ملک کی کس کو فکر ہے ؟

شعور کسے کہتے ہیں‘ آگہی کس کا نام ہے اور علم کی معراج کیا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کی گتھیاں سلجھاتے سلجھاتے دہائیاں بیت جاتی ہیں مگر تشنگی دور نہیں ہو پاتی۔ کیا صرف اپنے حق کے لیے جدوجہد کرنا شعور ہے؟ کیا انسانی حقوق کی پامالی پر الزام تراشی اور گالم گلوچ آگہی ہے؟ یا پھر حقوق کے لیے لڑائی مول لینا علم کی معراج ہے؟
امریکہ کے سابق صدر براک اوباما سے ایک بار پوچھا گیا کہ آپ کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے؟ اوباما نے جواب دیا: امریکہ کا صدر بننا۔ پھر پوچھا گیا: یہ کیسے ممکن ہو گا؟ براک اوباما قدرے توقف کے بعد بولے: جب امریکہ کے عوام کا شعور کالے اور گورے کی تفریق سے بلند ہو جائے گا تو پھر ہر ناممکن چیز ممکن ہو جائے گی۔ میری دانست میں کسی ایک شخص کی ذات کے گرد طواف کا نام شعور نہیں ہے بلکہ اجتماعیت کے مفاد کی آگہی کو شعور کہا جاتا ہے۔
ملک بھر میں ایک بار پھر الیکشن کا بگل بج چکا ہے۔ سبھی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے راگ الاپ رہی ہیں‘ ایسے میں عوام کی کسی کو پروا نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی نے تاحال اپنے منشور تک کا اعلان نہیں کیا ہے۔ دونوں بڑی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے عمران خان کو ہدفِ تنقید بنایا ہوا ہے۔ کبھی نو مئی کی بات کی جاتی ہے اور کبھی سائفر کیس کا طعنہ دیا جاتا ہے، کبھی القادر ٹرسٹ کیس کا الزام دہرایا جاتا ہے اور کبھی پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کی عائلی زندگی کو سیاسی موضوع بنایا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کا بھی یہی حال ہے۔ اسے صرف اپنی مظلومیت نظر آ رہی ہے اور مسلم لیگ (ن) کو موردِ الزام ٹھہرانے کے علاوہ اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ ایک بار پھر سیاسی میدانوں میں چور‘ ڈاکو کے نعرے گونج رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے اور الزامات کی گٹھڑی اٹھائے مسلسل تیر برسا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کی جانب سے کبھی پی ٹی آئی کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی مسلم لیگ (ن) کو۔ کبھی میاں نواز شریف کی بڑھتی عمر پر طنز کیا جاتا ہے اور کبھی عمران خان کا نوجوانوں کا ''ستر سالہ لیڈر‘‘ کہہ کر مذاق اڑایا جاتا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کوئی ایک سیاسی جماعت بھی اس وقت مثبت اور تعمیری انتخابی مہم نہیں چلا رہی۔کوئی ایک جماعت بھی ایسی نظر نہیں آ رہی جو عوامی مسائل کو اجاگر کر رہی ہو۔ کوئی ایک جماعت بھی پاکستان کے مستقبل کو لے کر فکرمند نظر نہیں آ رہی۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟
مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے اکابرین بتانا پسند کریں گے کہ ان کی الیکشن مہم میں مہنگائی پر بات کیوں نہیں کی جا رہی؟ عوام کے سامنے معیشت کی بہتری کے لیے تجاویز کیوں نہیں رکھی جا رہیں؟ بیروزگاری کا قلع قمع کرنے کی حکمتِ عملی اب تک کیوں سامنے نہیں آ سکی؟ زراعت اور صنعتوں کا فروغ کیسے ممکن بنایا جائے گا؟ برآمدات میں اضافہ کیسے ممکن ہو گا؟ زرمبادلہ کے ذخائر کیسے بڑھیں گے؟ قرضوں کا بوجھ کیسے کم ہو گا؟ خارجہ پالیسی کیسے بہتر ہو گی اور ہمسایوں کے ساتھ تناؤ کی کیفیت میں کمی کیسے آئے گی؟ کیا ملکی سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ کو معلوم ہے کہ پاکستان میں 2 کروڑ 62 لاکھ بچے سکول جانے سے محروم ہیں اور اس کا انکشاف وفاقی وزارتِ تعلیم کی تازہ رپورٹ میں سامنے آیا ہے۔ پنجاب میں ایک کروڑ 17 لاکھ 30 ہزار بچے تعلیم سے محروم ہیں، سندھ میں 76 لاکھ 30 ہزار بچے، کے پی میں 36 لاکھ 30 ہزار بچے اور بلوچستان میں 31 لاکھ 30 ہزار بچے تعلیم حاصل نہیں کر رہے جبکہ وفاقی دارالحکومت میں سکولوں سے باہر بچوں کی تعداد 8 لاکھ سے زائد ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ وقت کے ساتھ سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق 2016ء اور 2017ء میں 44 فیصد بچے سکولوں سے باہر تھے جبکہ 2021ء اور 2022ء میں 39 فیصد بچے سکول سے باہر ہیں۔ اس حوالے سے بلوچستان میں صورتحال سب سے زیادہ گمبھیر ہے۔ بلوچستان میں 65 فیصد بچے سکول جانے سے محروم ہیں۔ کیا کوئی سیاسی جماعت ہے جو تعلیم جیسے مسائل پر انتخابی مہم چلارہی ہو؟ کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے عوام کے مسائل حل کرنا ہماری سیاسی جماعتوں کی ترجیح ہی نہیں۔ کون سی پارٹی ہے جو صحت کے نظام کو بہتر بنانے کی خواہاں ہے؟ پاکستان میں ہیلتھ سسٹم تباہی کا شکار ہو چکا ہے۔ چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر پورے ملک میں علاج معالجے کی سہولتوں کا فقدان ہے۔ ضلع کی سطح پر بنائے گئے ہسپتال ناکافی ہیں اور ہر جگہ ڈاکٹرز کی قلت ہے۔ تحصیل ہسپتال اور دیہات میں بنائی گئی ڈسپنسریوں کی صورتِ حال ناگفتہ بہ ہے۔ اندرونِ سندھ میں آج بھی پچاس فیصد بچے غذائی قلت کے باعث کمزور پیدا ہوتے ہیں۔ پورے ملک میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔ چولستان اور تھرپارکر میں انسان اور جانور ایک ہی جگہ سے پانی پینے پر مجبور ہیں۔ کراچی میں عام استعمال کے لیے بھی پانی بازار سے خریدنا پڑتا ہے۔ وہاں ٹینکر مافیا کا راج ہے۔ ہر صوبے میں ٹرانسپورٹ کا نظام بدحالی کا شکار ہے۔ افسوس! صد افسوس! ہماری سیاسی جماعتوں کو ان مسائل کی ذرہ برابر بھی فکر نہیں ہے۔ کاش! انتخابی مہم میں تھوڑا سا دھیان اس طرف بھی مبذول کر لیا جائے۔
دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کے اپنے مسائل ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے اپنے گلے شکوے۔ پیپلز پارٹی کی اپنی رام کہانی ہے اور ایم کیو ایم کی اپنی الگ ہی داستان۔ دیگر سیاسی جماعتیں بھی اپنی اپنی سطح پر مظلومیت کارڈ کھیل رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کوگلہ ہے کہ اسے لیول پلینگ فیلڈ نہیں دی جا رہی، اس سے بلے کا انتخابی نشان چھین لیا گیا ہے، پارٹی کی لیڈرشپ جیلوں میں بند ہے، انتخابی امیدواروں کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے اور سب سے بڑھ کر‘ انہیں جلسے جلوس نہیں کرنے دیے جا رہے۔ مسلم لیگ (ن) ابھی تک ماضی میں جی رہی ہے اورہمیشہ 2013ء سے 2017ء کے دور کی بات کرتی ہے جبکہ میاں نواز شریف سے کی جانی والی زیادتیوں اور ناانصافیوں کے لیے 2018ء کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو شکوہ ہے کہ اگر اس کی حکومتوں کو وقت سے پہلے ختم نہ کیا جاتا تو آج پاکستان کے معاشی و سیاسی حالات کافی بہتر ہوتے۔ گمان ہوتا ہے کہ جیسے مسلم لیگ (ن) کے پاس آج بھی سوائے موٹرویز، بجلی کے کارخانوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے‘ کہنے کو اور کچھ نہیں ہے۔ کوئی مسلم لیگی لیڈران سے پوچھے کہ وہ ماضی سے آگے کیوں نہیں بڑھ رہے؟ اس وقت ملک کو جو مشکلات اور مسائل درپیش ہیں‘ ان کا حل کیا ہے؟ دہشت گردی کا عفریت ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے‘ اس کا خاتمہ کون کرے گا؟ ملک کو مہنگائی کے گرداب سے کون نکالے گا؟ کیا ہماری سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی جواب ہے؟
پاکستان کی بڑی اور چھوٹی جماعتوں کی سوچ اور سیاست بالکل مختلف ہے۔ جے یو آئی (ایف)، اے این پی اور دیگر قوم پرست جماعتیں آج بھی الیکشن سے راہِ فرار اختیار کرنا چاہتی ہیں۔ سینیٹ میں الیکشن کے التوا کے حوالے سے دو قراردادیں جمع ہو چکی ہیں جبکہ ایک قرارداد تو پاس بھی ہو چکی ہے۔ نجانے کون لوگ ہیں جو الیکشن کا التوا چاہتے ہیں‘ جو ملک میں جمہوریت کو پنپتا نہیں دیکھ سکتے؟ انہیں شاید ادراک ہی نہیں ہے کہ اس وقت الیکشن کس قدر ناگزیر ہو چکے ہیں مگر مجال ہے کہ یہ طبقات اپنے اپنے تعصبات سے اوپر اٹھ پا رہے ہوں۔
پاکستان کے عوام کو ووٹ ڈالتے ہوئے یہ ضرور مدنظر رکھنا چاہیے کہ ان کو درپیش مسائل کا حل کس سیاسی جماعت کے پاس ہے۔ کون ملک کی کشتی کو مسائل کے بھنور سے نکال سکتا ہے؟ عوام کو بہرطور یہ سوچنا ہو گا کیونکہ اس بار مسئلہ زیادہ گمبھیر ہے۔ یہ اقتدار کی جنگ نہیں بلکہ ملک کی بقا کا سوال ہے۔ اگلی سیاسی حکومت کی کامیابی انتہائی ضروری ہے۔ اگر آئندہ حکومت بھی سیاسی چپقلش کی نذر ہو گئی تو پھر ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں