سمجھوتے کا خطرہ اور خرابی

پاناما لیکس‘ پیراڈئز لیکس‘ وکی لیکس؟ دنیا کی کوئی لیکس بھی پاکستان میں ہونے والی لیکس کے بغیر مکمل نہیں۔ اس مرتبہ یہ لیکس ایک سنجیدہ ایشو پر ہیں۔ وزیراعظم اور امورِ خارجہ کی وزیر مملکت کے درمیان پالیسی ہدایات فاش کر دی گئی ہیں۔ پاکستان میں اس وقت لیکس کا موسم ہے۔ افشائے راز کی برکھا برس رہی ہے۔ فون کالز سامنے آ رہی ہیں۔ ہاٹ لائن پر کی گئی گفتگو عوام کے کانوں تک پہنچ رہی ہے۔ چیٹ گروپس میں ان کی گونج ہے کیونکہ واشنگٹن پوسٹ نے ایک کہانی شائع کی ہے۔ یہ لیکس پاکستان کے لیے بہت بڑا معاملہ تھا لیکن حکومت اس پر لب بستہ رہی لیکن اس مرتبہ 'چپ کرکے وقت گزار لیں‘ کی پالیسی کام نہیں دے گی کیونکہ سوالوں کا جواب دینا پڑے گا۔ یہ قومی سلامتی اور سرکاری راز داری کا معاملہ ہے۔
آڈیو لیکس سیزن تھری چل رہا ہے۔ اس سیریل کی ریلیز پر اہم سوالات کا جواب نہیں آیا یہاں تک کہ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے اختلافی لیکس کی صورت قومی سلامتی کو زک پہنچی۔ اہم سوالات یہ ہیں کہ گفتگو کو کون ریکارڈ اور کون لیک کر رہا ہے اور کس مقصد کے لیے؟
اختلافی لیکس صرف دوسرے لوگوں کی باتوں کو ٹیپ کرنا نہیں‘ یہ دور دراز کے کچھ باصلاحیت کمیونٹی گروپس کے نوجوانوں کا ایک ماہرانہ آپریشن ہے۔ یہ سافٹ ویئر وبائی مرض کے دوران تیار کیا گیا تھا کیونکہ شکار کا شوق رکھنے والے تنہا اور مقید زندگی سے اکتا گئے تھے۔ امریکی حکومت کے رازوں کو بڑے پیمانے پر افشا کرنے والے شخص نے اتحادیوں کی جاسوسی کو بے نقاب کیا‘ روس کے ساتھ یوکرین کی جنگ کے سنگین امکانات کا انکشاف کیا اور وائٹ ہاؤس کے لیے سفارتی آگ بھڑکا دی۔ اس نے جاننے والوں کے ایک گروپ کے ساتھ انتہائی خفیہ دستاویزات شیئر کیں۔ اس باصلاحیت شخص نے اسی ٹیکنالوجی کے ذریعے مبینہ طور پر اعلیٰ سطح کے اجلاسوں کو بھی سنا۔ یہ لیکس ہماری ناقص پالیسیوں کے خطرناک جھکاؤ کی ایک خطرناک تصویر پیش کرتے ہیں۔ یہ جھکاؤ ملک کی پہلے سے ہی کمزور بین الاقوامی پوزیشن کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی نئی حکومت چین کے ساتھ تعلقات کی قیمت پر مغرب کو مطمئن کرنے کی خواہش کا اظہار کرتی ہے۔دستاویزات میں یوکرین اور روس کے تنازع پر اقوام متحدہ کی ووٹنگ کے حوالے سے وزیراعظم شہباز کی گفتگو کا انکشاف ہوا ہے۔ دستاویز‘ مورخہ 17 فروری کو ظاہر کرتی ہے کہ حکومت روس کے حملے کی مذمت کی قرارداد کی حمایت کے لیے نئے مغربی دباؤ کے بارے میں فکر مند تھی۔
بظاہر وزیر مملکت حنا ربانی کھر نے وزیراعظم کو بتایا کہ اس اقدام کی حمایت کرنا پاکستان کی پوزیشن میں تبدیلی کا اشارہ دے گا کیونکہ اس سے پہلے اسی طرح کی قرارداد پر عدم توجہی تھی۔ لیکس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ اسلام آباد روس کے ساتھ تجارتی اور توانائی کے معاہدوں پر بات چیت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور قرارداد کی حمایت ان تعلقات کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ اس انکشاف سے پاکستان کے روس اور چین کے ساتھ تعلقات پر کیا اثر پڑے گا‘ کسی کو اندازہ ہے؟ اس سے بھی زیادہ خطرہ یہ ہے کہ حکومت ان ممالک کو خوش کرنے کے اپنے ذاتی مفاد پر قومی مفاد پر سمجھوتا کرنے کے لیے تیار ہے‘ جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ عدم اعتماد کے ووٹ کی حمایت کر رہے ہیں جیسا کہ ان کے اپنے میٹنگ منٹس سے یہ امر تصدیق شدہ ہے۔
اب تھوڑا پیچھے چلتے ہیں۔ امسال ماہِ فروری کے دوسرے عشرے میں سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے یکے بعد دیگرے منظرِ عام پر آنے والی مبینہ آڈیو/ وڈیو لیکس کے تدارک کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان سمیت سپریم کورٹ کے تمام ججز کو تفصیلی خط لکھا تھا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اس معاملے پر اکتوبر 2022ء میں دائر آئینی درخواست فوری سماعت کے لیے مقرر کرنے کی استدعا کی تھی ۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے لکھے گئے خط میں چیف جسٹس اور معزز ججز صاحبان سے آئین کے تحت بنیادی حقوق خصوصاً آرٹیکل 14 کے تحت شہریوں کے پرائیویسی کے حق کے تحفظ کے لیے اقدامات کی استدعا کی گئی تھی۔
خط میں چیئرمین پی ٹی آئی نے لکھا کہ گزشتہ کئی ماہ سے مشکوک اور غیرمصدقہ آڈیوز/ وڈیوز کے منظرِ عام پر آنے کا سلسلہ جاری ہے، منظرِعام پر آنے والی مبینہ لیکس مختلف موجودہ و سابق سرکاری شخصیات اور عام افراد کے مابین گفتگو پر مبنی ہیں۔ یہ لیکس غیر مصدقہ مواد پر مشتمل ہوتی ہیں، ان لیکس کو تراش خراش اور کاٹ چھانٹ کرکے ڈیپ فیک سمیت دیگر جعلی طریقوں سے تیار کیا جاتا ہے۔ سابق وزیر اعظم نے خط میں یہ بھی لکھا کہ چند ماہ پہلے بعض ایسی آڈیوز منظرِ عام پر آئیں جن کے مواد سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ وزیراعظم کے دفتر/ ہاؤس سے متعلق تھیں۔ عمران خان نے اپنے خط میں لکھا کہ ایوانِ وزیراعظم بلاشبہ ریاست کا حساس ترین ایوان ہے جہاں قومی حساسیت کے حامل معاملات پر تبادلۂ خیال کیا جاتا ہے، ایوانِ وزیر اعظم کی سکیورٹی پر نقب زنی سے عوام کی سلامتی، تحفظ اور مفادات پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی: سمجھوتا کرنے کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ یہ حکومت مہنگائی کم کرنے‘ پی ٹی آئی اور آئی ایم ایف کے خلاف سٹینڈ لینے کے وعدے کے ساتھ آئی تھی جیسا کہ اس کا دعویٰ تھا۔ حکومت سنبھالتے ہی مفتاح اسماعیل نے بطور وزیر خزانہ کہا کہ آئی ایم ایف ہی واحد آپشن ہے۔ وزیر خزانہ بننے کے منتظر اسحاق ڈار نے کہا کہ وہ آئی ایم ایف سے بہتر ڈیل کر سکیں گے کیونکہ ان کے پاس دیگر آپشنز موجود ہیں۔ دونوں ناکام ہوئے اور دونوں کاموں میں ناکام رہے۔ نہ تو حکومت مہنگائی کو کم کر سکی اور نہ ہی برآمدات اور ٹیکس وصولی کے ذریعے ریونیو کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کر سکی اور نہ ہی پاکستان کو اب تک کی بدترین مہنگائی اور معاشی مشکلات سے دوچار کرنے کے باوجود آئی ایم ایف کو راغب کرنے میں کامیاب ہو سکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم یہ کہتے رہتے ہیں کہ ہم نے آئی ایم ایف کے تمام مطالبات پورے کر دیے ہیں اور اس لیے آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف کی سطح پر ہونے والا معاہدہ بذاتِ خود ایک سمجھوتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا‘ یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ تمام مطالبات کی منظوری اور ان پر عمل درآمد ہونے کے باوجود تاحال پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین معاہدے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ہمارے دوست اب کسی قسم کا وعدہ کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ یہ زخموں پر مزید نمک پاشی کے مترادف ہے۔ اگرچہ ان ممالک نے آئی ایم ایف کو تحریری یقین دہانی کرائی ہے مگر آئی ایم ایف اس کے باوجود قرض کی نئی قسط فراہم کرنے سے گریزاں ہے اور حیلے بہانے اختیار کر رہا ہے۔ اس دوران ملک سے نو لاکھ کے قریب ہنر مند ماہرین ہجرت کرکے بیرونِ ملک جا چکے ہیں جہاں ان کے لیے زیادہ امید اور استحکام کی کھڑکی کھلی ہے۔ واضح رہے کہ یہ تعداد 2021ء میں دو لاکھ 25 ہزار تھی اور 2020ء میں دو لاکھ 88 ہزار تھی۔اب اس میں چار گنا تک اضافہ ہو چکا ہے۔ ہم اس برین ڈرین‘ صنعتوں کی بندش‘ بے روزگاری‘ عدم تحفظ اور امن و امان کے مسائل کی شکل میں بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔
تصور کریں کہ ایک ملک بھاری قرضوں میں ڈوبا ہوا ہو‘ تصور کریں کہ ایک ملک پچھلے قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرض حاصل کرنے کے لیے بے چین ہو‘ ایک ایسے ملک کا تصور کریں جس کے پاس کوئی متبادل تصور نہیں‘ ایک ایسے ملک کا تصور کریں جس کے فیصلہ ساز صرف امداد‘ قرضوں‘ اپیلوں اور گرانٹس پر تکیہ کر رہے ہوں‘ یہ قرض کی دلدل میں دھنسی‘ سمجھوتا کرنے والی قوم کا ایک کلاسک باب ہے۔ آئی ایم ایف کا سلوک اور لیکس کا انکشاف ہمارے لیڈروں کے دوغلے پن کو ظاہر کرتا ہے۔ پتا چلتا ہے کہ وہ کس قدر مغلوب ذہنیت کے مالک ہیں۔ جیسا کہ وزیراعظم نے خود کہا کہ بھکاری انتخاب کرنے والے نہیں ہو سکتے‘ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ بھیک و امداد پر معیشت چلانا کسی مسئلے کا حل نہیں۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ اس کے علاوہ کوئی حکمت عملی نظر ہی نہیں آ رہی۔ قوم تباہی کے دہانے پر ہے لیکن وزیراعظم کے لیے لندن میں کنگ چارلز کی تاج پوشی میں شرکت کرنا زیادہ ضروری تھا جبکہ وزیر خارجہ گوا کو سدھار گئے۔ یہ ٹھیک ہی کہا جاتا ہے کہ بصیرت سے محروم لوگوں سے زیادہ اندھا کوئی نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں