کورونا خود بھی ذہنی مریض ہے

یہ منٹو کا افسانہ ہے نہ انتظار حسین کی کہانی ‘ یہ میرے ملتانی دوست کی آپ بیتی ہے ۔ لاک ڈاؤن کے ہنگام میں نے حسن کی خیریت معلوم کرنے کے لیے فون کیا تو وہ تھوڑا گھبرایا ہوا تھا ‘ سہمی سہمی آواز میں بات کررہا تھا ۔ میں نے وجہ پوچھی تو دوسری طرف مکمل خاموشی چھا گئی ۔میرا دل بیٹھ گیا‘ خدا خیر کرے‘ یہ بول کیوں نہیں رہا ؟ میں اپنا سوال دہرانے ہی والا تھا کہ پیچھے سے کسی عورت کے چیخنے کی آوازیں آنے لگیں ‘ وہ کہہ رہی تھی'' خدا کے لیے میرے بچوں کاخیال رکھنا ‘ میں چلی جاؤں تو انہیں ماں کی کمی محسوس نہ ہونے دینا ‘‘۔ یہ سب سن کر مجھے یقین ہو گیاکہ ضرور کوئی بری خبر ہے ‘ میں نے ہمت کرکے دوبارہ حسن کو پکارا تو وہ کمرے سے نکلتے ہوئے بولا : یار میں بہت مشکل میں ہوں ‘ میری بیوی کو نفسیاتی مسائل شروع ہوگئے ہیں ۔ میں مضطرب ہوا توکہنے لگا :''تمہاری بھابھی فیس بک پر بہت ایکٹو ہے ‘ جب سے کورونا وائرس پاکستان میں آیا ہے اس کا براحال ہے‘بھانت بھانت کے تبصرے ‘ تصویریں اور ویڈیو زدیکھ کر یہ نیم پاگل ہوگئی ہے ۔ خاص طور پر جب سے اس نے اٹلی میں سٹرکوں پر بکھری ہوئی لاشوں کی تصویریں دیکھی ہیں اس کا رونا بند نہیں ہورہا ‘ اوپر سے ستم یہ کہ لاک ڈاؤ ن کی وجہ سے ذہنی امراض کا کوئی ڈھنگ کا ڈاکٹر بھی نہیں مل رہا ‘‘۔ 
حسن کی بات سن کر میں کانپ اٹھا اور سوچنے لگا کہ ہم کیسی قوم ہیں جو دکھ کی گھڑی میں خوشیاں نہیں غم بانٹ رہے ہیں ‘ علم کی بجائے لاعلمی کو ہوا دے رہے ہیں ۔ ہم نے کیوں خوف کے سوداگر بن کر افواہوں کے بازار میں سچ کو کہیں قید کردیا ہے ۔ میں نے حسن کو بتایا کہ وہ تصویرکورونا وائرس سے مرنے والوں کی نہیں ہے ‘ وہ تو 2014ء میں جرمنی میں پیش کیے جانے والے ایک سٹریٹ آرٹ کا سین ہیـ۔ خدا جانے یہ کون لوگ ہیں جو جان بوجھ کر جہالت کا مظاہرہ کررہے ہیں ‘ کورونا وائرس سے سہمے عوام کو موت سے ڈرا رہے ہیں۔ میری بات سن کر حسن بولا :میں اب کیا کہہ سکتا ہوں؟ اس نے فون بند کردیا اورمجھے خیال آیا کہ یہ کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر عمومی رویہ ہے کہ ہم بغیر تصدیق کیے سچ جھوٹ پھیلانے کے عادی ہو گئے ہیں ‘ نہ جانے ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ سنی سنائی باتوں کو بغیر تحقیق کیے پھیلانے والے کو ہمارے نبی کریم ﷺنے جھوٹا کہا ہے ۔
کورونا وائرس اب اقوامِ عالم کے لیے فوبیا بن چکا ہے ‘ ہر انسان دوسرے سے زیادہ ڈرا ہو ا ہے ۔ زندہ رہنے کی آرزو اور موت کے خوف نے سکون چھین لیا ہے‘ مگر ہم پاکستانی ہیں کہ سنجیدہ ہونے کا نام نہیں لے رہے ‘ہمیں شاید اندازہ نہیں کہ قدرتی آفات اور جنگوں کے اثرات ہوتے ہیں ‘ قومیں سیاسی ‘ سماجی اور معاشی اثرات تو سہہ جاتی ہیں مگر ذہنی اثرات نسلوں کو بھگتنا پڑتے ہیں۔ 1918ء کے سپینش فلُواور اس کے اثرات پر بہت بات ہوچکی‘ ہم 1968ء میں تباہی مچانے والی ''انفلوئنزااے‘‘ وبا کا ذکر کرتے ہیں ۔ اس فلُو سے دس لاکھ سے ز ائد لوگ زندگی کی بازی ہار گئے تھے‘ جن میں سے ایک لاکھ کا تعلق صرف امریکہ سے تھا۔ امریکیوں کے لیے یہ صدمہ برداشت کرنا مشکل ہو گیا ۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ امریکہ کی آدھی آبادی نفسیاتی و ذہنی مسائل کا شکار ہو گئی تھی‘ جس پر قابو پانے کے لیے امریکی حکومت کو سالوں محنت کرنا پڑی تھی ۔ 
تاریخ کے صفحے الٹیں تو دوسری جنگ عظیم کا موجد ہٹلر آگے کھڑا ہوتا ہے ‘ یہ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ہٹلرنے پہلی جنگ عظیم میں بطور سپاہی(نائیک) جرمنی کی نمائندگی کی تھی ۔ اکتوبر 1918ء میں برطانوی فوج کی تباہ کن بمباری اور شدید گیس حملے کے باعث ہٹلر کچھ عرصے کے لیے اندھا ہو گیا تھا اور اسے جرمن فوج سے نکال دیا گیا ۔ہٹلر ان دونوں باتوں کو دل پرلے بیٹھااور اسے ذہنی و نفسیاتی مسائل نے گھیر لیا ‘جس کا خمیازہ دوسری جنگ عظیم میں کروڑوں لوگوں کو بھگتناپڑا۔یہ نفسیاتی مسائل ہی تھے جنہوں نے ہٹلر کو ہٹلر بنایا ورنہ آپ خود سوچیں ایک آرٹسٹ اتنا سفاک اور ظالم کیسے ہو سکتا ہے؟ 
تاریخ ایسے واقعا ت سے بھری پڑی ہے ‘ جب جنگوں کے منفی اثرات نے قوموں کو ڈبودیا ۔ ہلاکو خان نے بارہویں صدی میں بغداد پرحملہ کیا تولاکھوں لوگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈکر ماراگیا‘ ہسپتالوں ‘ لائبریریوں اور عبادت گاہوں کو تباہ کردیا گیا ۔ ہلاکو خان خون کی ندیاں بہا کر شام چلاگیا مگر تاریخ گواہ ہے کہ پچاس سال تک بغداد کی گلیوں سے چیخوں کی آوازیں آتی رہیں ۔ یہی نہیں تیرہویں صدی کے آخر میں امیرتیمورنے دلی میں انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنائے تووہاں کے باسیوں پر اس کے نفسیاتی اثرات دہائیوں تک رہے ۔ دلی اجڑ کر بس گیا مگر تیمور کی ہیبت نے لوگوں کو چین سے سونے نہ دیا۔ 
جب سے دنیا وجود میں آئی ہے قدرتی آفات کا آنا جانا لگا رہتا ہے ‘ کورونا وائرس آیا ہے‘ ختم بھی ہو جائے گا‘ کیونکہ کوئی چیز ہمیشہ رہنے کے لیے نہیں ہوتی‘ لیکن اگر ہم نے اپنے سماجی رویوں کو نہ بدلا تو کورونا وائر س کے بعد کا پاکستان زیادہ تکلیف دہ ہو گا ۔ نفسیاتی اور ذہنی امراض نے آدھی آبادی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا تو حکومت کیا کرے گی ؟ ہمارے صحت کے محکمے میں اتنی سکت نہیں ہے کہ یہ بوجھ اٹھا سکے ۔ آپ کو یہ جان کرحیر ت ہوگی کہ پاکستان میں ذہنی امراض کا شعبہ بہترسالوں میں سب سے زیادہ نظر انداز ہوا ہے ‘ صرف پانچ ہسپتال ہیں اور لگ بھگ پانچ سو ڈاکٹرز‘ یعنی پانچ لاکھ افراد کے لیے صرف ایک ڈاکٹر ۔ اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ان ہسپتالوں میں سہولیات اور گنجائش دونوں ہی ناکافی ہیں ۔ آبادی کے تناسب سے ایک لاکھ افراد کے لیے دو بیڈ بھی میسرنہیں ہیں‘ جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں اتنے لوگوں کے لیے پچاس بستر دستیاب ہوتے ہیں ۔امریکہ ہر سال اپنے شہریوں کی ذہنی صحت پر 200 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے‘ جبکہ برطانیہ نے گزشتہ سال 12.2 بلین پاؤنڈ اس کام کے لیے مختص کیے تھے ۔ افسوس کہ پاکستان میں ذہنی امراض کا شعبہ ہی نہیں‘ سارے کا سارا صحت کا نظام ہی قابلِ رحم ہے ۔
پاکستان میں سوشل میڈیا اس وقت افواہ ساز فیکٹری کا کام کر رہا ہے ‘ خدارا اس کو بند کریں ورنہ پوری قوم کو ناقابلِ تلافی نقصان ہو گا۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں بیٹھے لوگ ایک دوسرے کو تسلی نہیں دے سکتے تو اپنے لیے ہی سامانِ فرصت کا کوئی اچھا انتظام کر لیں۔ میرے ہم وطنوں کو چاہیے کہ وہ برٹرینڈ رسل کی کتاب: The Conquest of Happinessپڑھیں ‘ انہیں ذہنی آسودگی نصیب ہو گی۔ زیادہ جی متلائے تو میر کا دیوان کھول لیں ‘ رومی کی انوارالعلوم کا مطالعہ کریں ‘ امیر خسرو‘ سعدی ‘ غالب یا اقبال پڑھیں ‘ ان کے دلوں کی الجھنیں دور ہوتی چلی جائیں گی۔افواہیں پھیلانے والے یاد رکھیں‘ یہ جان لیوا وائرس ہے جو پوری انسانیت کے لیے خطرہ بن رہا ہے اور اس کا مقابلہ کوئی اکیلا نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی کوئی سرحد ہے نہ مذہب ‘ ثقافت ہے نہ خاندانی روایات۔ یہ مرد ‘ عورت ‘ بوڑھے‘ نوجوان سب پر ایک ساتھ وار کر رہا ہے ‘ اتنا ظالم اور بے رحم تو شاید چنگیز خان بھی نہ تھا ‘ یوں لگتا ہے یہ کورونا خود بھی ذہنی مریض ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں