سوشل میڈیا کا زہر

سائنس، ٹیکنالوجی اور جدت کے بغیر زندگی کے رنگ پھیکے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے فرض کرتے ہیں کہ کسی وجہ سے موبائل فون پر پابندی لگ جاتی ہے‘ سوچیے کہ اب کیا ہو گا؟ ٹیلی وژن پر اسی اور نوے کی دہائی کی طرح اوقات مقرر کر دیے جائیں تو لوگوں کی نفسیات پر کیا اثر پڑے گا؟ دنیا ہوائی جہاز کا سفر ترک کرکے بحری اور زمینی راستوں کا استعمال شروع کر دے تو وقت کا کتنا ضیاع ہو گا؟ انسانی زندگی میں جدت لازم و ملزوم ہے۔ وقت کا پہیہ چلتا رہتا ہے اور ٹیکنالوجی بھی نئی سے نئی شکل اختیار کرتی رہتی ہے۔ پاکستانیوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ یہ جدت کو اختیار کرنے میں سالوں ضائع کر دیتے ہیں۔ لاؤڈ سپیکر ایجاد ہوا تو ہمارے ہاں اسے شرفِ قبولیت نہ مل سکا۔ فتویٰ دیا گیا کہ لاؤڈ سپیکر فتنہ ہے‘ اسے استعمال نہ کیا جائے۔ ریڈیو کو بھی اپنے ہونے کا احساس دلانے میں دہائیاں لگ گئیں کیونکہ لوگوں کا خیال تھا کہ ریڈیو سننے والا بہرہ ہو جاتا ہے۔ ٹیلی وژن پر بھی حرام اور حلال کے فتوے لگتے رہے اور اسے جدت کے بجائے معاشرتی برائی کے طور پر لیا گیا۔ کمپیوٹر کا دور آیا تو اسے فحاشی کا اڈا قرار دے کر مسترد کر دیا گیا۔ جس ملک میں عورت کے سیاست میں حصہ لینے پر فتویٰ آ جائے اور پولیو کے قطرے پلانے کے خلاف مہم شروع ہو جاتی ہو‘ وہاں سائنس کیسے پنپ سکتی ہے؟ ٹیکنالوجی کا انقلاب کیسے آ سکتا ہے؟ اورجدت کا ظہور کیسے ممکن ہے؟
ہماری قوم کی نفسیات شاید انسانی معدے کی طرح ہے۔ جیسے معدے کی برداشت سے زیادہ کچھ اس میں انڈیل دیا جائے تو بدہضمی شروع ہو جاتی ہے ویسے ہی ہماری قوم نئی چیز دیکھ کر توازن کھونے لگتی ہے اور طرح طرح کے الزامات اور پروپیگنڈا مہمات شروع کر دیتی ہے۔ جدت کو سمجھنے سے پہلے رائے زنی ہوتی ہے اور استعمال سے قبل ہی وہ شے مسترد کر دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا رجحان سائنس اور ٹیکنالوجی سے کوسوں دور ہے۔ جو قوم نئی چیز کو برداشت نہ کر سکے وہ ایجادات کیسے کر سکتی ہے؟ گزشتہ تین‘ چار دہائیوں میں سائنس کے میدان میں ناقابلِ یقین حد تک ترقی ہوئی ہے مگر ہم ہر لحاظ سے پتھر کے زمانے میں جینا چاہتے ہیں۔ ہم جدت کو اپنانے میں بہت پیچھے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک بہت اچھا فیصلہ کیا کہ اہم مقدمات کی سماعت ٹی وی پر لائیو دکھانے کا حکم دیا تاکہ عوام کی لاعلمی دور ہو اور انہیں ادراک ہو سکے کہ عدالتوں میں سماعت کیسے ہوتی ہے۔ ایسا ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا مگر پاکستانی عوام اتنے بڑے علمی تجربے کو بھی ہضم نہ کر سکے۔ ان کا رویہ وہی تھا جو ریڈیو، لاؤڈ سپیکر، ٹی وی اور کمپیوٹر کی ایجادات کے بعد دیکھنے کو ملا تھا۔ وہ لوگ جنہوں نے زندگی میں پہلی بار سپریم کورٹ میں ہونے والی سماعت دیکھی‘ وہ بھی تنقید کے تیر ترکش میں ڈال کر کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے اپنی لاعملی اور ناتجربہ کاری کو اپنا ہتھیار بنا لیا اور بھانت بھانت کے تبصرے کرنے لگے۔ میں نے بطور صحافی پہلی بار میمو گیٹ سکینڈل کی کوریج کے دوران سپریم کورٹ میں سماعت اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی۔ اس کے بعد وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر توہینِ عدالت کی سماعت بھی سپریم کورٹ میں جا کر دیکھی تو مجھے علم ہوا کہ عدالت میں جرح کیسے ہوتی ہے ؟ ججز چھوٹے چھوٹے اور عام فہم سوال کیوں پوچھتے ہیں؟ وکلا سے سخت رویہ کیوں برتا جاتا ہے اور مسکراہٹوں کا تبادلہ کب ہوتا ہے؟ پہلے پہل حیرت ہوتی تھی مگر بعد ازاں علم ہوتا چلا گیا کہ جرح اسی کا نام ہے اور عدالتی کارروائی ایسے ہی چلتی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں اب تک بیسیوں کیسز کی سماعت لائیو دکھائی جا چکی ہے مگر لوگ اب بھی سوالات کرتے نظر آتے ہیں کہ ججز درخواست گزار کے بارے معلومات کیوں لیتے ہیں؟ وکیل سے کیوں پوچھا جاتا ہے کہ آپ کس کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ جرح کرتے ہوئے پے درپے سوالات کیوں پوچھے جاتے ہیں؟ وکیل صفائی اور وکیل استغاثہ سے تکرار کیسے ہوتی ہے؟ دکھ کی بات یہ ہے کہ لوگوں نے اپنی لاعملی دور کرنے کے بجائے ان ایشوز پر بھی سیاست شروع کر دی ہے۔ سیکھنے کے بجائے تنقید پر اتر آئے ہیں۔ انہوں نے جھوٹ‘ سچ اور غلط‘ صحیح کا فرق جاننے کے بجائے ذاتی پسند اور ناپسند کو اپنا پیمانہ بنا لیا ہے۔
سوشل میڈیا کے وہ صارف جنہیں لگتا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا رویہ بہت سخت ہوتا ہے‘ انہوں نے شاید لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس مولوی مشاق حسین کے بارے میں کبھی نہیں سنا۔ مولوی صاحب کی عدالت میں بڑے سے بڑا وکیل جاتے ہوئے گھبراتا تھا۔ کسی کی جرأت نہیں تھی کہ ان کے سامنے اپنی آواز اونچی کر سکے۔ مولوی مشتاق حسین کی سربراہی میں بننے والے بینچ ہی نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنائی تھی۔ مولوی مشتاق حسین اکثر سابق وزیراعظم اور ملک کے مقبول ترین لیڈر کو ڈانٹ دیا کرتے تھے۔ سوشل میڈیا پر تنقید کرنے والوں نے شاید کبھی سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی عدالت کا احوال بھی نہیں سنا۔ ان کا رویہ سیاستدانوں اور افسر شاہی کے ساتھ بہت سخت ہوتا تھا۔ اکثر انہی وجوہات کے باعث اس وقت کے اٹارنی جنرل عرفان قادر کی چیف جسٹس سے بحث ہو جایا کرتی تھی۔ سب سے بڑھ کر‘ ان نقادوں کو سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ کی عدالتوں میں جانے کا بھی اتفاق نہیں ہوا۔ جسٹس ثاقب نثار سیاستدانوں کی باقاعدہ تضحیک کیا کرتے تھے اور وہ مکمل طور پر ''سیاسی جج‘‘ بنے ہوئے تھے۔ وہ انصاف کی سب سے بڑی مسند پر بیٹھ کر جو کچھ کرتے رہے‘ اس کی مثال ہماری تاریخ میں خال خال ہی ملتی ہے۔ وہ کسی کی بھی عزت اچھال دیتے‘ کوئی انہیں روکنے ٹوکنے والا تھا نہ سمجھانے والا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی متعدد بار اپنی آئینی اور قانونی حدود سے تجاوز کیا۔ انہوں نے اپنے فیصلوں میں سیاستدانوں کے بارے ایسے ایسے القابات لکھے جو ان کے منصب کے شانِ شایان نہیں تھے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی عدالت پر اعتراض کرنے والے شاید پاناما بینچ کو بھول گئے ہیں۔ وہاں جس طرح سابق وزیراعظم کی پگڑی اچھالی گئی تھی اس کی نظیر نہیں ملتی۔
جب سے سپریم کورٹ نے تحریک انصاف سے بلے کا نشان واپس لیا ہے تب سے سوشل میڈیا پر عدلیہ کے خلاف تضحیک آمیز ٹرینڈز چلائے جا رہے ہیں، تواتر کے ساتھ الزام تراشی کی جا رہی ہے اور چہار سو پروپیگنڈا کا بازار گرم ہے۔ عدالتوں کے فیصلوں پر تنقید کی جا سکتی ہے مگر کسی جج کی ذات کو ہدفِ تنقید بنایا جا سکتا ہے نہ ہی پروپیگنڈا کیا جا سکتا ہے۔ گزشتہ چند دنوں سے ایک مخصوص ٹولہ مسلسل چیف جسٹس صاحب کے خلا ف مورچہ سنبھالے ہوئے ہے اور ان کی ذات پر تنقید کی جا رہی ہے۔ مجھے خود بھی ذاتی طور پر سپریم کورٹ کے فیصلے سے اختلاف ہے مگر میرا اختلاف قانونی پہلوئوں سے ہٹ کر فیصلے کی ٹائمنگ سے متعلق ہے۔ الیکشن سے عین قبل اس طرح کا فیصلہ کافی مضمرات کا حامل ثابت ہو گا۔ اس سے پی ٹی آئی کا بطور سیاسی جماعت وجود خطرے میں پڑ چکا ہے۔ کروڑوں ووٹرز کے حقوق متاثر ہوئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ فیصلہ دیتے وقت سپریم کورٹ کو یہ حقائق بھی مدنظر رکھنا چاہئیں تھے مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ فیصلہ دیتے ہوئے قانون سے تجاوز کیا گیا۔
نگران حکومت نے عدلیہ کے خلاف مہم چلانے والوں کے خلاف چھ رکنی کمیشن بنایا ہے جو ان سارے کرداروں کو بے نقاب کرے گا۔ ہماری سیاسی جماعتوں کو سوشل میڈیا سے فائدہ ضرور اٹھانا چاہے لیکن اس کو منفی پروپیگنڈے کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ یاد رکھیں! یہ وہی عدالت ہے جس نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں ضمانت دی۔ یہ وہی عدالت ہے جس نے الیکشن کے انعقاد کے لیے احکامات جاری کیے۔ یہ وہی عدالت ہے جس میں آج بھی سب سے زیادہ پی ٹی آئی کے کیسز زیرِ سماعت ہیں۔ خدارا! سوشل میڈیا کے ذریعے زہر مت پھیلائیں۔ ایسا نہ ہوکہ حالات بگڑ جائیں اور سوشل میڈیا کا زہر نکالنے کے لیے پابندیوں کا سہارا لیا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو آزادیٔ اظہارِ رائے کا قاتل کون ہو گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں