوں کو گرفتار کر کے، مار پیٹ اور شیلنگ کر کے تشدد کیا ،اس لیے اسے ملتوی کر دیا گیا۔ اب یہ تحریک انصاف کا چوتھا لانگ مارچ ہے جو 28 اکتوبر 2022ء کو شروع ہوا تھااور یہ سب سے مختلف ہے۔ نتائج سے قطع نظر‘ اس مارچ کے چار امتیازی عوامل ہیں جو اس کامیاب مارچ کی بنیاد ہیں:
1۔ مختلف حکمت عملی : یہ عام لانگ مارچ نہیں۔ عام طور پر لانگ مارچ شروع ہوتا ہے اور چند دنوں تک جاری رہتا ہے۔ تحریک انصاف کا 2014ء کا لانگ مارچ شروع ہوا اور دو دن تک رواں دواں رہا۔ اس کے بعد اسلام آباد میں 126 دن کا طویل دھرنا دیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن نے اکتوبر 2019 ء میں چند دنوں کے لیے لانگ مارچ کیا۔ اس کے بعد اسلام آباد میں گیارہ دنوں کا دھرنا دیا گیا۔ یہ ایک لانگ مارچ ہے جسے مخصوص اوقات، تاریخوں اور مقامات پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس وقت پی ٹی آئی کا لانگ مارچ جی ٹی روڈ پر ہے یہ علاقہ مسلم لیگ (ن) کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حمایت رکھنے والے علاقوں میں رکنا، آس پاس کے قابلِ رسائی حلقوں سے لوگوں کو اکٹھا کرناایک مؤثر منصوبہ بندی ثابت ہوئی ہے۔ ہجوم کا حجم اور جوش و خروش بے مثال ہے۔ ایک ہجوم سکون کرتا ہے تو دوسری جگہ ایک نیا ہجوم تازہ جوش و جذبے کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ ان لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ مارچ جب اسلام آباد پہنچے‘ تب ا س میں شمولیت کی تیاری کریں۔ اس کے بہت سے فائدے ہیں۔ لانگ مارچ اہم اہداف کی حمایت کو تقویت دے رہا ہے۔ کارکنوں اور ٹکٹ ہولڈرز کو بیک وقت کنٹینر پر قیادت سے ملنے اور اپنے لوگوں میں گھل مل جانے کا موقع مل رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں اب تک ہر جگہ پر ریکارڈ ہجوم اکٹھا ہوا ہے۔ جوں جوں لانگ مارچ لمبا ہوتا جاتا ہے، حکومت کے اعصاب پر ہتھوڑے برسنے لگتے ہیں جو اب لندن سے اسلام آباد تک پریس کانفرنسیں کر کے مارچ کو روکنے، ڈرانے، بند کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سے تحریک انصاف کے بیانیے میں اضافہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو طاقت کے ذریعے پنجرے میں بند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، جبکہ لوگوں کو اپنی حقیقی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے حقیقی آزادی پانے اور اسلام آباد آنے کی عوامی خواہش میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
2۔ بامقصد ابلاغ بمقابلہ کھوکھلی بیان بازی: سب سے اہم نکتہ جو لوگوں کو اس مشکل اور مشکل تر تحریک پر کمر بستہ ہونے پر ابھارتا ہے وہ ایک واضح مقصد ہے۔ لوگ یہ نہیں جاننا چاہتے کہ کیا کرنا ہے۔ اُن کے لیے اتنا ہی جاننا کافی ہے کہ ایسا کیوں کرنا ہے۔ اس ''کیوں‘‘ کے سامنے کوئی مزاحمت نہیں ٹھہر سکتی۔ اس مارچ کا مقصد ان طاقتوروں سے حقیقی آزادی کا حصول ہے جنہوں نے بے اختیارعوام کو دبا رکھا ہے۔ اس میں سیاست دان،اشرافیہ، غیر ملکی طاقتیں اور وہ پورا نظام شامل ہے جو امیروں اور طاقتوروں کو عوام سے ممتاز کر کے ایک الگ صف میں کھڑا کرتا ہے۔ یہ ایک واضح مقصدہے۔ عوام سمجھ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ روا رکھی گئی ناانصافی کا تعلق طبقاتی فرق سے ہے۔ یہ مقصد اب ایک نعرہ بن کر گونج رہا ہے۔ لوگ اس نظام کی زنجیریں توڑڈالنے پر کمر بستہ ہیں جنہوں نے ان کی ترقی کی راہیں مسدود کررکھی تھیں۔
3۔ تمام دھڑوں کو متحرک، فعال اور ہم آہنگ کرنا : لانگ مارچ کے لیے ایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو نامساعد اور مشکل حالات میں پُرعزم اور ثابت قدم رہ سکیں۔ اس کے لیے بڑے پیمانے پر متحرک ہونے کی مشق کی ضرورت ہے۔ اس لانگ مارچ میں ہر قسم کے رنگ ہیں۔ ایک وقت تھا تحریک انصاف مڈل کلاس پڑھے لکھے طبقے کی پارٹی تھی۔ اب ایسا نہیں ہے۔ لبرٹی چوک لاہور سے جی ٹی روڈ کی طرف بڑھتے ہوئے لوگوں کے اس سمندر میں کنٹینر کے ساتھ ساتھ آپ کو متمول طبقہ اور غریب افراد‘ سبھی شانہ بشانہ دکھائی دیں گے۔ وہیل چیئرز پر لوگوں کا نظارہ، نعرے لگاتے بوڑھے لوگوں کی آوازیں، دور دراز علاقوں میں گھروں کی چھتوں پر دیوانہ وار ہاتھ ہلاتے ہوئے گروہ، لاہور سے گجرات تک یہ متحرک جوش کو ن بھول سکتا ہے؟ عام طور پر شہروں میں ہجوم ہوتا ہے جبکہ دیہی علاقوں میں بہت کم بھیڑ ہوتی ہے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس مارچ کے تمام راستے کھیتوں، بنجر زمینوں، دکانوں، ریستورانوں اور گھروں سے نکلنے والے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں۔
4۔ انسانی اقدار اور جذبے کو برقرار رکھنا: دکھائی دینے والے مناظر حیرت انگیز ہیں۔ اس مارچ میں ایسی کیا خاص بات ہے جو جذبے، ثابت قدمی اور توانائی کی لہر کو ہر آن بڑھا رہی ہے؟جی ہاں! بے روزگاری اور مہنگائی لوگوں کو سڑکوں پر لاتی ہے، لیکن یہ اتنی طویل مزاحمت کو برقرار رکھنے کے لیے کافی نہیں۔ ہوا یہ ہے کہ آزادی، انصاف، مساوات اور مساوات کی بنیادی انسانی اقدار نے عام آدمی کو باورچی خانے کے مسئلے سے اٹھا کر ایک بڑے مقصد کے اُٹھ کھڑے ہونے کی سطح تک پہنچا دیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ پاکستان کو آج بھی بیرونی اور مقامی عناصر کے ذریعے چلایا اور کنٹرول کیا جارہا ہے۔ یہ اپنے ملک کو ان عناصر کے چنگل سے آزاد کرانے کی لڑائی ہے جو دوسرے ممالک کے غلام اور بدعنوانی کے ذریعے مال بنانے کے عادی ہیں۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ''کیا میں غلام ہوں، کیا ہم بھیر بکریاں ہیں؟‘‘ جیسے جملوں نے لوگوں کی عزتِ نفس کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ انسانی وقار اور خود اعتمادی کی بحالی ہے جس کے لیے لوگ لڑ رہے ہیں۔ اس طرح یہ روح کی بیداری جس نے مقصد کو جسم، دماغ، دل کی سطح سے بلند تر کردیا ہے۔
اس مارچ کے غیر ارادی نتائج بھی خارج ازامکان نہیں۔ ایک باشعور اور بیدار قوم کے آزاد اور منصفانہ معاشرے کے اس خواب کو شرمندۂ تعبیر نہ کرنے کا خطرہ غصے کی صورت میں نکل سکتا ہے جو تباہ کن اور پُرتشدد ہو سکتا ہے۔ جو بھی ہو‘ اس مارچ کا سب سے بڑا فائدہ عوام میں حیرت انگیز بیداری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لوگ ناممکن حالات کا سامنا کرنے کے باوجود متحد ہو رہے ہیں۔ یہ حقیقت میڈیا، اشرافیہ، دانشور اور ادارے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام اقتدار کے سامنے جھکنے کے بجائے ارشد شریف مرحوم کے ساتھ وابستگی ظاہر کررہے ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جنہیں جھٹلانا اب کسی کے بس میں نہیں رہا۔ جن کو دوبارہ بوتل میں بند نہیں کیا جائے گا۔ یہ عوام‘ جو اٹھ کھڑے ہوئے ہیں‘ ان کی اہمیت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں